کراچی میں زیرتعمیر نئے ایٹمی پاور پلانٹ کچھ عرصے سے توجہ کا مرکزہیں۔ چند شہریوں کا خیال ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے متعلق احتیاطی تدابیرمیں لاپروائی برتی گئی ہے اور نہ صرف مستندبین الاقوامی طریق کارکو نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ خود اپنے ملک کے قاعدے قانون کے خلاف بھی کام کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں کراچی کے شہریوں کو اندوہناک خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے بلکہ کراچی کو ملک میں صنعتی اور تجارتی طور پروہ کلیدی حیثیت حاصل ہے کہ فوکوشیما یا چرنوبل جیسا حادثہ پورے ملک کی معیشت کو مکمل مفلوج کرسکتا ہے۔ ان شہریوں نے اس بنیاد پرپاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور صوبہ سندھ کے ماحولیاتی ادارے سیپا (SEPA) کے اقدامات کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، جہاں یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ دونوں ادارے ملکی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ چنانچہ عدالت عالیہ نے ان کے گزشتہ اقدامات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کمیشن کو پابند کیا کہ وہ ماحول پر اس پلانٹ کے اثرات کا اندازہ (Environmental Impact Assessment)صحیح طرح تیار کرکے نئے سرے سے سیپا کو پیش کرے، اور سیپا کوتاکیدکی کہ اب وہ دوبارہ کوتاہی کا ارتکاب نہ کرے اور EIAعوام کیلئے مشتہر کرے اورقانون کے مطابق شہریوں سے اس پر رائے لے۔ پہلی مرتبہ میں یہ سب کچھ نہیں کیا گیا تھا۔ سیپا نے شہریوں سے چھپا کر بالا بالا پہلی EIAکی منظوری کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا تھا۔
عدالتی حکم پر عمل کرتے ہوئے کمیشن اور سیپا کو یہ تمام کام دوبارہ کرنے پڑے۔ کمیشن نے اس مرتبہ EIAپر سنجیدگی سے توجہ دی اور لاکھوں روپے خرچ کر کے غیر ملکی ماہرین سے ساڑھے چار سو صفحے کی یہ رپورٹ لکھوائی۔سیپا نے گزشتہ رویے کے برعکس EIAکو شہریوں کے مطالعے اور تبصرے کیلئے کھلم کھلا پیش کیا اور اس پر ایک اعلانیہ کھلی سماعت بھی کی، حالانکہ اس میں بھی انہوں نے قوانین سے پہلو تہی کا ارتکاب کیا۔یہ سب کچھ نہ ہو پاتا اگر کراچی کے چندباخبر شہری اس بارے میں چوکس نہ رہتے اور سرکاری اداروں کی لاپروائی اور غفلت کو چیلنج نہ کرتے۔ تاہم ان کی اس کوشش کے باوجودان سرکاری اداروں نے آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مثال کے طور پرEIAکی کھلی سماعت ایک ڈھونگ سے زیادہ نہیں تھی۔ خلاف معمول کھلی سماعت کسی ایسی جگہ پر نہیں کی گئی جہاں عام شہری بہ آسانی پہنچ سکے۔ اس کے لئے پلانٹ کے مجوزہ مقام کو چنا گیا جو شہر سے اتنی دور واقع ہے اور اتنا محصورہے کہ جہاں عام شہری کا گزر ہی ناممکن ہے۔ کھلی سماعت میں صرف وہی شہری جا سکتے تھے جنہیں اٹامک انرجی کمیشن والے لیجاتے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد معترضین کی تعداد کم کرنا تھا۔ اس کے علاوہ کئی شہریوں نے EIAپر اعتراضات تحریری طور پر جمع کرائے تھے، اور قانون کے تحت سیپا پابند تھا کہ انہیں تحریراً مطلع کرے کہ اعتراضات قابل اعتنا تھے یا نہیں، اگرنہیں تو کیوں نہیں۔ ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ EIAمنظور کرتے ہوئے اٹامک انرجی کمیشن کے ایسے غلط مفروضے قبول کر لئے گئے جو پاکستانی قوانین اور بین الاقوامی اصولوں کے بین خلاف ہیں۔ مثال کے طور پرکراچی کے پلانٹ اس بین الاقوامی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں کہ نئے ایٹمی بجلی گھر آبادیوں سے 30کلومیٹر سے کم فاصلے پر تعمیر نہیں کئے جائیں گے۔ کراچی کے پلانٹ گنجان ترین بستیوں سے صرف 15کلومیٹر دور بنائے جا رہے ہیں۔ EIAمیں غلط بیانی کا یہ حال ہے کہ کراچی کی کل آبادی کا تخمینہ صرف 80لاکھ لگایا گیا ہے، جب کہ یہ کم از کم ایک کروڑ 80 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے باوجود سیپا نے یہ EIA منظور کرلی۔ چنانچہ ماحول کا محافظ سیپا ایک ایساا دارہ ثابت ہوا ہے جس کے ہاتھوں ماحول مصلحتوں کا شکار ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے پیر مورخہ 25جنوری کوروزنامہ جنگ میں اپنے ہفتہ وار کالم میں کراچی کے ان ایٹمی بجلی گھروں پر تبصرہ کیا ہے اور ان کے بارے میں احتیاط کیلئے آواز اٹھانے والوں پرتنقید کرتے ہوئے انہیں لاعلم اور ان کے اعتراضات کو تنقید برائے تنقید کہا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے نہ ہی اس پروجیکٹ کی Site Evaluation Reportپڑھی ہے، نہ EIAاور نہ ہی Preliminary Reactor Safety Reportان کی نظر سے گزری ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے EIAپر ان تحریری اعتراضات کا مطالعہ بھی نہیں کیا ہوگاجو سیپا کو جمع کروائے گئے تھے، مثال کے طور پر ڈاکٹر صاحب کے کالم کا ایک جملہ ملاحظہ کیجئے : ’’اگر دنیا میں کہیں کوئی (ایٹمی بجلی گھرکا) حادثہ ہوا ہے تو وہ قدرتی آفات کی وجہ سے ہوا ہے۔ مثلاً جاپان میں جو حادثہ ہوا تھا وہ سونامی کی وجہ سے اور روس اور امریکہ میں جو حادثے ہوئے تھے وہ پلانٹس کی نہیں انسانوں کی غلطی تھی‘‘۔ شاید یہ جملہ لکھنے کے بعد انہیں نظرثانی کا وقت نہیں ملا۔ اسی طرح ایک طرف تو اس کہاوت پر یقین رکھتے ہیں کہ ’’اگر کوئی حادثہ ہو سکتا ہے تو وہ کسی نہ کسی دن ہو کر رہے گا‘‘ اور دوسری طرف یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ’’میں اپنے اس علم اور تجربے کی بنیاد پر آپ سے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ کراچی میں جو دو ایٹمی پاور پلانٹس (K-2, K3)لگائے جا رہے ہیں وہ بالکل محفوظ ہیں‘‘۔ کسی سائنسدان کی جانب سے ایسا کہنا مناسب نہیں۔فرماتے ہیں کہ تمام ایٹمی پلانٹس حد درجے احتیاط کو مدنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں اس لئے ان پر اعتماد کرنا چاہئے۔ اتنی بات تو درست ہے کہ پلانٹ بنانے والے اپنی دانست میں حد درجہ احتیاط کو مدنظر رکھتے ہیں، لیکن یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اس کے باوجود ایٹمی پلانٹس حادثات کا شکار ہو چکے ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ فوکوشیما کی مثال لیجئے۔ اس کا حادثہ صرف زلزلے اورسونامی کی قدرتی آفت کی وجہ سے نہیں رونما ہوا تھا ، بلکہ اس وجہ سے کہ ڈیزائن کرنے والوں نے سونامی روکنے کے لئے سمندر میں جودیوارکھڑی کی تھی وہ ممکنہ زلزلے کا غلط اندازہ لگا نے کی وجہ سے کم اونچی ر کھی تھی۔ساتھ ہی ایمرجنسی پاورپلانٹ تہہ خانے میں بنایا جس میں سونامی کاپانی بھر گیا اور وہ ناکارہ ہو گیا، یوں سارا کنٹرول سسٹم ہاتھ سے جاتا رہا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈیزائن کرنے والے قطعاً غلطیوں سے مبرا نہیں اور ہر صنعت کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت رہتی ہے۔ یاد رہے کہ حادثے سے صرف ایک سال پہلے فوکوشیما کے پاور پلانٹس کو بین الاقوامی ایٹمی اداروں نے مکمل محفوظ ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا تھا۔ یہ بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے حادثے عام حادثوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ایک ایٹمی حادثے کے نتائج کو بھگتنے میں ایک سو ایٹمی پاور پلانٹس لگانے کے برابر خرچ ہو سکتا ہے۔ فوکوشیما کے حادثے کے نتائج سے نمٹنے میں جاپان کی حکومت اب تک ایک سو دس ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کر چکی ہے۔
یہ اصرار کہ حادثے کے نتیجے میں ایٹمی پلانٹ سے خارج ہونے والی تابکاری چار پانچ کلومیٹر سے زیادہ نہیں پھیلتی بڑا گمراہ کن ہے۔ چرنوبل سے نکلنے والی تابکاری سینکڑوں کلومیٹر دور تک تمام یورپ میں پھیل گئی تھی۔ فوکوشیما میں 30کلومیٹر تک کا تمام علاقہ خالی کرالیا گیا تھا جس میں سے بیشتر میں اب بھی داخلہ ممنوع ہے۔اور یہ سب جانتے ہیں، بلکہ خود کراچی کے پلانٹس کی EIAمیں درج ہے کہ تقریباً ہر وقت سمندری ہواؤں کا رخ پلانٹس کی جانب سے کراچی شہر کی سمت رہتا ہے۔چنانچہ اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوا تو کراچی کی آبادی کا خدا ہی حافظ ہو گا۔
اگر فوکوشیما کے حادثے کے بعد وہاں انسانی اموات نہیں ہوئیں تو اس وجہ سے کہ جاپانی حکام نے نہایت عجلت سے پہلے 20کلومیٹر کی حد کے اندر اور بعد میں 30کلومیٹر کے اندر موجود ساری آبادی کو نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچادیا۔ کراچی میں بھی اصولاً یہی ہونا چاہئے کہ حادثے کی صورت میں 30کلومیٹر تک کی تمام آبادی کا انخلاء کیا جائے۔ کیا یہ ممکن ہوگا؟ کیا اس کا انتظام پہلے سے کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا کراچی کی شہری انتظامیہ نے اس کی تیار کر لی ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جو اْٹھائے گئے ہیں اور جن کے جواب ابھی تک نہیں ملے۔ شاید کسی کے پاس ہیں بھی نہیں۔ اٹامک انرجی کمیشن نے اس کے جواب میں کبوتر کی روش اختیار کرتے ہوئے پروں میں سر چھپا لیا ہے کہ ایسا تو ہوگا ہی نہیں اس لئے سوچنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اس رویے کو غیر ذمہ دارانہ نہ کہیں تو کیا کہیں؟