تاریخ اور جغرافیے میں ہمیشہ لڑائی رہی ہے۔ جغرافیہ ہمیشہ شکست کھاتا رہا ہے۔ لیکن جغرافیہ پلٹ کر انتقام بہت برا لیتا ہے۔ تاریخ کو اگرچہ ہمیشہ بے رحم کہا جاتا ہے۔ مگر جغرافیے نے جب بدلہ لیا ہے تو تاریخ تڑپنے اور بیانیہ جاری کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکی ہے۔ تاریخ بے چاری کے دامن میں لاشوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ان میں جیتے جاگتے انسانوں کے جسد خاکی بھی ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ نظریات اور حکمت عملیوں کے لاشے ہیں۔ جغرافیے کا بدلہ نئی نئی مملکتوں کو بھی وجود میں لے آتا ہے۔ انہیں نئی مملکت آزادی سمجھتی ہے۔پرانی مملکت اسے ملک ٹوٹنا کہتی رہتی ہے۔کسی مملکت کو مستحکم رکھنے کے لئے بہت ہی احتیاط توجہ۔ خلوص اور لگن درکار ہوتی ہے۔ آج جو ملک کئی کئی سو سال سے ایک ہی جغرافیائی حیثیت میں موجود ہیں۔ وہ اپنے عوام اور حکمرانوں کی لگن سے ہی دوام حاصل کرسکے ہیں۔ ہمیں اگر چہ آزاد حیثیت سے قائم ہوئے 70سال ہی ہوئے ہیں مگر ہماری جغرافیائی حیثیت 8ہزار سال پہلے سے موجود تھی اور قدرت کے جتنے بھی قواعد اور ضوابط ہیں۔ یہ ان کے عین مطابق تھی۔ ہمیں دریائوں کا قرب بھی حاصل رہا ہے جو کسی بھی بستی کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ ہمیں سمندر کی ہمسائیگی بھی ملی ہے بلکہ کئی ہزار میل کا ساحل ہماری خدمت کے لئے ہماری ضروریات پوری کرنے کے لئے صدیوں سے حاضر رہا ہے۔ ہم خود کچھ احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں۔ وہ چند حکمراں طبقے جو بظاہر خبط برتری کا شکار دکھائی دیتے ہیں وہ بھی در اصل احساس کمتری سے ہی دوچار ہیں۔ اس سے بڑھ کر بلکہ انہیں اپنے آپ پر اعتماد نہیں ہے۔کسی قسم کے عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہیں۔ اسی لئےعجب عجب منطق پر مبنی بیانیے جاری کرتے ہیں۔
میں اس وقت مدینۃ الاولیا ملتان میں موجود ہوں۔ کسی تقریب کے سلسلے میں آنا ہوا ہے۔ میں اپنے وطن کو قریب سے دیکھنے کے لئے اور زمینی حقائق سے آگاہی کے لیے ریل گاڑی سے کراچی سے ملتان آیا ہوں۔بہائو الدین زکریا ایکسپریس۔ بڑے نام سے موسوم ٹرین۔ اس کی برکتیں اپنی ہونی چاہئیں۔ ہم نام بڑے بڑے رکھ لیتے ہیں۔ لیکن ان بڑے ناموں سے جو بڑی خدمات ملحق ہیں ان کا خیال نہیں رکھتے۔ یہ اولیائے کرام بندگان خدا کی جس طرح سے پذیرائی کرتے تھے۔ ان کی ضروریات کو سامنے رکھتے تھے۔ کیا بہائو الدین زکریا ایکسپرین سے متعلقہ وزیر۔ سیکرٹری۔ ریلوے حکام ان خدمات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ ٹرین کا سفر ایک رومان ہوتا ہے۔ عشق ہوتا ہے ۔ کتنی لوک بولیاں ٹرینوں سے منسوب ہیں۔ کتنی بڑی بڑی نظمیں لکھی گئی ہیں۔ کتنی عظیم فلمیں بنی ہیں۔ کتنی کتابیں تصنیف کی گئی ہیں۔ جناب خواجہ سعد رفیق نے یقینا بڑی محنت کی ہے۔ نئی خدمات بھی متعارف کرائی ہیں۔ لیکن ایک چیز دیکھ بھال بھی ہوتی ہے۔ جس سے ہماری قوم کچھ گریز کرتی ہے۔ قائد اعظم نے کہا تھا۔’’ ہم لائے ہیں کشتی طوفانوں سے نکال کے۔ اس ملک کو رکھنا مرے بچو سنبھال کے‘‘۔ ہم نے کیا کیا۔ کہاں سنبھالا۔ شروع سے ٹوٹ پھوٹ جاری ہے۔ کئی مرتبہ چھناکے زیادہ زوردار بھی ہوگئے۔
بہائوالدین زکریا ایکسپریس توجہ چاہتی ہے۔ بہت سی خدمات کو از سر نو منظّم کرنا ضروری ہے۔ کیبنوں کے دروازے گر رہے ہیں۔ ٹکٹ چیکر بہت مستعد ہیں۔ بہت دوستانہ۔ اے سی بھی چلتا رہتا ہے۔ لیکن موالج ضروریہ بہت ہی خستہ حالت میں ہیں۔
سندھ تو اندھیرے میں گزر گیا۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ سندھ میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ ٹرین کی روانگی کے اوقات ایسے ہیں کہ حیدر آباد پہنچنے تک سائے اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ جب صبح کی سپیدی بکھرتی ہے تو پنجاب کی سرحد شروع ہوچکی ہوتی ہے۔ انگریز کے دَور سے حیدر آباد۔ سکھر ۔روہڑی اسٹیشن بڑی شہرت رکھتے ہیں۔ یہاں کے انسانوں کو غلام بنانے میں بھی ان مقامات کا بڑا کردار رہا ہے۔ کبھی بیرونی آقائوں کا اور اندرونی سلطانوں کا ہمیشہ سے اب بھی۔ لیکن انسانوں کو آزادی سے ہمکنار کرنے میں بھی ان مقامات کا بہت ہی تاریخی کردار ہے۔ ہم نہیں دیکھ سکے کہ سندھ میں کونسی فصل بوئی جارہی ہے ۔ کونسی کٹ رہی ہے۔ اس جملے کو بھی آپ کسی دوسرے معنوں میں نہ لیں۔ میں ان فصلوں کی بات کررہا ہوں جو زمینوں میں کاشت کی جاتی ہے۔ان فصلوں کی نہیں جو ذہنوں میں بوئی جاتی ہیں اور آنے والی نسلوں کو کاٹنی پڑتی ہیں۔ جیسے آج کل ہم صرف سندھ میں ہی نہیں پورے ملک میں اپنے بزرگوں اور حکمرانوں کا بویا ہوا کاٹ رہے ہیں۔ ہمارے سپہ سالار نے بھی جرمنی کی ایک کانفرنس میں یہ برملا کہا کہ ہم چالیس سال پہلے کا بویا ہوا کاٹ رہے ہیں۔
ماضی کا جب ماتم ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم ماضی سے کچھ سبق سیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف چالیس سال کی بات ہورہی ہے۔ دوسری طرف 70سال کی۔ بہت ہی اعتماد اور وثوق سے کہا جارہا ہے کہ پچھلے 70سال جیسے گزرے ہیں ۔ اگلے 70سال ویسے نہیں گزرنے چاہئیں۔ میں یہ عہد کرتا ہوں کہ آئندہ 20سال اس سے مختلف ہوں گے۔
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
اگلے 70سال کون کون جئے گا۔ یہ جو 70سال گزرے ہیں۔ ان میں سے 35سال تو میاں صاحب کو بھی ایسے اختیارات کے ساتھ ملے تھے کہ وہ جیسے گزرے ہیں۔ انہیں ویسے گزرنے نہ دیئے۔ لیکن وہ چونکہ ایک عزم کررہے ہیں اسی لئےہمیں ان کا ساتھ دینا چاہئے۔ لیکن میاں صاحب ہمیں وہ روڈ میپ تو دیں جس کے ذریعے 70سال مختلف ہوں گے۔ وہ اپنے اندر کتنی تبدیلیاں لارہے ہیں۔ اپنی ٹیم میں کونسے نئے کھلاڑی لارہے ہیں۔
میں پنجاب سے گزر رہا ہوں۔ کھیتوں میں گندم کٹ چکی ہے۔ اس کے ذخیرے مٹی سے لیپ کر محفوظ کرلئے گئے ہیں۔ نئی فصل بوئی جارہی ہے۔ زندگی حرکت میں ہے۔ آبادی بڑھ رہی ہے۔ کچے گھروں پر پلاسٹک کی ایک ٹنکی ضرور نصب ہے اور ایک ڈش ۔ ایک سے پانی کی پیاس بجھتی ہے ۔ دوسری سے آگہی کی۔ یہ نیا پنجاب ہے۔
ہماری منزل ملتان ٹی ہائوس ہے۔ اس کا افتتاح میاں شہباز شریف نے کیا ہے۔ادیبوں۔ صحافیوں۔ شاعروں دانشوروں کی نشست گاہ۔ میں پہلی بار آیا ہوں ۔ ایسا مقام میں نے پورے پاکستان میں کہیں اور نہیں دیکھا۔ بہت ہی کشادہ۔ فراخ۔ نیا فرنیچر۔ دیواروں پر حکمرانوں کی نہیں۔ اولیاء اللہ ۔ صوفیا۔ دانشوروں۔ مفکروں۔ افسانہ نگاروں۔ ناول نویسوں کی تصاویر۔ ماضی بھی حال بھی اور مستقبل نیچے کرسیوں پر۔ چائے کے ساغر سے لطف اندوز ہوتا ہوا۔ پارکنگ کے لئے کھلی وسیع جگہ۔ اوپر ایک ہال جہاں آپ وطن عزیز، ادب، کتاب کے بارے میںتقریب منعقد کرسکتے ہیں۔اپنے فکری مسائل پر تبادلۂ خیال کرسکتے ہیں۔ کتاب قلم اور سوچ سے رشتہ رکھنے والوں کو چائے اور لوازمات ارزاں قیمت پر ملتے ہیں۔ عام پاکستانی بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ ماحول دانش پرور۔ مجھے رشک آرہا ہے۔ ملتان کے ہم عصر انشا پردازوں اور سوچنے والوں پر۔ کتنے خوش قسمت ہیں۔ کراچی۔ لاہور۔ پشاور۔ کوئٹہ۔ کہیں بھی ایسی خوبصورت۔ خیال انگیز نشست گاہ نہیں ہے جہاں ایک دوسرے کو حال دل سنایا جاسکے۔ درد بانٹا جاسکے۔ بات تاریخ جغرافیے سے شروع ہوئی۔ ختم شعر و افسانہ پر ہورہی ہے۔ حکایتِ ہستی یہی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)