• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کلامِ ربانی: ریا کاری اور دکھاوے سے نیکی ضائع ہونے سے بچائیں!


ریا کاری اور دکھاوے سے نیکی ضائع ہونے سے بچائیں!

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اے ایمان والو! اپنے صدقات احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روزِ قیامت پر، اس کی مثال ایک ایسے چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو، پھر اس پر زوردار بارش ہو تو وہ اسے (پھر وہی) سخت اور صاف (پتھر) کر کے ہی چھوڑ دے، سو اپنی کمائی میں سے ان (ریاکاروں) کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا، اور اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں فرماتا\۔(سورۃ البقرہ)

اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے واضح انداز میں بیان فرمایا ہے کہ جو عمل اس کی رضا و خوشنودی اور آخرت میں ثواب کی امیدکے حصول کے بجائے، نام و نمود اور ریاکاری و دکھاوے کے جذبے سے انجام دیا جائے، تو اس عمل پر کوئی ثواب نہیں ملتا اور وہ عمل ضایع اور برباد ہو جاتا ہے۔اسی طرح وہ صدقہ و خیرات بھی باطل اور کالعدم قرارپاتا ہے اور ثواب سے محرومی کا باعث بن جاتا ہے۔ جس کے بعد احسان جتایا جائے اور حاجت مند کو دکھ دیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ محسن انسانیت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواپنی امت کے بارے میں اس بات کا بہت ڈر(اندیشہ)تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری امت اس بیماری کا شکار ہوجائے۔

اس لئے آپﷺ نے اس کی برائی اور تباہی کو اپنے ارشادات سے واضح فرمایا۔صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ قیامت کے دن تین بندے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ ان میں سے پہلا شخص ایسا ہوگا جو کہ شہید ہوگا،اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں دی جانے والی نعمتیں گنوائے گا، شہید نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا تو نے ان سب نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ 

وہ عرض کرے گا، میں نے تیری راہ میں اپنی جان قربان کردی۔رب فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے جان اس لیے قربان کی کہ لوگ تجھے بہادر اور شہید کہیں، تو شہید کہلا چکا۔ فرشتو! لے جائو اسے اور ڈال دو جہنم میں، فرشتے اسے گھسیٹے ہوئے لے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔ پھر ایک دوسرا شخص رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگا جو عالم و قاری ہوگا، رب تعالیٰ اسے بھی دنیا میں دی گئی نعمتیں گنوائے گا، وہ ان نعمتوں کا اقرار کرے گا۔ پھر رب تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا میں نے علم سیکھا اور سکھایا، قرآن پاک پڑھا اور پڑھایا۔رب تعالیٰ فرمائے گا تو نے علم سیکھا اور سکھایا اس غرض سے کہ عالم کہلایا جائے، قرآن پاک اس لیے پڑھا اور پڑھایا کہ قاری کہلایا جائے، تو دنیا میں تو کہلا چکا۔ فرشتو! لے جائو اسے اور ڈال دو جہنم میں۔ 

فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔پھر آخر میں ایک سخی، رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی دنیا میں دی جانے والی نعمتیں یاد دلوائے گا۔ وہ نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر رب فرمائے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا، اے رب! میں نے اپنی ساری دولت تیری مخلوق پر لٹا دی۔ رب تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے دولت اس لیے خرچ کی کہ لوگ تجھے سخی کہیں، تو دنیا میں سخی کہلا چکا۔ فرشتو لے جائو ،اس سخی کو اور ڈال دو جہنم میں۔ فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور جہنم میں ڈال دیں گے‘‘۔اس طویل حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ عبادت وہی قابل قبول ہے جو خالصتاً اللہ عزوجل کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے کی جائے ،جب کہ ایسی عبادت جو اللہ کے بجائے کسی اور کو دکھانے کے لیے کی جائے ، وہ خواہ کوئی بھی کرے،جہنم کا ایندھن ثابت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں میں اخلاص پیدافرمائے۔(آمین)

تازہ ترین
تازہ ترین