• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کھوکھلا وجود

’’تم نے آخر ہمارے لیے کیا کیا ہے؟‘‘یہ ایک جملہ اب تک اس کی سماعتوں میں گونج رہا تھا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ، وہ ایک سوال تھا یا کوئی ہتھوڑا جو اس کے دل و دماغ پر برس رہا تھا۔ وہ کچھ بولنا چاہ رہی تھی، مگر، ایسے لگ رہا تھا گویا رشتوں کا پھندا اس کے گلے میں اٹک گیا ہو ۔وہ ان کو حقیقت کا آئینہ دکھانے کے لیےکچھ بیتی باتیں بتانا چاہ رہی تھی،مگر حقارت سے اس کی جانب دیکھتے، اس کی آنکھوں کے آگے دھندلاتے ان کےچہرےدیکھ کر وہ اتنا بھی نہیں کر پائی۔اسے آج بھی یاد تھا وہ دن جب پہلی بار اس کے بابا نے اس کو نئی گڑیا دلائی تھی تو کیسے چھوٹی نے اس سے وہ گڑیا چھین لی تھی یہ کہہ کرکہ میری والی مجھے اچھی نہیں لگتی چاہے تو ، تو رکھ لے۔وہ گڑیا اس کے لیے صرف گڑیا نہیں تھی باپ کی طرف سے ملی ہوئی پہلی توجہ تھی جو خاص اس کے لیے تھی،اس لیے وہ کسی طرح بھی اس کو دینے کے لیے تیار نہ تھی۔

’’میری چندا بٹیا ہے نا تو،سب سے بڑی اور سب سے سمجھدار بھی ، رانی بڑوں کو ہمیشہ چھوٹوں کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے‘‘۔پیار سے پچکارتے ہوئے سمجھائے گئے ماں کے ان جملوں کو اس نے کسی حکم سے کم درجہ نہ دیا تھا، پھر صرف گڑیا ہی نہیں بڑھتی عمر کے ساتھ اس نے اپنی زندگی کی ہر خوشی تک اپنے چھوٹوں پر نچھاور کردی تھی۔وقت کی بے رحم آندھی نے باپ کا سایہ اس کے سر سے ہٹا دیاتو اس نے خود کو اپنوں کے لیے وقف کر دیا۔

اپنی خواہشوں کے پر تو وہ چھوٹی عمر سے ہی کاٹتی آئی تھی، مگر روز اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا گلا گھونٹتی ریزہ ریزہ بکھرتی امید کا دامن تھامے، اس آس پر خود کو سمیٹتی رہی کہ جب رشتوں کی جڑیں مضبوط ہوجائیں گی تو خوشیوں کے غنچے پھر سے پھو ٹنے لگیں گے،خوابوں کے جزیرے پھر سے آباد ہوں گے تو امید کے جگماتے جگنو اپنے ساتھ راحت کی روشنی ضرور پھیلائیں گے ،مگر اس سے پہلے کہ امید کے کچھ اور جگنو اس کے اندر بسے اندھیرے مٹا پاتے، خود کو منوانے کی ایک چھوٹی سی کوشش نے اس کو یہ اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ اس کی پوری عمر بس ایک خوش فہمی کی نذر ہوگئی تھی ۔رشتے تو آج بھی اس کے لیے اجنبی تھے ۔

اس نے چند کمزور رشتوں کو مضبوط کرتے کرتے ، جس میں کوئی خوشی نہ تھی نہ ہی آس و امید کا کوئی دیا روشن تھا،اگر کچھ رہ گیا تھا تو بس اس کا اپنا کھوکھلا وجود۔

(معصومہ ارشاد)

تازہ ترین
تازہ ترین