• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: سید حسن رضا جعفری…ممبر بورڈآف ریونیو پنجاب(ریٹائرڈ)
جن سے مل کے زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید دیکھے نہ ہوں مگر ایسے بھی ہیں
سرور بارہ بنکوی کا یہ شعر سید ضمیر جعفری مرحوم جیسے لوگوں کیلئے ایک ہدئیہ عقیدت ہے۔ احباب ادب اردو طنزومزاح کے بے تاج بادشاہ مردِدرویش سید ضمیر جعفری مرحوم کی یا د میں ہر سال یادگار محافل اور برسی کا اہتمام کرتے ہیں جس میں اپنا ہدیہ عقیدت بھی شامل کر رہا ہُوں۔ 12 مئی 2018 کے دن ان کو ہم سے بچھڑے 19 برس ہو رہے ہیں مگر آج بھی و ہ اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ مشتاق احمدیُوسفی اس چاہت کا اظہار کچھ اسطرح کرتے ہیں۔میں نے اپنی زندگی میں ایک ایسا بھی خدا کا بندہ دیکھا ہے جسے اس کی زندگی میں اور اس کے رخصت ہونے کے بعد بھی کبھی کسی نے برا نہیں کہا۔ یہ فوز عظیم اور رتبہء بلند جسے ملا اسے سب کچھ مل گیا۔ سید ضمیر جعفری کو سب نے اچھا اس لیئے کہا کہ وہ واقعی اچھے تھے۔ انہوں نے سب سے محبت کی جو بے لاگ اور غیر مشروط تھی۔ اللہ کے ایسے بھی منتخب بندے ہیں جن کے نام اور کام کا غلغلہ ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی اور زیادہ بلند ہوتا ہے۔ ضمیر جعفری بھی اُن ہی نیک نام و نایاب و عجوبہ روزگار بندوں میں سے ایک ہیں۔ اپنے کسی دکھ تکلیف یا پریشانی کا ذکر کرکے اوروں کو مغموم کرنا انہوں نے نہیں سیکھا تھا۔وہ ہمیشہ مسکراہٹیں اور خوشیاں ہی بانٹتے رہے اور اپنے دکھ میں کسی کو شریک نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سید ضمیر جعفری مرحوم کا شمار اردو ادب کی اُن چند شخصیات میں ہوتا ہے جنکی مقبولیت میں اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی کوئی کمی نہیں آئی کیونکہ انکی شاعری اور تحریروں میں ماضی کی زبوں حالی اور مرثیوں کے بجائے زمانہء حال کی تصویر کشی اور مستقبل کی پیش بینی کا عنصر زیادہ ہے۔ جسکی مثال ان کا یہ شعر ہے۔
عصرِ حاضر تجھ کو کیا معلوم ہم کیا لوگ تھے
جو صدی آئی نہیں اسکی صدا ہم لوگ تھے
اس پیرائے میں جوہر میر نے کیا خوب کہا۔
وہ وطن کی جان تھا پہچان تھا
سرسے پائوں تک وہ پاکستان تھا
برگدوں جیسا کوئی انسان تھا
اس کے سائے میں بڑا نیروان تھا
اب جو روتے ہیں سبھی تو یہ کھلا
وہ سبھی کے درد کا درمان تھا
ضمیر جعفری صاحب کی ہمہ جہت شخصیت کو دیکھنے کے لیئے ان کی شاعری کی تمام اضاف پر نظر ڈالنا ہوگی۔ان کی نثری تحریروں، اخباری کالموں اور شخصی خاکوں کا مطالعہ کرنا ہوگا ان کے منظوم تراجم ان کی تخلیقی ہنر مندی کا زندہ ثبوت ہیں۔ ان کی مِلی اور قومی شاعری میں وطن سے محبت انکی من موہنی شخصیت اور قومی کردار کی آئینہ دار ہے۔اُنکی 60 سالہ فعال ادبی زندگی کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ہر قدم پر پاکستان اور ادب کے بارے میں بہت مُعتبر اور تاریخی حوالے نظر آئیں گے۔ لہٰذا اُن کی شاعری کو ایک قومی دستاویز کی حیثیت حاصل ہے۔ افتخار عارف نے اپنے ادبی ریفرنس میں کیا خوب کہا۔ اردو کے مزاحیہ ادب میںضمیر جعفری اکبر الٰہ آبادی کے بعد شاعری کی سب سے بڑی آواز تھے۔مُہذب، شگفتہ، شائستہ اور برجستہ مزاح کی جس روایت کا آغاز انہوں نے کیا وہ آنے والوں کے لیئے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ملاحظہ کریں۔
اے خدا مرے وطن کو خرم و خوشحال کر۔ اے خدا مرے وطن کو عزت و اکرام دے
اس دعا کے بعد صبح و شام بس یہ کام ہے۔ میں تجھے الزام دوں تو مجھے الزام دے
ادبی تراجم کے حوالے سے اہل دانش ضمیر جعفری صاحب کے کمالِ فن کا اعتراف کرتے ہیں۔ان کے قومی و ملی نغمے بھی ہماری تہذیبی زندگی کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ کشمیر کی تحریکِ جدو جہد آزادی میں جو خدمات انہوں نے انجام دی ہیں وہ ہماری تاریخ کا ایک روشن اور درخشندہ باب ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی فرماتے ہیں۔آپ ضمیر جعفری صاحب کا سنجیدہ کلام بھی پڑھیے اور ان کا مزاحیہ کلام بھی اور ان کو ملا کر دیکھیے تو عہد حاضر کی ایک بھاری بھر کم شخصیت آپکے نہاںخانہ میں وارد ہوگی۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہمارے شاعروں کا عمومی رویہ یا د ماضی کا عکا س ہوتا ہے مگر اس کے برعکس ضمیر جعفری صاحب ایک عزم و امید کے ساتھ آنے والے دور کے استقبالی گیت گاتے ہیں۔شعر ملاحظہ کریں۔
ربط ہے تازہ ہر اک چہرے ہر اک منظر کے ساتھ
میں بڑھاپے کو نہ آنے دوں گا کیلنڈر کے ساتھ
عہدِ حاضر کے مشہور شاعر و ادیب جمیل یوسف صاحب کہتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جعفری صاحب جس طرح اپنی مزاحیہ شاعری میں منفرد ہیں اسی طرح اپنی سنجیدہ شاعری میں یکہ و تنہا اور بے مثال ہیں۔وہ ذاتی طور پر اپنی سنجیدہ شاعری کو زیادہ دقیع اور بلند تر سمجھتے تھے اور میں بلا خوفِ تردید یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ وہ مزاحیہ شاعری میں عظیم تھے لیکن اپنی سنجیدہ شاعری میں عظیم تر تھے۔وہ کئی لحاظ سےاردو کے تمام شعرا میں مُنفرد اور ممتاز مقام رکھتے ہیں مثلاًاُردو شاعری میں پہلی دفعہ پاکستان کی دھرتی کا روپ اور بُوباس انکی شاعری میں بھرپور حسن کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ان کی سنجیدہ شاعری کا مجموعہ " قریہ جاں ـ" اپنی دھرتی کے ساتھ انمٹ محبت کا غماز ہے۔اُن کے مختلف مجموعوں کے عنوان بھی اس دھرتی کے ساتھ عشق کے ترجمان ہیں جیسا کہ جزیروں کے گیت، جنگ کے رنگ،لہُو ترنگ،گنرشیر خان،میرے پیار کی زمین، من کے تار،کھلیان، من میلہ،یہ سب ان کی سنجیدہ نظموں کے مجموعے ہیں۔اپنی کتب کے ناموں کے انتخاب ہی سے ضمیر جعفری صاحب کی شاعرانہ انفرادیت جلوہ گر ہے۔ مشرقی پاکستان کے سانحے پر جس طرح انہوں نے طویل نظم گنر شیر خان کے عنوان سے لکھی ہے وہ ان کی محب وطنی اور انفرادیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ صحیح معنوں میں پاکستانی اور اسلامی اقدار کے شاعر تھے جسکی مثال عہد حاضر میں کم کم ہی ملتی ہے۔ ان کے کردار و عمل کا یہ پہلو بے مثال ہے کہ بھارتی حکومت نے انہیں دہلی بلا کرادبی ایوارڈ دینا چاہا مگر انہوں نے انکار کر دیا اور جواب میں لکھا کہ جب تک بھارت کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم بند نہیں کرتا اور کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل نہیں کرتا وہ بھارت جانے یا وہاں سے ایوارڈ وصول کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔زبوُر وطن، میرے پیار کی زمین اور گنر شیر خان ایسی تخلیقات ہیں جو وطن کی محبت اور قومی غم سے لبریز ہیں۔ حتیٰ کہ مزاحیہ شاعری میں بھی اِسکی جھلک موجود ہے۔
دریدہ دامنوں خستہ گریبانوں کی باتیں ہیں
غزل میں جتنی باتیں ہیں مسلمانوں کی باتیں ہیں
سید ضمیر جعفری کی مطبوعہ تصنیفات کی تعداد قریباً60 ہے۔ ان کی ڈائریوں کا سلسلہ 6 کتابوں پر مُحیط ہے اور کالموں کے مجموعے اس کے علاوہ ہیں جس میں ُانکی اس دھرتی سے محبت، دوستیاں، خوشیاں اور زندگی کی ترجیحات بڑی واضح ہیں۔اُنکی صحافتی زندگی، سفرنامے، نثری تحریریں اور اسی طرح ہم عصر ادبی شخصیات کے خاکے اور مضامین اپنے عہد کی تہذیبی زندگی کے ترجمان ہیں اسی لیے محترم شفیق الرحمان نے سید ضمیر جعفری کو اردو کا ممتاز آل رائونڈر کہا ہے۔وہ اس لحاظ سے اردو کے تمام شعراء میں منفرد مقام رکھتے ہیں کیونکہ اُردو شاعری میں پہلی دفعہ پاکستان کی دھرتی کا روپ اور بُوباس انکی شاعری میں مکمل حُسن اور جاذبیت کیساتھ جلوہ گر ہے۔" قریہ جاں" معاشرتی حسن اور دھرتی سے پیار کی ایک زندہ مثال ہے۔بریگیڈیر صدیق سالک لکھتے ہیں۔ "لوگ انہیں صرف مزاح نگار یا مزاحیہ شاعر سمجھتے ہیں لیکن آپ ان کی سنجیدہ تحریریں۔نثرو نظم دونوں پڑھکر دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ دورِ حاضر میں ان کے پائے کے سنجیدہ شاعر بہت کم ہیں۔اگر سنجیدہ لکھنے والے انکی سنجیدہ شاعری دیکھ لیں تو مجھے یقین ہے کہ وہ اور سنجیدہ ہو جائیں کہ ہم اب تک کیا کرتے رہے ہیں۔"
مُحترم ضمیر جعفری کا یہ اجمالی تذکرہ اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ انکی تخلیقات و تصنیفات کا کینوس بہت وسیع ہے۔ انہوں نے اپنی تخلیقات کو حُب وطن اور اس دھرتی کی بُوباس کے خوبصورت رنگوں اور پھولوں سے بھر دیا ہے۔عمر کے آخری ایام میں بزرگوارم نے جب امریکہ کیلئے اپنا قصدِسفر کیا تو اسلام آباد میں عقیدتمندوں نے ایک الوداعی محفل کا اہتمام کیا جس میں الوداعی نظم پڑھکرخود بھی آنسوں میں ڈوب رہے تھے اور پوری محفل کو بھی مغموم کر دیا۔ملاحظہ کریں اس دھرتی سے والہانہ محبت کا اظہار۔
چُپکے چُپکے اس نگر میں گھومنے آئوں گا میں
گُل تو گُل ہیں، پتھروں کو چومنے آئوں گا میںــ
آسماں اُنکی لحد پر شبنم افشانی کرے۔آمین۔
تازہ ترین