اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمی نے ’’بلوچستان میں پانی کی قلت اور دیگر مسائل سے متعلق از خودنوٹس کیس‘‘ کی سماعت کے دوران مقدمہ سپریم کورٹ کی کوئٹہ برانچ رجسٹری کو منتقل کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آج بروز جمعرات 10مئی تک ملتوی کردی ہے۔ فاضل عدالت نے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ اور ثنااللہ زہری کوبلوچستان میں پانی کی قلت اور دیگر مسائل کے حل کیلئے تجاویز اور سفارشات کے ساتھ حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے جبکہ امن عامہ کی صورتحال کے حوالے سے فرنٹیئر کانسٹیبلری ( ایف سی) بلوچستان جنوبی اور شما لی کے سربراہوں کو بھی طلب کرلیا ہے،کیس کی سماعت آج شام سات بجے کوئٹہ برانچ رجسٹری میں ہوگی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہمیں بلوچستان کی فکر ہے، صوبے کو خود سے حکمرانی کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی ہے؟ عدالت عظمیٰ نے بلوچستان میں تعلیم اور صحت کی صورتحال پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مینب اخترپر مشتمل تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز ازخود نوٹس کی سماعت کی تو عدالت کے نوٹس پر سابق وزرائے اعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ اور ثنااللہ زہری عدالت میں پیش ہوئے۔ فاضل چیف جسٹس نے عبدالمالک بلوچ سے سوال کیا کہ کیا آپ اپنے صوبے میں پانی کی صورتحال سے مطمئن ہیں؟ بلوچستان میں جھیلیں سوکھ گئی ہیں آپ نے اپنے دو ر میں اس حوالے سے کیا اقدامات کیے تھے ؟ انہوں نے بتایا کہ جب میں نے اقتدار سنبھالا توفرقہ واریت کی وجہ سے 248 افراد ہلاک ہوئے تھے، اس لئے ہم نے سب سے پہلے امن عامہ کی صورتحال کو بہتر بنایا، امن عامہ کے بغیر کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا ہے ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ان دنوں ہزارہ برادری کے قتل عام میں کمی ہوئی تھی؟ عبدالمالک نے کہا کہ 258 سے کلنگ کم ہوکر 48 پر آگئی تھی ، سابق آئی جی کو بلا کر پوچھ لیں میں نے کبھی بھی پولیس میں سیاسی مداخلت نہیں کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بیشتر علاقوں میں امن قائم کیا تھا لیکن اب بھی کئی علاقوں میں شرپسند موجود ہیں،انہوں نے بتایا کہ حکومت کو فعال کرنے کی بہت کوشش کی جس سے 2013 سے 2015 تک بلوچستان میں جرائم کی شرح میں کمی ہوئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے میں 6054 اسکولوں کی دیواریں اور ٹوائلٹ تک نہیں ہیں، جس پر عبدالمالک بلوچ نے بتایا کہ بلوچستان کا کل بجٹ 42 ارب روپے کا ہے، نئے اسکولوں کو بنانے کیلئے 62 ارب روپے درکار ہیں،لیکن اس کے باجود ہم نے تعلیم کے بجٹ کو 4 فیصد سے بڑھا کر 24 فیصد تک کردیا تھا،جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ بجٹ کا ایشو مت بتائیے گا کہ پیسہ نہیں ہے اور سالانہ 100 اسکولوں کواپ گریڈ کرینگے تو60 سالوں میں 6 ہزاراسکول اپ گریڈ ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ سب ہی یہی کہتے ہیں کہ بجٹ نہیں ہے، کوئٹہ کے اسپتالوں میں تو سی سی یو تک نہیں ہیں؟اسپتالوں کی حالت انتہائی خراب ہے جس کو دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہواہے، جب میں نے اسپتال کا دورہ کیا توعملہ کئی روز سے ہڑتال پر بیٹھا تھا۔ انہوں نے عبدالمالک بلوچ سے کہا کہ آپ قوم کے رہنما ہیں، بلوچستان پسماندہ نہیں بلکہ دولت سے مالامال ہے، آپ نے اپنے 5 سالہ دور میں صحت، تعلیم اور پانی سے متعلق کیا اقدامات کئے تھے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ان سے استفسار کیا کہ پانی کی قلت ختم کرنے کیلئے آپ نے کیا اقدامات کیے تھے ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ جب بلوچستان گیا تو وہاں کی حالت دیکھ کر بہت دکھ ہوا ہے ، ہمیں توبلوچستان کی بہت فکرہے، بلوچستان کوخود سے حکمرانی کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی ہے؟ کیا بلوچستان کے لوگ سیاسی طور پر طاقت میں نہیں ہیں؟ جس پر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ صوبہ بلوچستان میں آج تک غیر جانبدار انتخابات منعقد نہیں ہوئے، وہاں پر غیر جانبدارانہ انتخابات منعقد ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو وفاق سے اس کا حصہ نہیں ملتا ہے ، پانی کیلئے بجٹ میں ایک روپیہ بھی نہیں رکھا گیا ہے،جس پر فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔ عبدالمالک بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ پانی کی قلت کے خاتمہ کیلئے اربوں روپے درکار ہیں، ہم نے بڑے اور چھوٹے ڈیموں پر کام شروع کیے تھے،جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ان سے استفسار کیاکہ کیا یہ ڈیم بن گئے ہیں؟ یا صرف کاغذوں تک محدود ہیں؟ سابق وزیراعلی نے بتایا کہ کچھ ڈیم مکمل ہوچکے ہیں جبکہ کچھ پر کام ہورہا ہے، کوئٹہ کا ڈیم 35 فیصد مکمل ہوچکا ہے ، گوادر ڈیم کا تعمیراتی کام بھی مکمل ہوچکا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صوبے میں پانی ختم ہورہا ہے، پانی کی قلت ختم کردیتے لوگوں کو پانی فراہم کردیتے، ہمیں بتائیں عدلیہ بلوچستان کے حالات کے حوالے سے کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟ جس پر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ جن لوگوں نے کام کیا عدالت ان کی ستائش کرے، جن لوگوں نے کام نہیں کیا ان کی سرزنش کرنی چاہئے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ جنہوں نے کام نہیں کیا ان پر ذمہ داری عائد کرنی پڑیگی۔