• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رمضان شریف

فاروق قیصر

رمضان کے شروع ہونے سے پہلے، جس طرح ہمارے گلی گلی بے تحاشا “شامیانے“ لگتے اور ہوٹل ہوٹل بے پناہ “شادیانے“بجتے ہیں،اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ ہم لوگ اپنی خوشیوں کی منصوبہ بندی کرنے میں کتنے ایڈوانس واقع ہوئے ہیں۔ اس مہینے کی آمد سے پہلے ہم شادیاں اور موسیقی کے پروگرام دھڑا دھڑ کچھ اس طرح بھگتا رہے ہوتے ہیں، جیسے جنگ یا ہڑتال کی خبر سن کر گھر میں ایڈوانس راشن ڈال دیا جاتا ہے۔ 

رمضان کے مہینے میں ،جہاں قوال اور نعت خواں خوش نظر آتے ہیں، وہاں خاص گلوکار اور عام سازندے سرعام اداس پھر رہے ہوتے ہیں بقول سرگم انسانوں اور دفتروں کی طرح مہینوں میں یہ ایک شریف مہینہ ہوتا ہے، جسے ہم رمضان شریف کہتے ہیں۔

انسانی شرافت کی طرح رمضانی شرافت کا بھی ہمارے ہاں ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ رمضان شریف کی عقیدت کی آڑ میں دفتروں، سرکاری اداروں اور بینکوں کے ملازم روزے دار آدھا دن کام کر کے پورے دن کی تنخواہ وصول کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر اسے بڑی ایمانداری سے پورا کرتے ہیں۔ دکاندار بھی 30 دن جھوٹ بولنے سے “عارضی توبہ“ کرتے ہیں ، وہ اس طرح کہ اشیاء فروخت کی قیمتیں منہ سے بتانے کے بجائے ان پر پرائس ٹیگ لگا دیتے ہیں، تاکہ اس مبارک مہینے میں انہیں جھوٹ بولنا نہ پڑے۔

بونگے کا کہنا ہے کہ زندگی ایک سفر ہے اور سفر میں روزہ معاف ہے، اس لئے امیر آدمی کی یہی کوشش ہوتی ہےکہ وہ زیادہ تر ہوائی سفر میں ہی رہے۔ رمضان شریف کے سوا عام دنوں میں ہوائی جہاز کے چالاک اور تجربہ کار مسافر ہمیشہ اگلی سیٹوں پر بیٹھتے ہیں، جبکہ رمضان شریف میں وہ ہمیشہ جہاز کی پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ پہلی سیٹ پر بیٹھے ہوں اور ایئر ہوسٹس کھانے پینے کے لئے کچھ لائے تو آپ “سرموشرمی“ کہہ دیتے ہیں کہ میں‌روزے سے ہوں۔ 

پھر جب آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ آپ کے سوا سب ہی کھا پی رہے ہیں، تو آپ کو اپنی جلد بازی پر پورے سفر افسوس ہوتا ہے۔ ے انکل سرگم کا کہنا ہےکہ رمضان میں شیطان قید ہو جاتا ہے اور آج کل کا انسان ضمانت پر رہا ہو جاتا ہے۔

تازہ ترین