• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت علامہ محمد اقبال تو خواب دیکھتے چلتے بنے۔ ایک محبت بھرا خواب اُنہوں نے اُن نوجوانوں بارے بھی دیکھا جو خواب ہی خواب میں اُنہیں ستاروں پہ کمند ڈالتے دکھائی دیئے۔ اقبال کا خواب کیا خواب ہی رہے گا؟ اگر محترم علامہ آج زندہ ہوتے تو شاید اُنہیں ہر جانب کرگسوں کے غول کے غول آوارہ گھومتے نظر آتے اور کہیں خال خال شاہین بچے دیواروں سے سر ٹکراتے پائے ملتے۔ خواب تو خواب ہوتے ہیں۔ اب یہ ہم پہ منحصر ہے کہ خواب سچ کر دکھائیں یا پھر خوابوں کو خونچکاں ہوتے دیکھیں۔ تیزی سے بوڑھی ہوتی ہوئی ترقی یافتہ دُنیا کے مقابلے میں خیر سے عجیب الخلقت ترقی (Hybrid Development) کے ہاتھوں ہمارا پیار ا دیس پاکستان بہت ہی جواں ہو چلا ہے۔ نوجوان آبادی کے روز افزوں ہجوم پر ہمارے ماہرین و مفکرین بغلیں بجاتے نہیں تھکتے، لیکن یہ بھولتے ہوئے کہ اُن کے ساتھ کیا کیا بیت رہی ہے اور وہ کیا سے کیا بنتے جا رہے ہیں؟ ہماری تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی (جس پہ قابو پانا قدرت کے قوانین میں مداخلت کے مترادف سمجھا جانا عین ایمان ہے) کا 64 فیصد 30 برس تک کے نونہالوں پہ مشتمل ہے، جبکہ 15 سے 29 برس کے نوجوان ہماری کل آبادی کا 29 فیصد ہیں۔ یعنی تقریباً ایک تہائی۔ ان پر کیا بیت رہی ہے وہ ذیل میں دیئے گئے حقائق سے صاف ظاہر ہے۔ بھلے آپ کیسے ہی سروے کیا کریں: ہمارے دو تہائی سے زیادہ لوگ بشمول نوجوانان غربت کی لکیر کے فقیر ہیں۔ 84 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ اڑھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ آدھی سے کہیں زیادہ آبادی ناخواندہ ہے اور تقریباً 80 فیصد جاہل یا پھر جو 20 فیصد ہیں اُن میں پڑھے لکھے جاہل کتنے ہیں اُن کا کوئی شمار نہیں۔ 44 فیصد بچے ذہنی و جسمانی طور پر لاغر ہیں، جبکہ 55 فیصد بچے غیرصحت مند۔ اور بیروزگاروں، نیم بیروزگاروں کا جمِ غفیر ہے جو ستاروں پہ کمند ڈالنے کی بجائے، بے ہنری، بے علمی اور بے عقلی کے ہاتھوں بے بس و لاچار ہوا جاتا ہے۔
ایسے میں ہمارے دو جید سماجیاتی ماہرین ڈاکٹر عادل نجم اور ڈاکٹر فیصل باری نے ایک طویل عرق ریزی، ایک لاکھ تیس ہزار لوگوں تک رسائی کر کے اور نوجوانوں کی بڑی تعداد کے ساتھ مشاورت سے یہ بھید پانے کی کوشش کی ہے کہ آخر ہمارے نوجوانوں کے مشاغل کیا ہیں، اُنہیں کن سہولتوں تک رسائی ہے، اُن کے پاس تعلیم کیا ہے، روزگار کیا ہے اور وہ اپنی زندگی کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ان کا جائزہ فقط 100 نوجوانوں کے حالات و کیفیات تک محدود ہے جن میں 64 فیصد شہروں اور 36 فیصد دیہات میں رہتے ہیں اور ان میں پنجابی اور اُردو بولنے والوں کی اکثریت (52 فیصد) ہے۔ صنفی تعداد مساوی ہے۔ ان میں 70 فیصد ناخواندہ اور چھ کے پاس بارہ سال کی تعلیم ہے۔ 60 بیروزگار، 24 بے قاعدہ یا بلامعاوضہ ملازم ہیں۔ 85 کی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں، 94 نے کبھی لائبریری میں قدم نہیں رکھا۔ 93 کو اسپورٹس کی سہولت میسر نہیں۔ 77 کے پاس کوئی سواری نہیں، ایک کے پاس کار اور 12 کے پاس موٹر سائیکل ہیں، 48 کے پاس فون نہیں۔ لیکن ہمت مرداں یا پھر خوش گمانی دیکھئے کہ 89 اللہ کے فضل پہ خوش ہیں، 70 کے خیال میں وہ محفوظ ہیں۔ 67 اپنی زندگی کو والدین کے حالات سے بہتر مانتے ہیں اور 48 اپنے شاندار مستقبل کی اُمید لئے ہیں اور 36 کو اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی پڑتا ہے۔ خستہ حالاتِ زندگی کے باوجود ان نوجوانوں کی خوش گمانیوں پہ رشک آتا ہے۔ یہ سب حقائق اور جائزے یو این ڈی پی کی پاکستان بارے قومی انسانی ترقی کی رپورٹ میں پیش کیے گئے ہیں۔ ان نتائج پر نہ صرف دونوں محققین حیران و پریشان ہیں، بلکہ راقم کا دماغ بھی گھوم گیا ہے۔
مگر، خوشی کی بات یہ ہے کہ اس جائزے کے مطابق کسمپرسی کے حالات کے باوجود ہمارے نوجوانوں کی اکثریت اپنے حالات اور مستقبل کے بارے میں شاداں ہے اور ایک تہائی مایوس ہوئے لگتے ہیں۔ گو، کہ اس جائزے کے نتائج ناقابلِ یقین ہیں، لیکن اس کو نظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جائزہ محدود سہی، لیکن حقائق پر مبنی ہے۔ مختصراً یہ کہ نوجوانوں کا پاکستان نہایت متفرق و منقسم ہے۔ پھر بھی ان میں اُمیدیں اور خوش فہمیاں ہیں جنہیں بارآور بنایا جا سکتا ہے اور بنایا جانا چاہیے۔ لیکن اگر ان میں موجود بے یقینی اور اضطراب کو نظرانداز کیا گیا (جیسا کہ ہم اس کے عادی ہیں) تو پھر سماجی دھماکے کے لئے تیار رہیے۔ ان دو ماہرین کے خیال میں پاکستان میں نوجوانوں پہ سرمایہ کاری کرنے سے بہتر کوئی سرمایہ کاری نہیں۔ اُنہوں نے نوجوانوں پر ایسی تین سرمایہ کاریوں کا ذکر کیا ہے جن کے کرنے سے چمن میں بہاراں ہی بہاراں اور نہ کرنے سے خزاں ہی خزاں کا راج ہو سکتا ہے۔ وہ تین سرمایہ کاریاں کیا ہیں؟ اوّل: معیاری تعلیم۔ دوم: منفعت بخش روزگار۔ سوم: بامقصد سنگت۔ ان تینوں کلیدی موضوعات پر رپورٹ کے مصنّفین نے خوب روشنی ڈالی ہے۔ تعلیم کے حوالے سے اسکولوں میں داخلے کی موجودہ ایک فیصد سالانہ بڑھوتری کی بنیاد پہ 2076ء تک پاکستان کا ہر بچہ سکول جا سکے گا۔ اگر پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کو سامنے رکھتے ہوئے ناخواندگی 2030ء تک ختم کرنی ہو تو اسکولوں میں داخلے کی موجودہ شرح کو چار گنا کرنا ہوگا۔ جس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ تعلیم پر موجودہ دو فیصد بجٹ کو آٹھ فیصد تک بڑھانا پڑے گا اور اگر صحت کا موجودہ آدھا فیصد بجٹ رہا تو پھر بھی یہ ممکن نہ ہو سکے گا اور صحت کے بجٹ کو بھی کم از کم چار فیصد تک بڑھانا ہوگا۔ لیکن چالو تعلیم فقط دولے شاہ کے چوہے پیدا کرتی ہے۔ تعلیم کو معیاری اور بامقصد بنانے کے لئے عقل و خرد اور سائنس سے رجوع کرنا ہوگا۔
اُن کا دوسرا نکتہ روزگار اور بارآور روزگار کا ہے۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے نوجوانوں کے ہجوم کے لئے دس سے پندرہ لاکھ اسامیوں کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہو سکتا ہے! لیکن بڑا چیلنج بارآور اور مفید روزگار کا ہے۔ اور اس کا تعلق معیشت، زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں کی ترقی، ترقی کے انسانی ماڈل کو اختیار کرنے اور انسانی ذرائع کی ترقی سے ہے۔ نیز تعلیم ہو یا روزگار، عورتوں کی اس میں بھرپور شمولیت کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ اور تیسرا نکتہ ہے کہ نوجوانوں کو بامقصد رفاقت یا شراکت مہیا کی جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی زندگی کے تمام معاملات میں ان کی آواز سنی جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ماں باپ سُنی اَن سُنی کرتے ہیں۔ اساتذہ بھاشن دیتے ہیں۔ علما فتویٰ صادر کرتے ہیں۔ استاد و کاریگر لتاڑتے اور مارتے ہیں۔ اور بچیاں تو بیچاری ہر طرح کے شر کے نشانے پہ ہیں اور بولنے کی اجازت نہیں۔ ہمارے بچے اور جوان روز خواب دیکھتے ہیں، جو روز ٹوٹتے ہیں اور پھر بنتے ہیں۔ نوجوانوں کی یہ فوج ظفر موج قلم و کتاب، درس و تربیت، علمیت و حرفیت، بامقصد اور خدمت کرنے کی طلبگار ہے۔ مجھ سے کوئی پوچھے کہ پاکستان کی انسانی و طبعی سلامتی کا انحصار کس پر ہے تو میں یہی کہوں گا کہ صرف اور صرف ہمارے نوجوانوں کے جمِ غفیر کی بامقصد تعلیم، بارآور تربیت، صحت مند افزائش اور انسانی بالیدگی میں ہے۔ حضرت علامہ محمد اقبال تو خواب دیکھتے چلتے بنے۔ ایک محبت بھرا خواب اُنہوں نے اُن نوجوانوں بارے بھی دیکھا جو خواب ہی خواب میں اُنہیں ستاروں پہ کمند ڈالتے دکھائی دیئے۔ اقبال کا خواب کیا خواب ہی رہے گا؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین