انٹرویو: اختر سعیدی
عکاسی: اسرائیل انصاری
انور شعور کا شمار، پاکستان کے اُن ممتاز و معتبر شعرا میں ہوتا ہے، جنہیں توجہ سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ وہ بلاشبہ صاحبِ اسلوب شاعر ہیں۔ اُن کے مصرعے کی ساخت خود بتادیتی ہے کہ میں انور شعور کا مصرعہ ہوں۔ انور شعور بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں، غزل بھی ایسی، جو اپنا شجرۂ نسب رکھتی ہے۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شائع ہونے والے اُن کے قطعات بھی اُن کی شناخت کا ایک حوالہ ہیں۔2016 ء میں اُنہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ’’تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی‘‘ عطا کیا گیا۔
انور شعور نے آسان زبان میں بڑی شاعری کی ہے۔ اُن کی شاعری کو دنیائے ادب کی تمام نامور شخصیات نے سراہا ہے، جہاں جہاں اُردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، وہاں وہاں انور شعورکی رسائی ہے۔ اُنہیں مشاعروں کی جان تصور کیا جاتا ہے۔ انور شعور کے جو شعری مجموعے شائع ہوئے، اُن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ ’’اندوختہ‘‘ (1995) ’’مشقِ سخن‘‘ (1997) ’’می رقصم‘‘ (2006) ’’دل کا کیا رنگ کروں‘‘ (2014) ’’کلیاتِ انور شعور‘‘ (2015) ’’آتے ہیں غیب سے‘‘ (2017)۔ اُن کے مجموعہ کلام ’’می رقصم‘‘ کو اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ’’علامہ اقبال ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا تھا۔ انور شعورسے گزشتہ دنوں ہم نے تفصیلی ملاقات کی، اس دوران ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔
س:حالاتِ زندگی، خاندانی اور تعلیمی پس منظر سے آگاہ فرمائیں؟
ج: 1943ء میں پیدا ہوا، آبائو اجداد کا تعلق فرخ آباد سے تھا، بعد ازاں والدین ممبئی چلے گئے، وہاں سے ہمارے خاندان نے 1947ء میں کراچی ہجرت کی، ہم کچھ عرصہ بوہرہ پیر میں بھی رہے، پھر ناظم آباد منتقل ہو گئے۔ میرا بچپن رنچھوڑ لائن اور ناظم آباد میں گزرا، ہم نے ناظم آباد کو آباد ہوتے ہوئے دیکھا۔ مجھے وہاں حسینیہ ہائی اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ والدہ کا انتقال بہت جلد ہو گیا تھا۔ والد بڑے سخت گیر اور پٹھان ٹائپ آدمی تھے۔ وہ میری حرکتوں کی وجہ سے زبان سے زیادہ ہاتھ سے کام لیتے تھے۔ میں نے پانچویں جماعت کے بعد اسکول کو خیر باد کہہ دیا۔ اس کے بعد کالج اور یونیورسٹی کو مشاعروں کے بہانے دیکھا۔ ہمارے گھر کا ماحول انتہائی مذہبی تھا۔ میں والد کے ساتھ نماز پڑھنے جایا کرتا تھا، مسجد میں نعتیں سن کر نعت خوانی کا شوق پیدا ہوا۔ میری آواز بھی اچھی تھی۔ لوگ مجھے بڑے ذوق و شوق سے سنتے تھے۔ اُس زمانے میں مجھے اُردو اور فارسی کی بیشتر نعتیں یاد ہو گئی تھیں اور میں باقاعدہ ایک نعت خواں کی حیثیت سے مشہور ہو گیا تھا۔
س:وہ کیا محرکات تھے، جنہوں نے آپ کو شعر و ادب کی طرف راغب کیا؟
ج:میرے خاندان میں کوئی شاعر نہیں ہے۔ نعت خوانی کی وجہ سے طبیعت موزوں ہو گئی تھی، جس مسجد میں ناظرہ قرآن شریف پڑھنے گیا، وہاں افسر صابری دہلوی استاد تھے۔ اُن کا شمار بے خود دہلوی کے قابلِ ذکر شاگردوں میں ہوتا تھا۔ وہ غریب آدمی تھے، لیکن دل بہت بڑا تھا، اُن کی فیس طے شدہ نہیں تھی، جو دے دیا، رکھ لیا۔ وہ غزل بھی کہتے تھے، لیکن اُن کا اصل میدان، نعت نگاری تھا۔ ’’میلادِ اکبر‘‘ کی طرز پر اُنہوں نے ایک کتاب ’’میلادِ افسر‘‘ لکھی۔ شاعری کے محاسن اُنہوں نے مجھے گھول کر پلا دیئے تھے۔ پہلی نعت اُن کی لکھی ہوئی میں نے ایک مشاعرے میں اپنے نام سے پڑھی، جس سے مجھے بہت حوصلہ ملا۔ افسر صابری دہلوی، گویا میرے پہلے استاد ہیں۔ اُن کے انتقال کے بعد میں نے تابش دہلوی اور سراج الدین ظفر سے بھی اپنے کلام پر اصلاح لی۔ مجھے مطالعے کی عادت، بچپن ہی میں پڑ گئی تھی۔ میں نے شاعری سے متعلق مضامین پڑھے اور پڑھتا ہی چلا گیا۔ نصابی کتابوں میں تو کبھی دل نہ لگا، غیر نصابی کتابوں کا مطالعہ ہنوز جاری ہے۔ میری والدہ بھی مطالعے کی شوقین تھیں، اُس زمانے میں ’’بنات‘‘ اور دیگر رسالے ہمار ے گھر پر آیا کرتے تھے۔ میں نے بچوں کے تمام رسالے پڑھ ڈالے۔ شفیع عقیل ’’جنگ‘‘ میں بچوں کے بھائی جان ہوا کرتے تھے۔ اُنہوں نے میری ایک کہانی 12سال کی عمر میں چھاپی۔ ایک مرتبہ عالی جی نے کہا کہ تم میں اور رئیس امروہوی میں کیا فرق ہے۔ میں نے کہا کہ وہ عالم آدمی ہیں اور میں طالب علم، فرق واضح ہے۔ میری شعر گوئی میں اتنی روانی نہیں، عالی جی کہنے لگے کوئی بات نہیں، روانی آجائے گی۔ رئیس بھائی، سیکنڈوں میں قطعہ لکھ دیا کرتے تھے۔ مجھے قطعہ لکھنے میں اچھا خاصا وقت لگتا ہے۔ عالی صاحب نے کہا کہ فکر نہ کرو، روانی آجائے گی، ویسے روانی تو آج تک نہیں آئی۔ جون ایلیا بھی بہت تیزی سے شعر کہتے تھے۔
س:آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
ج:کچھ نہ کچھ سچائی ہوتی ہے نہاں ہر بات میں
کہنے والے ٹھیک کہتے ہیں سبھی، اپنی جگہ
ادب، زندگی کے ہر پہلو، ہر نظریے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ نظریۂ ادب، خود ادب ہے۔ آپ کسی بھی نقطۂ نظر سے زندگی گزاریں، کچھ نہ کچھ محدودات، کچھ نہ کچھ تحفظات ہوتے ہیں، بعض اوقات، تعصبات بھی آڑے آجاتے ہیں۔ ادب، واحد شعبہ ہے، جس میں نہ تو کوئی آپ پر پابندی لگاتا ہے، نہ کسی نقطۂ نظر سے روکتا ہے، بلکہ نئی نئی باتیں سمجھاتا ہے، اگر ادبی نظامِ حیات قائم ہو جائے تو انسان، سچ مچ انسان بن سکتا ہے۔ ترقی پسند تحریک نے پوری دنیا کے ادب کا مزاج بدلا ہے۔ ترقی پسندوں نے ادب کو ایک منشور دیا، ادب میں ہر سطح پر تبدیلی آئی، اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ عبوری طور پر یہ تحریک ناکام ضرور ہوئی، اس کی بنیادی وجہ، سرمایہ دارانہ نظام ہے، جس نے انسان کو غیر انسانی جہت میں تبدیل کر دیا ہے، اس کے خلاف جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔ ہمارے تصورات، وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہنے چاہئیں۔ اگر تبدیلی نہیں آئے گی تو انسان کی بے چینی اسی طرح بڑھتی رہے گی۔ پرانے تصورات، تاریخی اعتبار سے اپنا کام کر چکے ہیں، اب اُن کا پیچھا چھوڑ دو۔ ان کی جگہ نئی چیزیں اپنائو، اس میں کوئی حرج نہیں۔ کوئی بھی نقطہ نظر، جامد نہیں ہوتا۔ میر تقی میر نے کہا ہے کہ
یہ تواہم کا، کارخانہ ہے
یاں وہی ہے ، جو اعتبار کیا
غالب کا شعر ہے
ہم کو معلوم ہے، جنت کی حقیقت، لیکن
جی کے بہلانے کو، غالب یہ خیال اچھا ہے
س:پہلے کی ادبی فضا اور آج کی ا دبی فضا میں کیا فرق ہے؟
ج:پہلے کی ادبی فضا، بہت شان دار تھی۔ تہذیب تھی، رکھ رکھائو تھا۔ چھوٹے بڑے کا احترام، نظم و ضبط، اب یہ تمام باتیں، قصہ ٔ پارینہ ہو گئی ہیں۔ غیر محسوس تبدیلی آ رہی ہے۔ بڑوں کے احساسات بھی اب اتنے پختہ نہیں رہے۔ اب اگر کوئی نوجوان، قلم کی جگہ بندوق اٹھا رہا ہے تو یہ غلطی ہماری ہے، ہم اُس کی بہتر انداز میں تربیت نہ کر سکے، نئے لوگوں کو رہنمائی کی ضرورت ہے۔ استادی، شاگردی کی روایت ختم ہو گئی ہے۔ ادبی بیٹھکیں نہیں ہو رہیں، مکالمے کا ماحول نہیں رہا۔ ہم معتبر تو کسی کو بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن مستند کسی کو نہیں کہہ سکتے۔ مستند تو وہی ہو گا، جو فنی طور پر مستحکم ہو، استادی، شاگردی کی روایت بحال ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر تعلیمی معیار کچھ کم ہوا ہے تو کیا آپ اسکول اور مکتب کو بند کر دیں گے۔ میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا مستقبل میں کوئی فیض احمد فیض یا ناصر کاظمی نظر آ رہا ہے؟ سیکھنے کا عمل رُک گیا ہے۔ میر احمد نوید اچھے مصرعے لکھتا ہے، میں اُس سے مزید بہتری کی توقع رکھتا ہوں۔ میر، سوداؔ سے اوپر ہے، مگر سودا فنی اعتبار سے میر کے برابر کھڑا ہے۔ نظیر، فنی طور پر ناپختہ ہے تو ابھی تک اعتبار حاصل نہ کر سکا۔ فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی، شاعری میں دونوں ایک ہی نقطۂ نظر رکھتے ہیں، لیکن ساحر، فیض والا مرتبہ نہ پا سکا، اس لیے کہ فیض، فنی اعتبار سے بہت آگے ہیں۔ نظیر اکبر آبادی کے بارے میں علامہ نیاز فتح پوری نے لکھا ہے کہ وہ پہلا شاعر ہے، جس کی زبان میں پورا ہندوستان بولتا ہے، لیکن میرا نقطۂ نظر ہے کہ شاعری میں چیزیں ڈھیر کرنے کا نام شاعری نہیں ہے۔ شاعری کے ساتھ فن پر دسترس رکھنا بھی نہایت ضروری ہے۔
س:آپ کو کن نوجوان شعراء کا مستقبل روشن نظر آتا ہے؟
ج:جن کا کلام فنی اعتبار سے درست ہو گا۔ مستقبل میں وہی معتبر ٹھہریں گے، جو درست سمت اختیار کرے گا۔ وہی آگے جائے گا۔ مجھے اپنی نئی نسل سے بڑی توقعات ہیں۔ میں اُن کو مشورہ دوں گا کہ مطالعے پر زور دیں۔ میر تقی میر، غالب، میر انیس، اقبال اور فیض احمد فیض کی شاعری کو پڑھے بغیر، آگے بڑھنا ناممکن ہے۔ زبان سے واقفیت کے لیے داغ دہلوی کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔
س:اس شہر کی ادبی فضا کو متحرک رکھنے میں کن لوگوں نے نمایاں کردار ادا کیا؟
ج:ایسے لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے، لیکن اس حوالے سے رئیس امروہوی، سلیم احمد، قمر جمیل اور محب عارفی کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی بیٹھکوں سے لوگوں نے بہت کچھ حاصل کیا، اب ہر طرف سناٹا دکھائی دیتا ہے۔ میں اظہر عباس ہاشمی کا ذکر ضرور کروں گا، جنہوں نے اس شہر میں عالمی مشاعروں کی روایت قائم کی، اس سلسلے میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی بھی اُن کے ساتھ ساتھ رہے۔
س:کیا موجودہ عہد کے نقاد، اپنا فرض ادا کر رہے ہیں؟
ج:پہلے تو مجھے موجودہ عہد کے نقادوں کے نام بتائیے۔ میں آج کے نقادوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ پرانےدور میں پروفیسر مجنوں گورکھپوری، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری، پروفیسر حسن عسکری، پروفیسر مجتبیٰ حسین، خواجہ محمد ذکریا، آفتاب احمد خان، وحید قریشی اور سلیم احمد جیسے زیرک نقاد موجود تھے۔ اس دور کے بارے میں،میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں نے ایک ملاقات کے دوران، مشتاق احمد یوسفی سے کہا کہ بہت دنوں سے کچھ پڑھ نہیں سکا ہوں، آج کل ادبی پرچوں میں کیا چھپ رہا ہے، میں نے کچھ مس تو نہیں کر دیا، یوسفی صاحب نے کہا کہ فکر نہ کرو، کچھ بھی مس نہیں کیا۔
س:جون ایلیا کو آپ نے کس تناظرمیں کمزور شاعر کہا تھا؟
ج:میں نے کہا تھا کہ منیر نیازی، جون ایلیا کو کمزور شاعر کہتے ہیں، جن سے میری دوستی ہوتی ہے، میں ان کا احترام کرتا ہوں، جون صاحب سے میرے گہرے مراسم تھے۔
س:جوش ملیح آبادی کو ایک زمانہ نہایت معتبر اور مستند شاعر کہتا ہے۔ اُنہوں نے معرکۃ آرأ نظمیں کہی ہیں، اُن کو یکسر مسترد کر دینے کی وجہ؟
ج:جوش ملیح آبادی شاعر نہیں، ناظم تھے۔ شاعری وہ ہے، جو دل کو چُھو لے، ورنہ نظم ہوتی ہے۔ مجاز، ایک دن ترنگ میں کہنے لگے کہ میں ’’ماسٹر آف ڈکشن ہوں‘‘ میں نے کہا کہ جوش، وہ کہنے لگے ’’ڈکشنری‘‘ یہ بات اُنہوں نے فرق واضح کرنے کے لیے کہی، لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔ عموماً انیس و دبیر کا موزانہ کیا جاتا ہے، کہاں انیس اور کہاں دبیر، زمین آسمان کا فرق ہے۔ مجھے انیس کے ساتھ، دبیر کا نام اچھا نہیں لگتا۔ دبیر کا نام اس لیے زندہ ہے کہ وہ انیس کے دور میں تھا۔
س:آپ غزل کے شاعر ہیں، دیگر اصنافِ سخن کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ج:اچھی چیز، کسی بھی صنف میں ہو، اچھی ہے۔ نام سے کچھ نہیں ہوتا۔ کام اچھا ہونا چاہیے۔
س:آپ نے شاعری کے لیے ذاتی اور خاندانی نوعیت کے بہت ایثار کیے ہیں۔ اب کوئی پچھتاوا؟
ج:پچھتاوا کچھ نہیں، مجھے اپنی اوقات سے زیادہ ملا، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میں کتنا قابل ہوں۔ جب سے شعر کہہ رہا ہوں، مجھے لوگوں کی توجہ حاصل رہی ہے۔ میں اُسے قدرت کی مہربانی سمجھتا ہوں، بہت سے لوگ، جو کچھ بننا چاہتے تھے۔ نہیں بنے۔ میں خود اقبال بننا چاہتا تھا۔ کیا بن گیا؟ اس کے لیے کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کاہل آدمی کچھ نہیں بن سکتا۔
س:کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مزاحیہ شاعری، شاعری کی توہین ہے۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
ج:سنجیدہ شاعری میں بھی اگر برا لکھا جا رہا ہے تو وہ ادب کی توہین ہے۔ مزاح لکھنا، پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہے۔ اکبر الٰہ آبادی، پطرس بخاری اور مشتاق احمد یوسفی کی تحریریں بھی تو ادب کا حصہ ہیں۔ بہرحال مزاح لکھنا، بہت مشکل کام ہے۔
س:وہ کون لوگ ہیں، جن سے آپ کی قربت رہی ہے؟
ج:جب میں اسکول سے بھاگا تھا تو ماحول شاعرانہ تھا، ایک زمانے میں ریڈیو پاکستان بھی ایک بڑا ادبی مرکز تھا، وہاں لکھنے پڑھنے والے بڑی تعداد میں مل جایا کرتے تھے۔ اُن دنوں بہت لوگوں سے مراسم بڑھے۔ شکیل عادل زادہ سے بہت قربت رہی۔ میرے قریبی احباب میں پروفیسر ہارون رشید، نوشابہ صدیقی، محمد عمر میمن اور نسیم درانی شامل ہیں۔ ’’اخبار جہاں‘‘ نکلا تو ایڈیٹوریم بورڈ میں نذیر ناجی اور محمود شام کے ساتھ میں بھی شامل تھا۔ وہاں احفاظ الرحمٰن، نعیم آروی اور سعیدہ افضل سے مراسم پیدا ہوئے۔ میں نے ضرورتاً نثر لکھی، طبیعت میں کاہلی تھی۔ غزل تو چلتے پھرتے ہو جاتی ہے۔ نثر کے لیے بیٹھنا پڑتا ہے۔ نثر لکھنا واقعی بہت مشکل کام ہے۔ اب سوچتا ہوں کہ میں نے اتنی شاعری کیسے کر لی۔ کچھ کوشش نہیں کی، مگر قدرت کو یہی منظور تھا۔
س:آپ کی شادی کب ہوئی، کتنے بچے ہیں، کیا آپ کی اولاد میں بھی ادبی ذوق پایاجاتا ہے؟
میری شادی 1970 ء میں ہوئی۔ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ایک بیٹی کو ادب سے لگائو ہے، وہ ایک ٹی وی چینل پر ادبی پروگرام کی اینکر بھی رہی ہے۔ ایک بیٹی مصورہ ہے، اسے کچھ شاعری سے بھی رغبت ہے، باقی بچوں کو ادب سے دلچسپی نہیں ہے۔
س: کیا آپ کبھی عشق کے تجربے سے گزرے؟
ج:کون اس تجربے سے نہیں گزرتا، ہم بھی گزرے، میرا ایک شعر ہے
ہم نے بھی ایک عشق کیا تھا کبھی شعور
لیکن اس احتیاط سے، گویا نہیں کیا
س:ادبی مصروفیات سے ازدواجی زندگی تو متاثر نہیں ہوئی؟
ج:میری ازدواجی زندگی اس لیے متاثر نہیں ہوئی کہ میں ازدواجی زندگی سے متاثر نہیں ہوا۔ میری رفتار بےڈھنگی ہے، لیکن مجھے بیوی بہت اچھی ملی، اس نے پورا گھر سنبھالا ہوا ہے، جس سے میرے لیے آسانیاں پیدا ہوئیں۔ بیوی کے ہاتھ میں بہت برکت ہے، اس لیے کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
س:کیا زندگی میں کبھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا؟
ج:جب اپنی اوقات سے زیادہ توقعات باندھ لی جائیں تو مایوسی تو ہوگی۔ میں اس مرحلے سے کئی بار گزرا، لیکن اس کا مجھ پر زیادہ اثر نہیں ہوا۔ میں ہر حال میں خوش رہنے کی کوشش کرتا ہوں، بہرحال کوئی بڑی مایوسی میری زندگی میں نہیں آئی، کبھی مالی بحران کا سامنا بھی نہیں رہا۔ وہ بہت خوش نصیب ہے، جو کبھی بھوکا نہ سوئے۔
س:والدین کی محبت کو کس طرح بیان کریں گے؟
ج:میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ والد بہت سخت مزاج آدمی تھے، اس لیے میں گھر اور خاندان سے بچھڑ گیا تھا، کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہوا میں اڑتا رہا۔ ایک عرصے تک میں یہ سمجھتا رہا کہ ابا مجھ سے محبت نہیں کرتے، لیکن بعد میں اندازہ ہوا کہ اُن کی سختی میرے فائدے کےلیے تھی۔ اس زمین پر باپ سے زیادہ محبت کرنے والا کون ہوسکتا ہے۔ یہ احساس آج تک دامن گیرہے کہ ابا مجھ سے خوش نہیں تھے۔ والد انتہائی متقی اور پرہیزگار تھے۔ وہ چائے، پان، سگریٹ سے تمام زندگی دُور رہے۔ اب یہ سب کچھ مجھے کرنا پڑ رہا ہے۔ والدہ بہت جلدی انتقال کرگئی تھیں۔ دوسری والدہ، گجرات میں تھیں، وہ بھی مجھ سے محبت کرتی تھیں، لیکن میں گھر سے باہر ہؤ چکا تھا۔
س:دولت، شہرت اور محبت میں سے کس کو ترجیح دیں گے؟
ج:محبت، دائمی حقیقت ہے، دولت اور شہرت ہمیشہ نہیں رہتی، شاعروں کی شہرت، سیاست دانوں اور کرکٹرز کے برابر نہیں ہوتی۔ شہرت، دل خوش کرنے کےلیے ہوتی ہے اور محبت سے سکون ملتا ہے۔
س:کوئی ایسا دوست ملا، جس سے دوستی پر فخر ہو؟
ج:دوستوں کی ایک طویل فہرست ہے، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، شاہدہ حسن، فاطمہ حسن، پروفیسرہارون رشید، نوشابہ صدیقی،محبوب ظفر، ان سب کی دوستی پر مجھے فخر ہے، خواتین میں انسانی صفات مردوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔
س:کوئی ایسی یاد، جو کبھی آپ کے دل سے جدا نہیں ہوتی؟
ج:والدہ کی یاد، جن کا میرے بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تھا، اُن کےلیے میں نے دو شعر کہے تھے۔
بازاروں میں پھرتے پھرتے دن بھر بیت گیا
کاش ہمارا بھی گھر ہوتا، گھرجاتے ہم بھی
صرف تمہیں روتے ہی نہ رہتے، اے مرنے والو!
مرکے اگر پاسکتے تم کو، مرجاتے ہم بھی
س:بچپن اور لڑکپن میں کیا مشاغل تھے؟
ج:تیراکی بھی کی، گِلی ڈنڈا بھی کھیلا، لیکن کرکٹ سے زیادہ دلچسپی رہی، جو دیکھنے کی حد تک آج بھی ہے۔ مطالعے کی عادت بچپن میں ہی پڑگئی تھی، جس میں اب بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ مطالعے کے شوق نے ہی رئیس امروہوی سے قربت بڑھائی۔ اُن کا گھر گہوارہ علم و ادب تھا، اُن کی بیٹھک میں اُس دور کے تمام بڑے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو دیکھا جاسکتا تھا۔ حبیب جالب بہترین شاعر اور بہترین انسان تھے، اُن کے ساتھ بھی اچھا وقت گزارا۔
س:زندگی کا کون سا دور زیادہ اچھا لگا؟
ج:شادی سے پہلے کا دور۔ آزادی تھی، کوئی فکر نہ تھی۔
س:آپ نے کبھی پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بھی سوچا؟
ج:ہم چاہتے ہیں، وہ نہ ہو، جس کا خدشہ ہے، وہ ملک جو 1947 میں بنا تھا، وہ ٹوٹ چکا ہے، باقی جو رہ گیا ہے، اس کی فکر کرنی چاہیے۔ غیر ذمے دارانہ سیاست نے صورتِ حال بہت خراب کردی ہے۔ سیاست دانوں کو راہ راست پر آنا ہوگا۔ قائداعظم کے بعد سیاست کا رخ تبدیل ہو گیا، غیر تجربہ کار لوگ سامنے آتے رہے۔ بہرحال ملک میں جمہوریت رہنی چاہیے۔ جمہوریت کے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔
س:اردو زبان کے مستقبل کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
ج:اردو کو اس کا حق پاکستان میں ملا اور نہ ہندوستان میں اور نہ ہی بنگلہ دیش میں، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اپنی قوم کو تعلیم یافتہ نہ کر پائے۔ تعلیم ہمیشہ اپنی زبان میں دی جانی چاہیے۔ اگر ہم نے اردو کو ذریعۂ تعلیم بنایا ہوتا تو صورتِ حال بہت مختلف ہوتی۔ اردو، تمام تر محرومیوں کے باوجود ایک مضبوط زبان ہے۔ اردو کے مستقبل کو کوئی خطرہ نہیں، اس لیے کہ اس کے بولنے، لکھنے اور سمجھنے والے موجود ہیں۔ اردو کو نقصان، غلط زبان کے استعمال سے ہو رہا ہے۔ٹی وی چینلز پر جو زبان بولی جارہی ہے، وہ انتہائی ناقص ہے، اخبارات میں بھی پروف کی بے تحاشہ غلطیاں ہوتی ہیں۔ اردو کے نفاذ سے دوسری زبانوں کو کوئی خطرہ نہیں، سرکار، اس کا نفاذ نہیں چاہتی، یہ اور بات ہے۔
س:اپنی زندگی کا کوئی یادگار واقعہ؟
ج:کسی صوفی سے پوچھا گیا کہ اپنے بزرگ کی کرامات بتایئے؟ اُنہوں نے کہاکہ کیا تم نے میری زندگی میں کوئی خلافِ شرع بات دیکھی۔ مرید نے کہا، نہیں، صوفی نے کہا کہ یہی کرامت ہے۔ میری زندگی کا یادگار واقعہ یہی ہے کہ کوئی یادگار واقعہ نہیں۔
صحرا نشیں کی ہم سری و ہم نفسی
انور شعور۔اپریل 1943ء فرخ آباد کے یوسف زئی خاندان میں پیدائش‘ گیارہ سال کی عمر میں شاعری کاآغاز‘ لڑکپن میں آوارگی کے بہتان میں خانہ بدر۔ خواب و خیال کا ایک ہی وظیفہ، شعر و ادب کا وسیع مطالعہ، کئی محبتیں، رفاقتیں اور کسی تیشہ بدوش، صحرا نشیں کی ہم سری و ہم نفسی کے لیے ہما دم بے قرار، بابائے اردو کے قائم کردہ ادارے ’’انجمن ترقی اردو پاکستان‘‘ میں پہلی ملازمت ہفت روزہ ’’اخبارِ جہاں‘‘ سے ابتدائی برسوں میں وابستگی‘ 70ء میں ’’سب رنگ‘‘ کے اجراء سے ادارتی عملے کے سرخیل‘ قطعہ نگار کی حیثیت سے تاحال روزنامہ ’’جنگ‘‘ وسیلۂ معاش۔
70ء میں خانہ آبادی‘ تین بیٹیاں‘ ایک بیٹا‘ کہانیوں سمیت مختلف موضوعات پر ان گنت رواں دواں، سادہ و شگفتہ نثری تخلیقات، بنیادی طور پر غزل کار، اپنی طرز‘ رنگ اور روایت میں گندھی ہوئی جدید شاعری کے تمام القاب و خطابات کے سزاوار، ہم عصر اور نئی نسل کے اکثر شاعروں پر گہرے نقوش کا اعزاز۔ امریکا، کینیڈا، عرب دنیا کے کئی ممالک اور ہندوستان کی مشاعرانہ سیاحت۔62 سال سے حسرت زدگی کے آشوب اور امتحان میں ثابت قدم، پہلی اور آخری ترجیح شاعری، بطور خاص لیلائے غزل، اول و آخر، پہلی اور آخر، سربہ سر‘ سرتا پا شاعر‘ انور شعور‘ ایک خمیدہ سر‘ نکہت آفریں، خیال انگیز شاعر، انور شعور۔
(شکیل عادل زادہ کی ایک تحریر سے اقتباس)
یادوں کے باغ سے وہ ہراپن نہیں گیا
ساون کے دن چلے گئے، ساون نہیں گیا
ٹھہرا تھا اتفاق سے وہ دل میں ایک بار
پھر چھوڑ کر کبھی یہ نشیمن نہیں گیا
ہر گُل سے دیکھتا، رخِ لیلیٰ وہ آنکھ سے
افسوس! قیسں، دشت سے گلشن نہیں گیا
رکھا نہیں مصورِ فطرت نے مُو قلم
شہ پارہ بن رہا ہے، ابھی بن نہیں گیا
میں نے خوشی سے کی ہے یہ تنہائی اختیار
مجھ پر لگا کے وہ کوئی قدغن، نہیں گیا
تھا وعدہ شام کا، مگر آئے وہ رات کو
میں بھی کواڑ کھولنے، فوراً نہیں گیا
دشمن کو میں نے پیار سے راضی کیا، شعور
اُس کے مقابلے کے لیے، تن نہیں گیا