• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انتخابات عوامی رابطے کا تقاضا کرتے ہیں اور سیاسی جلسے آج بھی براہ راست عوامی رابطے کا سب سے موثر ذریعہ ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں زبردست ترقی کے با وجود جلسوں کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ان سے براہ راست اپنے لیڈر کو دیکھنے، اسے سننے اور اسکے عزائم جاننے کا موقع ملتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کیلئے یہ اپنی تنظیم کو موثر بنانے، اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے اور عوام کے جذبات و احساسات کو ابھارنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ آج کل بڑی جماعتوں اور لیڈروں کے جلسے الیکٹرانک میڈیا پر بھی دکھائے جاتے ہیں جسکی وجہ سے جلسے میں شریک نہ ہونے والے لاکھوں کروڑوں عوام بھی اپنے گھروں میں بیٹھے بیٹھے اسکا حصہ بن جاتے ہیں۔
لیکن کیا سیاسی جلسے، عوامی پذیرائی اور انتخابی فتح کا بھی کوئی قابل اعتماد پیمانہ قرار دئیے جا سکتے ہیں؟ شاید نہیں۔ مبصرین کا کم و بیش اتفاق ہے کہ بڑے جلسے کسی حد تک سیاسی لیڈر کی مقبولیت یا سیاسی جماعت کی پسندیدگی کا اشارہ تو ضرور دیتے ہیں لیکن انہیں بنیاد بنا کر کسی مخصوص پارٹی کی انتخابی کامیابی کی پیش بینی نہیں کی جا سکتی۔ یہ اصول یا تصور ہماری تاریخ کے ہر دور میں موجود رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے وقت کے سب سے بڑے خطیب اور جادو بیاں مقرر سید عطا اللہ شاہ بخاری مرحوم کی تقریر سننے لاکھوں کامجمع عشاء سے صبح کی نماز تک عش عش کرتا رہتا تھا۔ لیکن ووٹ دینے یا سیاسی نظریہ اپنانے کی حد تک انہوں نے شاہ جی کے فلسفے کو اہمیت نہ دی اور اپنا وزن مسلم لیگ اور قائد اعظم کے پلڑے میں ڈال دیا۔ جلسوں کے حوالے سے دینی جماعتوں کا ریکارڈ ہمیشہ اچھا رہا ہے۔ لیکن یہ جلسے کم ہی انتخابی کامرانی میں بدل سکے۔ 1970 کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی " شوکت اسلام" ریلیوں سے یوں لگتا تھا کہ وہ سب کچھ بہا لے جائے گی لیکن وہ چار سیٹیں ہی جیت سکی۔ آج بھی جماعت اسلامی، کسی بھی دوسری بڑی جماعت جیسا بڑا جلسہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن عوامی مقبولیت اور انتخابی کامیابی کے حوالے سے اسکا دامن خالی ہے۔
جولائی یا اگست 2018 کے انتخابات کی آمد آمد کیساتھ ہی جلسوں کا موسم شروع ہو گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف تو اپنے منصب سے بے دخلی کے بعد سے مسلسل عوامی رابطہ مہم میں مصروف ہیں ۔ جی۔ٹی۔روڈ پر اسلام آباد سے لاہور مارچ کے بعد وقفے وقفے سے وہ ملک کے مختلف شہروں میں جلسے کر رہے ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ بڑی تعداد میں عوام انہیںاور انکی بیٹی مریم نواز کو سننے آرہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے جلسوں کی روایات کے بر عکس اب انکے ہجوم زیادہ پر جوش اور فعال نظر آتے ہیں۔ نواز شریف کی اس مہم کے جواب کے طور پر تحریک انصاف نے ایک بہت بڑے جلسے (جسے تاریخ کے سب سے بڑے سونامی پلس کا نام دیا گیا) کے لئے لاہور کا انتخاب کیا۔ اس جلسے کو لاہور اور پنجاب میں اپنی مقبولیت کا اظہار بنانے کیلئے پی ۔ٹی۔آئی نے پورا زور لگایا۔ اسے میڈیا کی بھرپور سرپرستی بھی حاصل رہی۔ 29 اپریل کو مینار پاکستان میں یہ جلسہ ہوا جس میں عمران خان نے طویل تقریرکی اور اپنا گیارہ نکاتی منشور بھی پیش کیا۔ لیکن یہ دعویٰ کوئی نہ کر سکا کہ یہ تاریخ کا سب سے بڑاجلسہ تھا۔ خود پی۔ٹی۔آئی کے حقیقت پسند حلقے بس اسے جلسوں میں سے ایک جلسہ قرار دیتے ہیں، بلکہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ جلسہ اکتوبر 2011 کے جلسے کو بھی نہیں چھو چکا۔
تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، اے۔این۔پی، ایم۔کیو۔ایم اور دینی جماعتیں سب جلسوں کے میدان میں اتر چکی ہیں۔ آنے والے دنوں میں ان جلسوں کی رفتار اور بھی تیز ہو جائے گی۔ جہاں تک بیانیے کا تعلق ہے ، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے اپنے اپنے نعرے چن لئے ہیں۔ نواز شریف نے اپنی مہم کا آغاز" مجھے کیوں نکالا "کے سوال سے کیا اور اب انہوں نے "ووٹ کو عزت دو" کے نعرے کو اپنی انتخابی مہم کا سرنامہ بنا لیا ہے۔ انکے جلسے اسی نعرے سے شروع اور اسی پرختم ہوتےہیں۔ ابتدامیں یہ نعرہ شاید مبہم تھا لیکن اب وہ کافی حد تک عوام کے دلوں میں گھر کر چکا ہے۔ میاں صاحب نے اس نعرے کا مفہوم واضح کرنے کیلئے کافی محنت کی ہے۔ اب لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ جسے بھی ووٹ دیتے ہیں، اسے حکومت نہیں کرنے دی جاتی۔ ووٹ کو عزت دینے کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کیا جائے۔ میاں صاحب نے لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں یہ بات بھی ڈال دی ہے کہ ہر بار انکے ووٹ کی توہین ہوتی ہے۔ وہ ان انتخابات کو ریفرنڈم کا نام بھی دے رہے ہیں۔ساتھ ساتھ وہ عوام کو یہ یاد دلانا بھی نہیں بھولتے کہ انکی حکومت نے دہشت گردی اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کیساتھ ساتھ ریکارڈ ترقیاتی کام بھی کئے ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ایک نظریاتی اور اصولی بیانیے کے ساتھ ساتھ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن میں جا رہی ہے۔
دوسری بڑی قومی سیاسی جماعت، تحریک انصاف پچھلے کئی سالوں سے تبدیلی کا نعرہ اپنائے ہوئے تھی جس کے ساتھ" نیا پاکستان" کا پیوند بھی لگایا جاتا تھا لیکن اب حال ہی میں اس نے "دو نہیں ایک پاکستان "کا نعرہ تخلیق کیا ہے۔ پی ۔ٹی۔آئی کی مراد یہ ہے کہ یہاں امیر و غریب کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ اس خلیج کی وجہ سے دو طبقے یا دو پاکستان وجود میں آ گئے ہیں۔ اس تفریق کو مٹانا ہو گا اور ایک پاکستان وجود میں لانا ہو گا تاکہ آزادی اور ترقی کے ثمرات یکساں طور پر ہر انسان تک پہنچیں۔ وہ کس حد تک اپنا یہ پیغام عوام تک پہنچا پاتی ہے۔ فی الحال اسکا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ کوئی شک نہیں کہ 2013 کے مقابلے میں پی۔ٹی۔آئی کو ایک نئے مسئلے کا سامنا ہو گا اور وہ ہے خیبر پختونخوا میں اس کی پانچ سالہ کارکردگی۔ لوگ یقیناََ سوال کریں گے کہ پی۔ٹی۔آئی نے "دو نہیں ایک خیبر پختونخوا "کے مشن میں کتنی کامیابی حاصل کی ہے۔
جلسے پیپلز پارٹی بھی کر رہی ہے لیکن اسے اپناکوئی واضح بیانیہ سامنے لانے یا نعرہ تخلیق کرنے میں خاصی مشکل پیش آرہی ہے۔ روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ اپنی کشش کھو چکا ہے۔ غریب سے ہمدردی کی باتیں بے معنی ہو چکی ہیں۔ کارکردگی کا خانہ بھی خالی ہے۔ یہ توقع بھی پوری نہیں ہو سکی کہ بلاول بھٹوزرداری پارٹی کی رگوں میں نیا خون دوڑا سکیں گے۔ سو جلسے ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ لیکن لگتا نہیں کہ پیپلز پارٹی 2013 سے بہتر نتائج دکھا سکے گی۔ دینی جماعتیں اب ایک بار پھر متحدہ مجلس عمل کے پر چم تلے انتخابات میں اتر رہی ہیں۔ انکی جنگ کا بڑا میدان خیبر پختونخوا ہی بنے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ پی۔ٹی۔آئی کے ووٹ بنک پر کتنا اثر ڈال سکتی ہیں۔ چونکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) پورے پانچ سال مسلم لیگ (ن) کی اتحادی رہی اور جماعت اسلامی، پی۔ٹی۔آئی حکومت کا حصہ رہی اسلئے دونوں جماعتوں کیلئے دیگر دو بڑی جماعتوں پر منفی تنقید آسان نہ ہو گی۔ متحدہ مجلس عمل کا بیانیہ بھی اسلامی نظام کے نفاذ تک محدود رہے گا۔
جلسوں کا موسم عروج پر ہے۔ بیانیوں کی تشہیر بھی ہو رہی ہے۔ جلسوں کے حجم پر تبصرے بھی ہو رہے ہیںلیکن سیانے کہتے ہیں کہ عوامی رائے کا دو ٹوک اظہار الیکشن ڈے پر ہی ہوتا ہے۔ جلسے تو بس جلسے ہی ہوتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین