مہوش علی
اُردو، پنجابی اور سرائیکی شاعری کی طرح سندھی شاعری بھی ادب کی دنیا میں ایک الگ شناخت اور مقام رکھتی ہے۔ شاہ لطیف، سچل، سامی، بیدل بیکس اور کشنچند بیوس تک ان تمام شعراء کی ایک لمبی فہرست ہے، جنہوں نے اپنے کلام سے سندھی شاعری کو تازگی بخشی ۔جدید سندھی شاعری میں ایک نام ایسا بھی ہے، جس کے بنا سندھی شاعری کا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ سندھی شاعری کا کلام ادھوراسا لگتا ہے۔ اسی شاعر نے اپنے کلام سے ایسا جادو جگایا، کہ آج بھی قارئین ان کے کلام کے سحر میں جکڑے ہوئے ہیں۔
وہ شاعر ہیں’’ شیخ ایاز۔‘‘ ان کے بنا سندھی شاعری ایسے ہے جیسے میر تقی میر اور غالب کے بنا اردو شاعری۔شیخ ایاز کو اپنی شاعری پر ملکہ حاصل تھا، انہوں نے سندھی شاعری میں، جو تجربات کیے وہ بے حد کام یاب رہے۔ اس کی اہم ترین وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے خود کو ہمیشہ شاعر کے روپ میں ہی دیکھنا چاہا تھا۔ انہوں نے بچپن ہی سے اشعار کہنے شروع کر دئیے تھے۔شیخ ایاز نے شاعری کی ابتدا اردوزبان میں شعر کہنے سے کی۔ ان کے اردو کلام میں ’’حلقہ میری زنجیر کا‘‘، ’’نیل کنٹھ اور نیم کے پتے‘‘اور ’’بوئے گل نالہء دل‘‘کتابیں شامل ہیں،چوں کہ سندھی ان کی مادری زبان تھی لہٰذا ان کے لیے سندھی میں شعر کہنا قدرے آسان تھا، مگر جب وہ اردو میں شعر کہتے یا پڑھتے تھے تو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا تھا کہ وہ سندھی زبان کے مایا ناز شاعر ہیں۔اُردوزبان میں لکھی گئی ان کی نظم ’’میرے دیدہ ورو میرے دانشور‘‘پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اُردو میں کس انداز سے شاعری کی ہے۔سندھی میں نظم کی روایت کو اپنانے والے شاعر کشن چند بیوس نے جب مغربی صنف کو سندھی زبان کے سانچے میں ڈھالا ،تو وہ سندھی ادب اور ادبی روایت کا حصہ بن گئی، اسی تسلسل کو شیخ ایاز نے قائم رکھا۔
اس سے قبل جو سندھی شاعری تخلیق ہو رہی تھی، وہ فارسی کے زیر اثر تھی، مگر ایاز نے ماضی کی تمام شاعری پر ضرب لگا کر اسے سندھی روپ دیا، اور یہ ثابت کر دیا کہ سندھی زبان میں شاعری کی جائے ،تو وہ کسی بھی لحاظ سے عالمی معیار سے کم نہیں ہے۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ سندھ کے لوگوں کی زبانوں پر ان کے لکھے ہوئے گیت عام ہوگئے۔ 60 اور 70 کی دَہائیاں ایسی تھیں کہ سندھی شاعری میں مزاحمتی و ترقی پسندی کا عنصر شامل ہو گیا۔ یہ مزاحمت اتنی شدید تھی کہ اس کی وجہ سے سندھی شاعری میں مزاحمتی شاعری کا ایک الگ حصہ بن گیاہے۔ اسی زمانے میں افسانہ بھی مزاحمتی طرز پر لکھا جانے لگا۔ اس حوالے سے شیخ ایاز نے خود کہا کہ سندھ میں ،جو ترقی پسند ادب اس وقت لکھا جا رہا ہے وہ برصغیر کے تمام ادب سے زیادہ جاندار ہے،جب کسی شاعر کا کلام عام لوگوں کی زبان بن جائے ،تو اس کی سوچ بندوق کی گولی سے بھی زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے۔ شیخ ایاز اپنے گیتوں اور نظموں سے ذہنوں کی آب یاری کر رہے تھے ،جب انہیں قید کیا گیا، تو شیخ صاحب نے ان ایام میں ’’ساہیوال جیل کی ڈائری‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی، جس میں ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے۔
’’روز جمعدار مجھے ایک بلیڈ داڑھی بنانے کے لیے صبح کو دے جاتا ہے اور پھر بار بار پوچھنے آتا ہے کہ میں نے داڑھی بنائی ہے یا نہیں۔ آخرکار اس سے تنگ آکر داڑھی بنا لیتا ہوں اور بلیڈ اسے واپس کر دیتا ہوں۔ شاید اسے یہ خوف ہے کہ میں بلیڈ سے اپنا گلا نہ کاٹ لوں۔ اسے کیا پتہ کہ اس گلے میں ابھی ہزاروں گیت ہیں، جو کہ کسی زندان کی دیوار کو لرزا کر ڈھیر کرسکتے ہیں۔ میں اسے کاٹنے کو تیار نہیں ہوں۔‘‘
جب کراچی سے کشمور تک لوگ گہری نیند میں سوئے ہوئے ہوتے تھے، وہ اس وقت ساری رات سندھ کے لوگوں کو جگانے کے لیے اپنے قلم کی دوات ختم کرتے رہتے تھے۔ کئی گیت، نظمیں اور غزل ہرن کی مانند چھلانگ مار کر ان کے ذہن کی زمین پر دوڑے چلے آتے تھے۔ ان کے لیے شاعری محض شاعری نہیں تھی بلکہ تمام عالم کے مظلوم طبقات کی آواز تھی۔ جس میں ان کے اپنے رت جگے بھی شامل تھے۔
سندھ کے کئی سیاسی کارکنان اور سیاسی قائدین ان کے اشعار قید خانوں میں پڑھا کرتے تھے۔ کون سا ایسا جلسہ یا پروگرام ہوگا، جس میں ان کے لکھے ہوئے گیت نہ پڑھے جاتے ہوں۔
ان کی شاعری کے جتنے بھی مجموعے شائع ہوئے ان پر نظرثانی کے فرائض سندھ کے نامور دانشور اور ماہر تعلیم محمد ابراہیم جویو کے سپرد ہوا کرتی تھی۔ انہیں اپنی مادری زبان میں شاہکار اشعار لکھنے کے لیے بھی ابراہیم جویو نے ہی آمادہ کیا تھا۔ سندھ کے نام ور قانون و سیاست دان و دانش ور رسول بخش پلیجو نے ان کے لیے ایک کتاب ’’اندھا اوندھا ویج‘‘کے نام سے لکھی۔اسی کتاب میں رسول بخش پلیجو نے لکھا کہ’’ایاز کی شاعری کسی فرد کی خالص ذاتی کرامت نہیں، یہ سندھ بلکہ دنیا کے اندر شعر کی صدیوں کی ارتقا کی خاص منزل کا ایک خوبصورت اور شاندار نشان ہے۔ مشرق و مغرب کے قدیم اور جدید شعری ورثے شیکسپیئر، بائرن، شیلے، کیٹس، بودلیئر، میران، خیام، رومی، حافظ لطیف، سامی، سچل، بیوس کی شاعری کے پس منظر کی غیر موجودگی میں ایاز کی شاعری کا وجود میں آنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اسی طرح اگر انہیں شاہ عنایت، لطیف، سچل، سامی اور بیدل کی سنواری اور سجائی ہوئی سندھی زبان اور انداز بیاں ورثے میں ملتے تو اس میں وہ دلربائی، وہ گہری کشش اور نفاست ہرگز نہ ملتی۔ ایسے ہی مشرق اور خاص طور پر سندھ میں مخصوص سماجی اور تاریخی حالت اور موجودہ سماجی، فکری ماحول کے سوائے بھی یہ شاعری نہ ہوتی جو ہے،مگر ان تمام عناصر کے باوجود بلکہ کسی حد تک ان تمام باتوں کی وجہ سے ایاز کی شاعری سندھ میں موجودہ دور، اس صدی کی عظیم ترین واحد ادبی حقیقت ہے۔‘‘
شیخ ایاز کے دیگر تخلیقی کمالات میں سے ایک کمال سندھی شاعری کے عظیم کلاسیکی شاعر شاھ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کو اُردو میں ترجمہ کرنا تھا۔ کسی بھی شاعر کے کلام کو منظوم ترجمہ کرنا انتہائی مشکل کام ہے، یہ شیخ ایاز کی شاعرانہ بصیرت تھی کہ انہوں نے اس کام کو انتہائی مہارت کے ساتھ بہ خوبی نبھایا۔ ان کا ارادہ شاہ لطیف کی حیات و افکار پر ناول لکھنے کا بھی تھا، مگر یہ کام ان کی زندگی میں پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔
انہوں شاعری کرنے کے ساتھ سندھی زبان میں ، جو انتہائی تخلیقی کام کیا اس میں سے ایک منظوم سندھی ڈراموں کی تخلیق بھی ہے،جن میں ’’رنی کوٹ جا دھاڑیل‘‘، ’’بھگت سنگھ کھے پھاسی‘‘، اور ’’کے جو بیجل بولیو‘‘جیسے منظوم ڈرامے شامل ہیں۔یہ صرف منظوم ڈرامے ہی نہیں بلکہ ایک ایسی تاریخ ہے ،جسے شیخ ایاز نے جلا بخشی ہے۔ ان کے کلام کا اردو اور پنجابی میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے،مگر آج بھی اس بات پر افسوس کیا جاتا ہے کہ ان کی شاعری کو دنیا کی دیگر زبانوں میںترجمہ نہیں کیا جا سکا۔شیخ ایاز کی قبر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار کے احاطے میں واقع ہے۔ — انہوں نے ہی کہیں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میں نے زبان میں مصوری کی ہے۔
میری شاعری میں جتنی بھی تصاویر ہیں، اتنی کسی مصور کی مصوری میں بھی نہیں ہوتی ہیں۔ میں تو سفر میں شاعروں کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہوں۔ کون سے شاعر ہوں؟ ایک برونو، جو کہ اطالوی شاعر تھا ، جسے زندہ جلایا گیا تھا۔ اس کی آگ کے شعلوں نے مجھے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ دوسرے سندھ کے عظیم صوفی شاعرشاہ بھٹائی،وہ لاڑ اور تھر کے سفر میں، میرےساتھ ساتھ تھے۔ میں نہ صرف انہیں دیکھتا رہا تھا بلکہ گفتگو بھی کر رہا تھا۔
سندھی کے رومانوی اور مزاحمتی شاعر ہم سے 28 دسمبر 1997 کو ہم سےبچھڑ گئے، مگر ان کا کلام ہمیشہ یاد دلاتا رہتا ہے کہ پھر کسی ایاز کو جنم لینے کے لیے صدیاں درکار ہیں۔
اس دریا میں جو دہشت ہے
اِک دن محشر بن جائے گی
تو اور میں تو بس سندھو میں
اِک لہر ابھارے جائیں گے
مرنا ہے ہر اِک انسان کو
پر یوں نہ مریں گے ہم
ساتھی کوئی آگ لگا، شعلے بھڑکا
اِک نئے کنارے جائیں گے