• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سحری میں دہی کے فوائد

رمضان البارک کے سعد ماہ میں نہ صرف ہمارے غذائی معمولات تبدیل ہوجاتے ہیں بلکہ پورادن جسم کو گرمی ، پیاس اوربھوک سے محفوظ رکھنے میں سحری کے وقت دہی کا استعمال جادوئی تاثیر کا حامل ہے جومعدے کی گرمی کو دور کرتا اور منہ میں نکلنے والے چھالوں ، آنتوں کے ورم ،پیچش ،جسمانی کمزوری اور خون کی کمی دور کرنے اور جن لوگوں کو دودھ ہضم نہیں ہوتا یا جنہیں دودھ پسند نہیں ان کے لیے دہی بے حد مفید ہے ۔

کیلشیم ، پروٹین اور پروبائیوٹک اجزا سے بھرپور

دہی دودھ سے بنے والی ایک بہترین غذا ہے جس میں کیلشیم ، پروٹین اور پروبائیوٹک کثیر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ اسے ڈیری پراڈکٹس کا سپر ہیرو بھی کہا جاسکتا ہے ۔ کھانے میں اس کا استعمال عام ہے ۔ دہی سے جسم کو بے شمار فوائد حاصل ہو تے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ ایک مکمل غذا ہے ۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دودھ سے بھی زیادہ فائدہ مند ہے ۔

دہی صدیوں سے انسانی غذا کا حصہ رہا ہے۔ یہ انسان کی قوت مدافعت کو بڑھا دیتا ہے جو اسے تمام تر اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ رکھتی ہے ۔ انسان کی قوت مدافعت جتنی زیادہو گی وہ اتنا ہی بیماریوں سے محفوظ رہے گا۔دہی سے معدے کی کئی تکالیف سے نجات ملتی ہے ۔ یہ جسم میں پی ایچ بیلنس برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے ۔ دہی معدے میں تیزابیت ہونے سے بچاتا ہے۔ اس میں موجود ضروری غذائی اجزا آسانی سے انہضامی نالی میں جذب ہو جاتے ہیں ۔ یہ دیگر غذاؤں کی بھی ہضم ہونے میں معاونت کرتا ہے ۔

دہی میں موجود کیلشیم جسم میں کارٹیسول بننے سے روکتا ہے۔ کارٹیسول کی وجہ سے ہائپر ٹینشن اور موٹاپے جیسے مسائل پیش آتے ہیں ۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر روزانہ 18 اونس دہی کھایا جائے تو یہ پیٹ کی چربی پگھلانے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے ۔ یہ فیٹس کے خلیات میں سے کارٹیسول کے اخراج کو روکتا ہے اور بڑھتے وزن کو کنٹرول کرتا ہے ۔دہی میں موجود کیلشیم اور فاسفورس ہڈیوں اور دانتوں کو مظبوط بناتے ہیں ۔ دہی کا مستقل استعمال آسٹوپروسس کے خطرات سے محفوظ رکھتا ہے ۔

ہر پکوان کی رونق

پاکستان کے ہر حصے میں دہی روز مرہ کے کھانوں میں استعمال ہوتا ہے۔سندھ پنجاب کی دہی سے بنی لسی ہو یا کشمیر کی یخنی، کراچی میں لکھنؤ کا قورمہ اور دہی سے بنے ان گنت رائتے اور دہی بڑے دسترخوان کی زینت ہیں۔ روز مرہ کے کھانوں میں دہی کی ایک کٹوری کے بغیر کھانا مکمل نہیں سمجھا جاتا۔

عصر حاضر میں دہی کا استعمال بہت عام ہے اور دکانیں ہر طرح کے دہی کے ڈبوں سے بھری رہتی ہیں کیونکہ گھر میں دہی جمانے کا چلن کم ہوتا جا رہا ہے یا صرف گاؤں دیہات تک محدود ہے۔ گو دہی کا استعمال عام تھا لیکن اسے پھینٹ کر چھاچھ بنائی جاتی تھی۔ دہی میں شہد یا شکر، کالی مرچ اور دارچینی ملا کر شربت تیار کیا جاتا تھا جو ہزار گنوں سے پر تھا۔

ہاضمہ آور ہونے کے ساتھ ساتھ جسم کی حرارت کو بھی برقرار رکھتا تھا۔ انگریزی دواؤں کے مروج ہونے سے پہلے کلکتے اور بنگال کے ڈاکٹر ٹائیفائڈ کا علاج مشٹی دہی سے کیا کرتے تھے کیونکہ یہ وٹامن سے سرشار ہوتی ہے۔ آئین اکبری میں ابوالفضل نے کئی ایک پکوانوں کا ذکر کیا ہے جس کا لازمی جزو دہی ہے۔ ترش دہی گوشت کے ریشوں کو توڑ کر ملائم بناتا ہے اس لیے دہی کو کچے پپیتے اور لیموں کے رس پر فوقیت حاصل ہے۔

مغلوں نے فن طباخی کو نئی شکل دی اور یہاں کے سادہ کھانوں کو مرغن بنایا۔ وہ اپنے ساتھ نہ صرف خشک میوے اور زعفران لے آئے بلکہ دہی کے استعمال کو بھی ایک نیا انداز دیا۔ مغل بادشاہ کے ہنرمند باورچیوں نے دہی سے اس قدر عمدہ رائتے بنائے جس کا مفصل ذکر جہانگیر کے عہد میں لکھے ایک نسخے 'ایوان نعمت میں ملتا ہے۔دہی بانس کی ٹوکری میں جمائی جاتی تھی۔ بانس کی ٹوکری کی تہہ میں انگشت بھر چوڑی یعنی چار روز پرانی دہی لیپ دی جاتی تھی پھر شکر ملا دودھ دہی کا چمن ملا کر اس پر ڈالا جاتا تھا پھر ملائی کی ایک موٹی تہہ۔ 

ٹوکری کو گرم جگہ پر رکھ کر نیچے ایک برتن رکھ دیا جاتا تھا کہ پانی اس میں گرتا رہے اور دہی جم جانے پر استعمال ہو۔عصر حاضر میں بازاروں میںپھلوں کے رس سے بنائی دہی کے ڈبے ملتے ہیں لیکن مغل عہد میں ان کا چلن عام تھا۔ ایک پیالے میں چار یا پانچ رنگ اور مختلف ذائقوں کے دہی جمائے جاتے تھے جن میں زعفران دہی اور مختلف پھلوں کے رس کے دہی بادشاہ کے خاصے میں شامل ہوتے تھے۔

ہزار بیماریوں کا علاج

دہی ہزار بیماریوں کا علاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمانۂ قدیم سے لے کر آج تک دہی ہمارے ساتھ ہے۔ نہ صرف پیر بلکہ جواں سال بھی اسے بڑے چاؤ سے کھاتے ہیں۔ اس میں کیلشیم، فولاد، زنک، پوٹاشیم، فاسفورس، میگنیشیم پایا جاتا ہے جو انسانی جسم کی صحت کے لیے ضروری عناصر ہیں۔

دہی کو جلد اور بالوں پر لگایا بھی جاتا ہے ۔ جلد اور بالوں کو خوبصورت بنانے والے کئی گھریلو ٹوٹکوں میں دہی کا استعمال کیا جاتا ہے ۔اگر صرف دہی سے ہی چہرے کا مساج کیا جائے تو یہ وائٹننگ بلیچ کا کام کرتا ہے، اس سے جلد نرم و ملائم ہو جاتی ہے ۔یہ بالوں کی صحت اور مضبوطی کے لئے تو مفید ہے ہی، اس سے بالوں کی خشکی بھی دور ہوجاتی ہے ۔ دہی میں موجود لیکٹک ایسڈ خشکی پیدا کرنے والے فنگس کو ختم کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ اسے کنڈشنر کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔

ہڈیوں کی مضبوطی کا ضامن

آئر لینڈ کے ماہرین نے کہا کہ دہی کا استعمال بڑھوتری تک ہڈیوں کی مضبوطی کا ضامن ہے۔آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں واقع ٹرینیٹی کالج کے شعبہ طب کے ماہرین کی تحقیق کے مطابق دہی میں انسانی جسم دوست بیکٹریا اور اہم غذائی اجزاءپائے جاتے ہیں اور اس کے استعمال سے بڑھوتری تک ہڈیاں مضبوط رہتی ہیں جس سے انسان صحت مند اور تندرست و توانا رہ سکتا ہے۔

تازہ ترین