وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ کرنے والے عابد حسین کی ایک ویڈیو منظر عام پر آتے ہی پولیس اور تفتیشی اداروں کی کوتاہی سامنے آگئی ہے ۔
ماہرین کے مطابق ایسی ویڈیو کا سامنے آنا بھی پولیس اور تفتیشی اداروں کی کوتاہی کو ظاہر کرتا ہے ،ساتھ ہی ویڈیو نے تحقیقاتی اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگایا ہے ۔
عابد حسین کی ویڈیو تحقیقاتی اداروں کے غیر پیشہ وارانہ تفتیش کو بھی سامنے لے آئی ہےجس سے کئی اہم نوعیت کے سوالات نہیں پوچھے گئے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلا سوال تو یہی بنتا ہے کہ واقعے کی تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے ملزم کے بیان کی ویڈیو لیک کیسے ہوئی؟ ملزم کی ویڈیو لیک کرنے کے مقاصد کیا تھے؟ اس کے علاوہ مزید کوتاہیاں بھی سامنے آئی ہیں کہ تفتیش کے دوران حملہ آور سے بعض اہم سوال نہیں پوچھے جا رہے۔
تفتیشی اداروں نے حملے میں استعمال ہونے والے اسلحے کے بارے میں نہیں پوچھا کہ اسلحہ اس نے کہاں سے اور کیسے لیا، وہ حملے کے مقام پر کس طرح پہنچا؟ کیا اسے کسی نے پیسے بھی دیے؟ کیا کسی نے حملے میں سہولت کاری بھی کی؟
کیا کسی نے اسے حملے کے مقام پر پہنچایا تھا؟ کیا اسے فرار میں مدد دینے کے لیے کوئی اور شخص یا اشخاص حملے کی جگہ پر موجود تھے؟حکومت اور مذہبی جماعت کے درمیان معاہدے کے چھ ماہ بعد حملہ آور نے اس حرکت کا فیصلہ کیوں کیا؟
خاص طور پراس وقت جب پنجاب حکومت نے مذہبی جماعت کے رہ نماوں پر تمام مقدمات بھی ختم کردیے تھے۔