• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کی تاریخ میں منگولوں سے زیادہ سفاک قوم نہیں گزری، یہ وہ قوم ہے جس کے ہاتھوں عباسی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور مسلم تہذیب اپنے زوال کو پہنچی۔ ان میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں تھی، یہ لوگ جانوروں سے بدتر تھے، انسانی خون کے پیاسے تھے اور کسی مہذب معاشرے کے قانون اور اقدار سے اجنبی تھے۔ چنگیز خان کہا کرتا تھا کہ ’’سب سے زیادہ مسرت دشمنوں کو فتح کر کے ملتی ہے، اُن کا تعاقب کر کے، اُن کے گھر والوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر، اُن کے گھوڑوں کی پشت پر سواری کرکے اور اُن کی بیٹیوں اور بیویوں کو اپنے تصرف میں لا کے۔‘‘ منگولوں نے بخارا جیسے شاندار شہر کو، جس میں عالیشان محلات اور وسیع و عریض باغات تھے، جلا کر راکھ کر ڈالا، انہوں نے سمرقند میں دس لاکھ افراد کو قتل کیا جبکہ خوارزم شہر میں بارہ لاکھ افراد کو تہ تیغ کیا، بامیان شہر کو انہوں نے صفحہ ہستی سے ہی مٹا ڈالا، وہاں ایک منگول شہزادہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا، اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں منگولوں نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، حکم یہ تھا کہ ماؤں کے پیٹ میں بچوں کو بھی زندہ نہ چھوڑا جائے چنانچہ ماؤں کے پیٹ پھاڑ کر اُن کے بچے مار دیئے گئے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ منگول جہاں جاتے وہاں انسانی کھوپڑیوں کے مینار بناتے، ہزاروں لاشوں کی اجتماعی قبریں بناتے اور جانوروں کو بھی قتل کر ڈالتے، کہا جاتا ہے کہ ہرات میں ان وحشیوں نے سولہ لاکھ انسانوں کا قتل عام کیا۔ ان شہروں کی تباہی کے نتیجے میں ہزاروں دانشور، شاعر، اسکالر، مصور، لکھاری سب مارے گئے، مسلم آرٹ اور کلچر ختم ہو گیا، کتب خانے تباہ ہو گئے، کتابیں نذر آتش کر دی گئیں، سینکڑوں برس سے محفوظ قیمتی نسخے، علم کے خزانے اور مسلم سلطنت کا جاہ و جلال سب مٹی میں مل گیا۔ وہ مرغزار، شاہراہیں اور وادیاں جہاں زندگی دوڑتی تھی دیکھتے ہی دیکھتے ویران ہو گئیں۔ 1258ء میں چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا، بغداد اُس وقت مسلم شان و شوکت کا مرکز تھا، مؤرخین کے مطابق چونتیس دن تک بغداد میں اٹھارہ لاکھ انسانوں کا قتل عام ہوا، حقیقت میں بغداد کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہتی نظر آئیں اور دریا کا پانی بغدادیوں کے خون سے سُرخ ہو گیا۔ المعتصم باللہ، جو اس سلطنت کا آخری حکمران تھا، اسے منگولوں نے گھوڑوں کے سموں تلے روند کر کچل دیا۔
عبد الشکور احسن، جامعہ پنجاب میں شعبہ فارسی کے استاد تھے، ’’عباسی سلطنت کا زوال‘‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ بغداد کی تباہی فقط ایک شہر کی تباہی نہیں تھی، درحقیقت اس سانحے کے دور رس سیاسی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے، خلیفہ کو مسلم امہ کا روحانی سربراہ سمجھا جاتا تھا اور بدترین دور میں بھی خلیفہ کو اتحاد کی علامت کے طور پر جانا جاتا تھا، بغداد اس خلافت کا مرکز تھا، خلافت بھی ختم ہوئی، مرکز بھی تباہ ہوا اور خلیفہ کو ذلت آمیز شکست ہوئی، بغداد اس دور میں علم وادب کا گہوارا تھا، یہاں سے علم کی روشنی پھوٹتی تھی، بغداد کی شکست و تباہی کے ساتھ سب کچھ ختم ہو گیا، کتابوں کے عظیم خزانے، آرٹ کے نادر نمونے، فلسفے اور سائنس کا وہ علم جو کئی سو برس کی محنت کے بعد کشید کرکے بغداد کی درسگاہوں میں پڑھایا جاتا تھا سب دنیا سے مٹ گیا، مساجد، جامعات، اسپتال، محلات، لائبریریاں سب نذر آتش کر دی گئیں، عظیم شاعر سعدی نے اس زمانے میں شیراز میں بیٹھ کر بغداد کا نوحہ لکھا جسے اب تک فارسی شاعری میں سب سے رقت انگیز نظم سمجھا جاتا ہے، ایرانی اور عرب جنہوں نے دنیا کو اعلیٰ پائے کی علمی اور سائنسی تحقیق سے نوازا، سقوط بغداد کے بعد پھر کبھی متحد نہ ہو پائے۔ عربی، جو صدیوں تک ایران میں مذہب، سائنس اور فلسفے کی زبان رہی تھی اور تمام حکما اور سائنس دان اسی زبان میں تحقیق کرتے تھے، سقوط بغداد کے بعد اس زبان کا اشتراک بھی تقریباً ختم ہو گیا، اور دوسری طرف سائنس اور فلسفے پر عربوں کی بالادستی کا عہد بھی تمام ہوا۔
ایک ایسی شاندار سلطنت جہاں علم و حکمت کے چشمے پھوٹتے تھے، فلسفی اور حکما مذہب اور خدا کے وجود پر بحث کرتے تھے، سائنس کی تحقیق جہاں اپنے عروج پر تھی، ادب و فن کے شاہکار جہاں تخلیق کئے جاتے تھے، آخر ایسا کیا ہوا کہ اسے منگولوں جیسی وحشی قوم نے نیست و نابود کر کے رکھ دیا؟ شاید اس سوال کا درست جواب کبھی نہیں مل پائے گا، کسی عظیم مملکت کے زوال کی وجوہات تلاش کرنا بسا اوقات لاحاصل ہی ہوتا ہے، اُس دور میں جا کر سچائی معلوم ہی نہیں کی جا سکتی کہ اُس وقت ایسا کیا ہو رہا تھا جو زوال کا باعث بنا، زیادہ سے زیادہ ابن خلدون کے فلسفہ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، وہی تاتاری جنہوں نے عباسی خلافت کو تباہ کیا خود اُن کی سلطنت زیادہ نہ چل سکی اور وہ صفحہ ہستی سے ایسے مٹے کہ دوبارہ کوئی نام لیوا ہی نہ ہوا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے کیس میں ایک معجزہ ہوا۔ بغداد جیسی عظیم تہذیب کی تباہی کے بعد کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مسلمان دوبارہ کبھی عروج حاصل کر پائیں گے مگر فقط دو اڑھائی سو سال کے عرصے میں ہی سلطنت عثمانیہ کا عروج ہوا جو یورپ سے لے کر افریقہ کے طول و عرض تک پھیلی۔ برصغیر میں مغلوں کی سلطنت بھی ایک علیحدہ مثال ہے۔
عربوں، ترکوں اور مغلوں کے زوال کی بے شمار وجوہات تلاش کی جا سکتی ہیں، ان سے شاید سبق بھی سیکھا جا سکتا ہے مگر فقط اس حرام خوری سے کام نہیں چلایا جا سکتا کہ ساری مغربی دنیا ہماری ایجادات پر پل کر جوان ہوئی، یہ ہم ہی تھے جنہوں نے کیمرہ ایجاد کیا، جیومیٹری سکھائی اور فلکیات کی سائنس گوروں کو پڑھائی ورنہ وہ نرے جاہل ہی رہتے۔ مسلم دنیا کے علم سے اگر مغرب نے کچھ سیکھا تھا تو آج ہمیں بھی اُن سے کچھ سیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ آج کی دنیا میں علم حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں رہا، اگر آپ میں ہنر ہے تو آپ ایک ای میل کرکے، ایک کلک کرکے، ایک اپ لوٖڈ کرکے دنیا کے سامنے اپنی قابلیت رکھ سکتے ہیں مگر اس قدر آسانی کے باوجود مسلم دنیا کا المیہ یہ ہے کہ وہ ترقی یافتہ دنیا سے کوئی سو برس پیچھے ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا نے تحقیق اور جستجو کا دروازہ بند کر دیا ہے، بظاہر مسلم ممالک میں بڑی بڑی شاندار جامعات ہیں، وہاں دنیا کے بہترین استاد تعلیم دیتے ہیں، قابل اسکالر وہاں ریسرچ کرتے ہیں مگر یہ کسی بھی طرح مغربی جامعات کی تحقیق کا مقابلہ نہیں کر پا رہے، اکیلی سٹینفورڈ یونیورسٹی کے نوبیل انعام یافتگان کی تعداد پوری مسلم دنیا کے نوبیل انعام یافتہ افراد سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں کئی نئی جامعات قائم کی گئی ہیں، پی ایچ ڈی افراد کی تعداد بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے، یہی حال دوسرے مسلمان ملکوں کا بھی ہے مگر نتیجہ صفر بٹا صفر ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جامعات نہ بنائی جائیں اور پی ایچ ڈی بند کر دیئے جائیں، جس زمانے میں ہارورڈ اور کیمرج بنی تھیں اس وقت وہ بھی ’’مدرسے‘‘ ہی تھے، یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے بعد اُن میں وہ چمک پیدا ہوئی جو آج مسلم دنیا میں ہم تلاش کرنے کے باوجود نہیں ڈھونڈ پاتے۔ تحقیق اور تنقیدی شعور کو پروان چڑھانے کی آزادی ہی واحد طریقہ ہے جو مسلم دنیا کو اس زوال سے نکال سکتا ہے، پاکستان میں تو فی الحال ان تراکیب کے ہجے بھی کوئی نہیں جانتا اور اگر کوئی جاننا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ پاکستان کی کسی جامعہ میں جا کر کچھ بنیادی سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرے، خدا نے چاہا تو چند دن بعد لوگ اُسے تلاش کر رہے ہوں گے۔ کیا عروج تھا، کیا زوال ہے!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین