• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’نوہٹو ‘‘ قدیم شہر کے آثار پر سے پردہ اُٹھانے کی ضرورت ہے

’’نوہٹو ‘‘ قدیم شہر کے آثار پر سے پردہ اُٹھانے کی ضرورت ہے

نعمان علی

’’نوہٹو ‘‘ایک بڑے شہر سے اب گاؤں کی شکل اختیار کر چکا ہے۔یہ علاقہ دریائے ہاکڑا کے کنارے، نوکوٹ قلعے کےبرابر میں مشرق کی جانب نکلنے والے رستے پر 20 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے،جب دریا سوکھتے ہیں تو تہذیبیں تباہ ہو کر کھنڈرات میں بدل جاتی ہیں اور جب کسی گاؤں کا دل بنجر ہوجاتا ہے تو وہ اپنا وجود نہیں بچا پاتا۔نوہٹو بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔اس گاؤں کی دیگر شناخت بھی ہیں، لیکن سب سے بڑی شناخت وہ تاریخی آثار ہیں ،جو ایک ڈیڑھ کلومیٹر کے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ 

یہ آثار گاؤں سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہیں۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مہررانی کا قلعہ تھا۔جنوب کی جانب نونریوں نام سے ایک قبرستان ہے۔اس قبرستان کے بالکل سامنے پریوں والی کنڈی ہے، یہاں پر بھی اس شہر سے منسلک قدیم آثار پائے جاتے ہیں۔

ویسے تو یہ سارا گاؤں آثار پر آباد ہے، لیکن اس کے آس پاس کا علاقہ اب اس پرانے شہر کا حصہ ہے ،جو میلوں تک پھیلا ہوا ہے۔جنوب میں چند کلومیٹر کے فاصلےپر ریت کا ٹیلا واقع ہے ،جو ویران ہے۔یہاں میوہر اور مہراں نامی جھیلیں موجود ہیں۔ مہراں کے کنارے دو قدیم قبریں بھی ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں مہررانی اور مگنہار فقیر دفن ہیں۔نوہٹا میں پھول نامی کنواں بھی ہے، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ جب لاکھو فلانی مہررانی سےشادی کرنے آیا تھا، تو اس وقت اس نے یہ کنواں کھدوایا اتھا۔نوہٹے کے تاریخی آثار کے متعلق بہت ساری کہانیاں مشہور ہیں، ان میں سے ایک مہررانی اور لاکھو فلانی کی داستان بھی ہے۔

اس علاقے کو جکھرے کا مقام بھی کہا جاتا ہے۔ جکھرو لسبیلہ کے حکمران تھے اور اس نام کے تین چار بادشاہ گزرے ہیں۔اب یہ کون سا جکھرا ہے ، اس سے متعلق مستند معلومات نہیںہیں۔نوہٹو یہاں کی لوک داستانوں میں زندہ رہا ہے،یہ اہم تجارتی مرکز تھا،مگر عمر وریا اور جروار والی ڈکیتی (ان دو ڈاکوؤں نے ساتھیوں کےسے مل کر ایک ہی دن میں پورا شہر لوٹ لیا تھا، کے بعد یہ شہر مکمل طور پر برباد ہو گیا۔)بارش ہوتی ہے ،تو لوگ’ ’سونے کی تلاش‘ ‘میں یہاں ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یہاں سونے کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں ملی ہیں، جن میں زیادہ تر سکّے ہیں۔چند سال پہلے یہاں کھدائی کروائی گئی،تو مٹی کا ایک بندر، چوڑیوں کے ٹکڑے، مٹی کے گولے اور دیگر اشیا ءملی تھیں۔ قدیم آثاریہاں سے بر آمد ہونے کے باوجود کے باوجود اس شہر پر سائنسی انداز میں کوئی تحقیق نہیں کی گئی۔

محققین کو، یہاں سے ایک سیاہ رنگ کی مستطیل مہرملی ،جو موہن جو دڑوسے ملی مہروں سے مشابہت رکھتی ہے۔اس مہرپر اُسی زبان کے تین الفاظ درج تھے۔ معروف تاریخ دان نبی بخش بلوچ کا خیال تھا کہ یہ علاقہ سومرا دور میں مریلہ حکومت کا مرکز تھا۔ انہیں یہاں سے سیپ کی چوڑیاں، عاج کا لمبا دانا (ہڈیوں سے بنا زیور) اور عرب ہباری دور کے منصورہ اور مغل بادشا محمد شاہ کے ادوار کے چند سکّے بھی ملے۔نوہٹے سے ملنے والے سکّوں پر اس کے بعد عبداللہ وریا کا کام اہم ہے۔ انہوں نے یہاں سے برآمد ہونے والے سکّوں پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا۔وہ سکے انہیں حاجی میر حسن نون اور فقیر مقیم نے دیے تھے۔

انہوں نے ان سکوں کو کشاں، عرب اور سما ادوار کے سکوں سے مشابہت دیتے ہوئے ان کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔یہاں سے رن کچھ کے چھوٹے سکے بھی ملتے رہے ہیں۔کھدائی کے آغاز میں ہی کئی بیش قیمت اشیا ملیں، جن میں مٹی سے بنے ایک جانور کی گردن کا حصہ بھی شامل ہے، جس پر آنکھوں اور ناک کے نقش و نگار نمایاں ہیں۔ایک مہرملی ہے، جس کی تحریر موہن جو دڑو سے ملنے والی تحریر سے ملتی جلتی ہے۔سیپ سے بنا ہوا ایک زیور برآمد ہوا ہے ،جس کے بارے میں کھدائی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پہلے زمانے میں لوگ سیپ کے زیور بنایا کرتے تھے ،جو نسل در نسل ایک دوسرے کو منتقل کیے جاتے تھے اور جب قبیلے کا کوئی بڑا مر جاتا تھا، تو اس کے ساتھ یہ زیور بھی دفنا دیے جاتے تھے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نوہٹہ سے برآمد ہونے والے سیپ بحیرہ عرب سے نہیں نکالے گئے ،بلکہ یہ کسی اور سمندر کے ہیں۔ 

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کے باسیوں کا تعلق سمندر پار کے لوگوں سے تھا۔ایک دیوار کے آثار نظر آتےہیں، جس کی کھدائی ابھی تک جاری ہے۔مٹی کے کھلونے، چھوٹی گاڑیوں کے پہیے اور کئی اشیا ملی ہیں۔کچھ محققین کا خیال ہے کہ اس تاریخی مقام کا تعلق موہن جو دڑو اور ڈولا ویرا (جو رن کچھ کے دوسری جانب بھارت میں واقع تاریخی مقام ) کے درمیاں رابطے کا بھی ہو سکتا ہے۔کھدائی کا کام جیسے جیسے بڑھے گا امید ہے کہ محققین کسی درست نتیجے پر پہنچیں گے۔

جیسا کہ یہاں سے ملنے والی مہرکے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ موہن جو دڑو سے ملنے والی مُہر سے مشابہت رکھتی ہے، تو ہو سکتا ہے کہ اس تاریخی مقام کی کھدائی بھی دیگر قدیم مقامات کی طرح باقاعدگی سے کی جائے اور یہاںبھی باقاعدگی سے تحقیقی کام ہو۔خلیل کنبہار نے اپنی نظم ’’سُکھاں‘‘ کے ذریعے اس تاریخی آثار کو اس طرح پیش کیا ہے۔’’تم جو آثار دیکھ رہے ہو، ان میں صدیاں آگ کی طرح دفن ہیں اور ان میں شہداء کا خوں بھی شامل ہے۔یہ پہلے ہوتھل کا محل ہوا کرتا تھا، جو اب ایک آثار بن کر رہ گیا ہے۔ ہو سکتا ہے صدیوں سے خاموش یہ محل تم سے بات کرلے۔

تازہ ترین