رضوان اسد خان
’’مجھے افسوس ہے عامر صاحب، آپ کو آج ہی کوئی فیصلہ کرنا ہو گا، ساتھ والی مریضہ کی حالت بگڑتی جا رہی ہے۔‘‘ڈاکٹر نے اپنے لہجے میں ہمدردی پیدا کرتے ہوئے کہا۔
فیصلہ؟
وہ کیسے کر سکتا تھا یہ فیصلہ؟
’’نہیں، نہیں، یہ میرے بس میں نہیں‘‘۔ اس نے سوچا۔
ساتھ ہی بچپن کا ایک منظر اس کی نگاہوں کے سامنے گھوم گیا۔ وہ چار سال کی عمر میں کرسی کے سرے پربیٹھا بھاگنے کے چکر میں ہے اور ماں نے اسے نرمی سے قابو کر رکھا ہے اور نوالے اس کے منہ میں ڈال رہیںہیں۔’’میرا عامر بیٹا جنگل میں جا رہا تھا کہ اچانک ایک شیر آ گیا، میرے بہادر بیٹےنے ڈرنے کی بجائے زور سے آواز نکالی تو شیر خود ڈر کے بھاگ گیا‘‘۔ وہ اسے بہلانے کے لیے ساتھ ساتھ کہانیاں سناتی جاتیں اور اس کا منہ کھلتا جاتا،پھر زندگی کی فلم کو فاسٹ فارورڈ کر کے اس نے اپنے آپ کو دس سال کی عمر میں دیکھا۔ اس کی ماں سردی میں خود ٹھٹھرتی ہوئی ،اس کےلیے پانی گرم کر رہیںہیں اور اسے نہلا دھلا کر ناشتہ کروا کے ا سکول بھیج رہیںہیں۔ “بیٹا لنچ باکس یاد سے رکھ لینا اور پلیز بریک میں ختم کر کے آنا۔‘‘ اسے ہمیشہ یہ فکر رہتی کہ کہیں وہ بھوکا نہ رہ جائے۔کچھ مزید مناظر تیزی سے گزرے اور اسے اپنا آپ ایک کالج سٹوڈنٹ، ایک خوبرو نوجوان کی شکل میں نظر آیا،’’بیٹا آج پھر دیر کر دی، تمہیں تو پتہ ہے میں کتنی اداس اور پریشان ہو جاتی ہوں فون تو کر دیا کرو۔‘‘رات دیر سے گھر لوٹنے پر اس کی ماں نے غصے کی بجائے بھرپور محبت سے کہا۔’’امی آپ فکر نہ کیا کریں، میں اب بچہ نہیں رہا،‘‘ اس نے جھلا کر کہا۔’’بیٹا تیرا باپ زندہ ہوتا تو شاید میں اتنی فکر نہیں کرتی، پر تیرے سوا میرا ہے ہی کون‘‘۔ وہ بےبسی سے بولیں۔
کالج سے یونیورسٹی، محبت، ماں سے ضد اور پھر شادی تک کے مناظر چشم زدن میں دماغ کی ا سکرین پر دوڑتے ہوئے گزر گئے۔’’بیٹا میں یہ نہیں کہتی کہ بیوی کو وقت نہ دو، پر دو گھڑی اپنی بوڑھی ماںکےلیے بھی نکال لیا کرو۔‘‘ وہ بیچارگی سے کہہ رہی تھیں۔
ایک دن وہ باتھ روم میں اچانک گر گئیں، فوراََاسپتال کے ایمرجنسی میں لے کر پہنچے تو پتا چلا کہ بلڈ پریشر شوٹ کرنے سے فالج ہو گیا ہے، اس نے عامر کی دیکھ بھال اور پالنے پوسنے میں اپنی صحت پر توجہ ہی کب دی تھی۔ آدھا دھڑ ناکارہ ہو چکا تھا، اور وہ جو ہر کام بھاگ بھاگ کر کرتی تھیں، اب چارپائی سے لگ کر رہ گئیں۔ ابتدائی علاج کے بعداسپتال میں بستروں کی کمی کے باعث اسے چار دن بعد ہی چھٹی دے دی گئ۔
عامر نے دفتر سےکچھ دن کی رخصت لے لی کہ ماں کی خدمت کر سکے لیکن ناکافی تنخواہ میں مہنگے علاج کی مجبوری نے اسے چڑچڑا کر دیا ۔ا ماں کو اپنے ہاتھ سے کھلاتا پلاتالیکن جب وہ دو نوالے کھا کر منہ ہٹا لیتیں تو وہ بھی غصے میں اسے چھوڑ دیتا، کیا پتا اسے اپنی ایک آدھ کہانی سنا دیتا تو اس میں مگن ہو کر کھا ہی لیتیں۔
غسل خانے سہارا دے کر لےجانا پڑتا، وہ ٹھنڈے پانی کی شکایت کرتیںتو منہ بنا کر کہہ دیتا کہ اماں گیس نہیں آ رہی، تھوڑا برداشت کر لو۔کبھی مصروف ہوتا تو گھنٹوں ماں کا خیال ہی نہ آتا کہ اس کو دوا اور کھانا مل گیا کہ نہیں، ماسی نے کھلا دیا تو ٹھیک ورنہ اللہ اللہ خیر صلا،پھر ایک دن ماں اچانک بے ہوش ہو گئیں۔ ایمبولینس میں ڈال کراسپتال پہنچے۔ ڈاکٹر دیکھتے ہی الگ کمرے میں لے گئے۔ پوری ٹیم اکٹھی ہو گئ۔ مصنوعی سانس اور دوائیں دے کر دل کی دھڑکن بحال کی اور بوڑھی ماں کو وینٹیلیٹر پہ ڈال دیا گیا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ فشار خون دوبارہ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ دماغ کی شریان پھٹ جانے سے یہ حالت ہوئی ہے۔’’بس آپ دعا کریں۔‘‘ یہ کہہ کر ڈاکٹر تو چلا گیا پر عامر کو ایک لامتناہی کرب میں چھوڑ گیا۔ وہ دیوانوں کی طرح ماں کو بلاتا، ان سے معافی مانگتا رہا، لیکن ان کے پرسکون چہرے پر کوئی جنبش نہ ہوئی۔ وہ روزانہ آتا، بے سدھ پڑی ماں سے باتیں کرتا اور اس کے چہرے پر تاثرات کو ایسے ڈھونڈتا جیسے بادلوں میں لوگ مختلف شکلیں ڈھونڈتے ہیں۔
اگلے دن دو سینیئر ڈاکٹروں نے اس کی ماں کا معائنہ کیا ۔ عامر کو اپنے کمرے میں لے گئے، اسے بتایا،’’ہمیں شدید افسوس ہے کہ آپ کی والدہ ذہنی طور پہ فوت ہو چکی ہیں اور طبی نکتہ نگاہ سے بھی ان کی موت ہوگئی ہے‘‘۔
’’نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘ اس نے بے یقینی کے عالم میں کہا۔
’’ان کادل دواؤں سے اور سانس وینٹیلیٹر سے مصنوعی طور پہ چل رہی ہے، اگر آپ اجازت دیں تو ہم یہ لائف سپورٹ منقطع کر دیں، کیونکہ طبی بورڈ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ان کے ہوش میں آنے کا اب کوئی امکان نہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنی وضاحت جاری رکھی ’’ساتھ والے بیڈ پہ جو مریضہ ہیں ،وہ ایک جوان خاتون ہیں، انہیں سانس کے پٹھوں کا فالج ہوا ہے، اگر انہیں وینٹیلیٹر مل جائے تو ا ن کی زندگی بچ سکتی ہے۔ فی الحال ہمارے پاس دوسرا وینٹیلیٹر نہیں۔‘‘ پھر اسے گم سم پا کرڈاکٹر نے کہا،’’چلیں آپ کل تک سوچ کے ہمیں اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیں۔‘‘
اس کی تو گویا دنیا ہی اندھیر ہو گئ تھی، وہ کیسے اپنی ماں کی زندگی کے خاتمے کے فیصلے پر اپنے ہاتھ سے دستخط کر دیتا۔ وہ ہاتھ، جنہیں لکھنا ہی اس عظیم عورت نے سکھایا تھا۔
آج جب ڈاکٹر نے اسے یاد دہانی کروائی تو وہ سوچوں میں کہیں کھو گیا۔
’’میں اپنی ماں کا گلا اپنے ہاتھ سے کیسے دبا دوں۔ اس کی خدمت تو کر نہیں سکا، اسے ‘قتل’ کیسے کر دوں،ابھی وہ اسی شش و پنج میں تھا کہ آئی سی یو میں ایمرجنسی الارم کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ سب ڈاکٹر اور نرسز ایک بیڈ کی طرف بھاگتے نظر آئے، اس نے دیکھا وہ اس کی ماں کا ہی بستر تھا۔ کوئی وینٹیلیٹر کی سیٹنگ کر رہا تھا تو کوئی ٹیکہ لگا رہا تھا توکوئی سٹیتھوسکوپ سے دل کی دھڑکن چیک کر رہا تھا۔ پر عامر کی نظر دل کا ردھم بتانے والے مانیٹر پر جمی تھی۔
اس عالم میں بھی مامتا سے بیٹے کی بے چینی برداشت نہ ہوئی اور وہ اسے اس کربناک فیصلے کی اذیت سے آزاد کرتی ہوئی خود ہی مانیٹر کی الجھی لکیروں کو سیدھا کر کے خاموشی سےچلی گئیں۔