• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

تبدیلی سے انقلابی تبدیلی تک: پی ٹی آئی کے بدلتے نعرے

تبدیلی سے انقلابی تبدیلی تک: پی ٹی آئی کے بدلتے نعرے

وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل میں چند روز ہی باقی ہیں جس کے بعد نگران حکومتیں قائم ہونگی اور سیاسی جماعتیں باقاعدہ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اپنے امیدواروں کا اعلان کردیں گی‘ سیاسی جماعتیں اپنے منشور اور انتخابی نعروں و دعوئوں کو بھی آخری شکل دے رہی ہیں‘ ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی سیاسی شمولیت کا سلسلہ جاری ہے‘ تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کے دوران عوام کو سبز باغ دکھائیں گی لیکن پھر حکومت سنبھالنے کے بعد تمام وعدے بھول جائیں گی ‘ اس کی تازہ مثال خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی پانچ سالہ دور حکمرانی ہے‘ جس کا ملک بھر میں چرچا رہا اور عمران خان ملک بھر میں خیبرپختونخوا کی مثال دیتے تھکتے نہیں ‘ تحریک انصاف بھی ماضی کی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں سے ہرگز مختلف واقع نہیں ہوئی ‘اسی بناء پر عوام کو دیگر جماعتوں کی نسبت تحریک انصاف سے زیادہ مایوسی ہوئی کیونکہ روایتی جماعتوں کے برعکس لوگوں نے تبدیلی‘ کرپشن کے خاتمے اور نئے چہروں کو ووٹ دیا تھا لیکن پھر وہی روایتی سیاست ‘ وہی پرانے چہرے‘ وہی دعوے اور وہی کرپشن‘ بدعنوانی اور اقربا پروری پانچ سال کے دوران جاری رہی ‘پہلے تبدیلی اور اب انقلابی تبدیلی کا نعرہ لے کر آئندہ انتخابات میں آنے کا پلان ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے باوجود ملک کے دیگر حصوں کے لوگ شاید یقین نہیں کر رہے تھے کہ دعوئوں کے برعکس عملی طور پر معاملات جوں کے توں ہیں‘ اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ تھوڑی بہت بہتری ضرور آئی ہے لیکن انقلابی تبدیلی نہیں‘ قانون سازی کے حوالے سے ریکارڈ توڑ قوانین بنائے گئے ‘ عمران خان میٹرو پر تنقید کرتے ہوئے صحت اور تعلیم کو اپنی ترجیحات قرار دیتے تھے تاہم چند اقدامات جس میں ڈاکٹروں اور اساتذہ کی حاضری یقینی بنانے اور تبادلوں کے معاملات کو غیر سیاسی رکھنا خوش آئند رہا ‘ میڈیا کی رپورٹس کو پروپیگنڈہ قرار دیاگیا لیکن چیف جسٹس ثاقب نثار نے خیبرپختونخوا کے سرکاری ہسپتالوں اور سکولوں کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا ‘ تحریک انصاف کے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے‘ چیف جسٹس نے صحت کے ساتھ ساتھ تعلیم کے حوالے سے خیبرپختونخوا حکومت کی رپورٹ کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا‘چیف جسٹس نے پشاور سنٹرل جیل میں قائم دماغی امراض کے ہسپتال کا بھی دورہ کیا اور ہسپتال کی حالت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کو بھی طلب کرلیا‘ دماغی امراض کے ہسپتال میں داخل مریضوں کو دیکھ کر چیف جسٹس پریشان ہوگئے اور انہوں نے میڈیا سے کہا کہ آپ نے اس معاملے کو نہ اٹھایا تو آپ سے بھی بازپرس ہو گی‘ یہاں لوگ صحت مند ہونے آتے ہیں یا مزید بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں ‘تحریک انصاف حکومت نے صحت کے شعبے کو ترجیحات میں سرفہرست رکھالیکن پشاور کی آبادی کے تناسب سے پشاور میں کوئی نیا ہسپتال تعمیر نہیں کیا بلکہ پشاور کے تینوں بڑے ہسپتالوں کو خود مختاری دیکر اسے بڑا کارنامہ قرار دیا حالانکہ رش کے باعث تینوں ہسپتالوں میں طبی سہولیات کا فقدان ہے ‘ رش کے باعث ڈاکٹروں اور عملے کو مسائل کا سامناہے اور دوسری جانب ہسپتال میںبستر ہی موجود نہیں‘ عمران خان کو کئی صحافیوں نے متعدد مرتبہ بتایا کہ پشاور کی آبادی 60لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ صوبے کے دیگر علاقوں سے بھی لوگ پشاور آتے ہیں‘ ہسپتالوں پر بوجھ کم کرنے کیلئے ہر ڈویژن میں جدید ہسپتال بنایا جائے اور پشاور میں مزید 2ہسپتال تعمیر کئے جائیں تاہم وہ ہسپتالوں کو خود مختاری دینے پر اڑے رہے ‘ ان کے خیال میں ہسپتالوں کو ٹھیک کرکے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں جس کیلئے ایم ٹی آئی کا قانون منظور ہوا اور ہسپتال خود مختار ہوئے‘تحریک انصاف کے دعوئوں کے غبارے سے چیف جسٹس نے ہوا ہی نکال دی ہے‘ اب شرمندگی اور ملال کی بجائے ڈھٹائی سے چیف جسٹس کے دورے کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے‘ڈھٹائی اور شرمندگی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ‘ پہلے دورے کے دوران چیف جسٹس لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی حالت زار پر برہمی کا اظہار کر چکے ہیں اس مرتبہ انہوں نے ایوب میڈیکل ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد کی صورتحال کو انتہائی ناگفتہ بہہ قرار دیدیا ‘ عدالت میں ایوب میڈیکل ٹیچنگ ہسپتال کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین جنرل محمد آصف نے اعتراف کیا کہ ایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آباد کی حالت انتہائی خراب ہے‘ آپریشن تھیٹر میں انسانوں کا آپریشن تو درکنار جانوروں کا بھی آپریشن نہیں ہو سکتا کیونکہ وہاں نہ تو آلات ہیں اور نہ ہی فنڈز‘جس پر چیف جسٹس نے شدید افسوس کا اظہار کیا‘ایبٹ آباد کا ایوب میڈیکل کمپلیکس صوبے کا دوسرا بڑا ہسپتال ہے ،بیماروں کیلئے ہسپتالوں میں سہولیات کی فراہمی حکومتوں کی ذمہ داری ہے لیکن ماضی میں بھی معاملات کا برا حال رہا اور اب تحریک انصاف نے بھی وقت ضائع کیا‘ شوکت خانم پشاور کی طرز پر پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع یا ڈویژنوں میں معیاری سہولیات کی فراہمی کیلئے ہسپتالوں کا قیام اور انہیں فنڈز دینا حکومتوں کا فرض ہے لیکن اس سے چشم پوشی کی گئی ‘ چیف جسٹس نے تعلیم کے حوالے سے خیبرپختونخوا حکومت کی رپورٹ بھی مسترد کر دی‘ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ اب بھی 18لاکھ بچے جن کی عمریں 5سے 17سال تک ہیں سکولوں سے باہر ہیں جن کو لانے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں 2022ء تک کوئی بچہ تعلیم کے بغیرنہیں ہوگا جبکہ مجموعی طور پر 99ہزار اساتذہ کی ضرورت ہے اسی طرح عمارتوں اور ان اساتذہ کے سالانہ اخراجات کیلئے 510بلین روپے اب بھی درکارہیں‘ سیکرٹری تعلیم نے بتایا کہ تعلیم کے شعبے میں بتدریج بہتری آرہی ہے اور ہر سال بجٹ میں اضافہ کیا جا رہا ہے ‘ ہمارا ہدف ہر سال تعلیمی بجٹ میں 16فیصد کا اضافہ کیا جا رہا ہے تاہم چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے محکمہ تعلیم کی رپورٹ پرعدم اطمینان کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ شعبہ تعلیم کوبہتر بنانے کیلئے تجاویز دیں‘چیف جسٹس نے سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کی استدعا پر جوڈیشل انکوائری کیلئے پشاور ہائیکورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیدیاجو 2ماہ میں مکمل انکوائری رپورٹ پیش کرے گا ‘بالا کوٹ اور مانسہرہ میں 2005ء کے زلزلہ متاثرین کیلئے آنے والی امداد کی تحقیقات کیلئے بھی کمیشن تشکیل دیدیا گیا جو 6ہفتوں میں اپنی رپورٹ دے گا ‘ چیف جسٹس نے پشاور میں قائم تمام غیر ضروری ناکہ بندیوں کو 48گھنٹوں میں ختم کرنے کے احکامات جاری کئے‘جس کے باعث شہری عذاب میں مبتلا ہیں ۔

تازہ ترین
تازہ ترین