اسلام آباد( طاہر خلیل) سابق وزیر داخلہ ، چیئرمین سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ اور پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما رحمٰن ملک نے بینظیربھٹو شہید کے قتل میں ایف آئی اے کی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم میں ملزم قرار دیئے گئے تحریک طالبان پاکستان کے پانچ دہشت گردوں کی حالیہ رہائی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ان طالبان ملزمان کی رہائی کی بھرپور مذمت اور احتجاج کرتی ہے اور انصاف کا مطالبہ کرتی ہے ۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کے نام لکھے گئے خط میں رحمنٰ ملک نے مطالبہ کیا کہ بے نظیر بھٹو شہید کے قتل میں ملوث پانچ طالبان عبدالرشیدترابی ، اعتزاز شاہ ، رفاقت حسین ، حسنین گل اور شیر زمان کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے تاکہ وہ بیرون ملک فرار نہ ہو سکیں ۔جمعرات کو اسلام آباد میں ہنگامی پریس کانفرنس میں رحمن ملک نے احسن اقبال کےنام لکھے گئے خط کو پڑھ کرسنایا ۔ انہوں نے خط میں وزیر داخلہ پر زور دیا کہ زندہ بچ جانے والے خود کش بمبار اکرام اللہ کو افغانستان سے لانے کےلئے افغان صدر اشرف غنی سےمعاملہ اٹھایا جائے ۔ بے نظیر بھٹو شہید پر خود کش حملہ کرنے والے کا ساتھی اکرام اللہ اس وقت قندھار میںموجود ہے ۔ افغان خفیہ ایجنسی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اکرام اللہ افغانستان میں کہا ںچھپا ہے ۔انہوں کہا کہ 30جنوری کو اکرام اللہ کو پاکستان واپس لانے کا مطالبہ وزیرداخلہ کے نام ایک خط میں کر چکا ہوں۔ افسوس کہ میرے اس خط پر اب تک وزارت داخلہ نے کوئی کاروائی نہیں کی۔ آج وفاقی وزیر داخلہ کو یاددہانی کرا رہا ہوں کہ اکرام اللہ کا معاملہ حکومت افغانستان کیساتھ اٹھایاجائے۔ ٹی ٹی پی کے پانچ کارندوں نے محترمہ پر حملہ کرکے شہید کیا ۔ اکرام اللہ کا بیان بہت اہم ہو گا، حکومت اسکو فوری واپس لائے۔ جو پانچ ملزم رہا ہوئے ہیں اس پر پیپلز پارٹی بھرپور احتجاج کرتی ہے۔ ان پانچوں ملزمان کے نام طالبان کی اس لسٹ میں دئے گئے تھے جن کی رہائی کا مطالبہ حکومت سے کیا گیا تھا۔ اگر یہ پانچوں ملزمان طالبان کے کارندے نہ ہوتے تو طالبان “امن جرگے” میں حکومت سے انکی رہائی کا مطالبہ کیوں کرتے؟ مری امن جرگے میں طالبان نے حکومت پاکستان سے ان پانچوں ملزمان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ حکومت انکے نام فوری ای سی ایل پرڈالے تاکہ یہ اکرام اللہ کی طرح ملک سے فرار نہ ہوسکیں۔رحمنٰ ملک نے کہا کہ ’’انقلاب محسود جنوبی وزیرستان ‘‘کتاب ابو منصور عاصم مفتی نور ولی نے لکھی جس میں بے نظیربھٹو کی شہادت کا اعتراف کیاگیا ہے ۔ ابو منصور افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہے ۔ اس کی گرفتاری اور تحقیقات سے بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش بے نقاب ہو گی ۔ رحمنٰ ملک نے طالبان کے پانچوں دہشت گردوں کی رہائی کی شدید مذمت کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان ملزمان سے ہونے والی تحقیق ، فرانزک شواہد اور ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت ہوچکا ہے اور ان شواہد اور ان کے اعترافی بیانات میں واضح ہے کہ بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کے آپریشن میںبیت اللہ محسود ، شیر زمان آپریشن کا حصہ تھے ۔ حسنین گل ، حقانیہ مدرسہ میں منصوبہ ساز وں (قاری اسماعیل ، عبادالرحمنٰ اور نصر اللہ سے رابطے میں تھا۔حسنین گل نے ملزم نصراللہ اور خود کش بمبار کو پیر ودھائی بس سٹینڈ پر وصول کیا۔ اور ایک اور ملزم رفاقت حسین کے گھر میںقیام کرایا ۔ رفاقت حسین نے نومبر 2007میں ریکی کی اور اپنے گھر میں خود کش جیکٹ رکھی ۔ رحمن ملک نے خط میںلکھا کہ رفاقت نے حسنین گل ، کو خود کش بمبار اور اس کے ساتھی کےہمراہ بس سٹینڈ سے لیا۔ اور ایک رات کےلئے اپنے گھر میںرکھا ۔ رفاقت حسین لیاقت باغ میں اپنے ساتھ ریکی کےلئے نصر اللہ کو بھی لے گیا ۔رشید احمد ترابی نے اس سازش کا اعتراف کیا۔ رشید ترابی نے عبداللہ عرف صدام ، قاری اسماعیل ، نصر اللہ اور خود کش بمبار بلال کو شناخت بھی کیا۔ رشید ترابی سازش سے پوری طرح باخبر تھا۔ سینیٹر رحمنٰ ملک نے اپنے خط میں ابو منصور عاصم مفتی نو ر ولی کی کتاب ’’انقلاب محسود و جنوبی وزیرستان ‘‘برطانوی راج سے امریکی سامراج تک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ابو منصور ٹی ٹی پی کا سینئر لیڈر ہے ۔ جو افغانستان میں موجود ہے اس بارے میں ایف آئی اے کی جےآئی ٹی نے اپنی تحقیقات میںتصدیق کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب شہید بے نظیر بھٹو کے قتل میںتحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کی واضح طور پر تصدیق کرتی ہے ۔ رحمن ملک نے کہا کہ رہا کیے جانے والے پانچوں ملزمان تحریک طالبان پاکستان کے اہم رکن تھے ۔ اگر وہ طالبان کے رکن نہ ہوتے تو طالبان کبھی ان کی رہائی کامطالبہ نہ کرتی۔کتاب میں تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کے اعتراف کوبیان کیاگیا ہے اور پانچ نکات پیش کیے گئے ہیں کتاب کے مطابق ۔(1)بے نظیر بھٹو کی 2008الیکشن کےلئے وطن واپسی سے قبل ہی بیت اللہ محسود ان کے خلاف منصوبہ بندی کر چکا تھا بے نظیربھٹو امریکا کی خواہش پر ’’مجاہدین اسلام ‘‘کے خلاف منصوبہ لے کرواپس آ رہی تھیں ۔ (2)امریکی پلان کو ناکام بنانے کےلئے دو خود کش بمبار محسن محسود اوررحمت اللہ محسود کے ذریعے اکتوبر 2007میں بے نظیر بھٹو پرکارساز کراچی میںحملے کیے گئے ان حملوں میں 200افراد مار گئے لیکن بے نظیر بھٹو حملے میں بچ گئیں ۔(3)اس حملے کی ناکامی کیوجہ خود کش بمباروں کی جانب سے ہدایات پرعملدرآمد نہ کرنا تھا ، خود کش بمباروں نے اپنی جگہ کو تبدیل کیاجو کہ سٹیج کے قریب تھی اور حملہ جلدی میںکیا ۔ (4)یہ دونوں خود کش بمبار مولوی عظمت اللہ کے تربیتی کیمپ کے تربیت یافتہ تھے ۔ (5) کار ساز میں بے نظیر بھٹو پر حملے کا منصوبہ نا م نہاد مجاہد مہراج کخیل کی پولیس کو خفیہ اطلاع پر ناکام ہوا ۔ کتاب میںلیاقت باغ میں بے نظیر بھٹو شہید پر حملے اور شہادت کا دعویٰ کیا گیا جس کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے ۔(1) بے نظیر بھٹو کو تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے 27دسمبر 2007کو خود کش حملے میں قتل کیا گیا ۔ (2)دو خود کش بمبار بلال عرف سعید اور اکرام اللہ کو بے نظیر بھٹو پر حملے کا کام سونپا گیا ۔ (3)بلا ل عرف سعید کا تعلق بدر سے تھا بے نظیر بھٹو پر پہلا فائر اس کے پسٹل سے کیا گیا اور گولی ان کی گردن پر لگی ۔پھر اس نے اپنی بارود سے بھری جیکٹ کودھماکے سے اڑا دیا ۔ (4)دوسراخودکش بمبار اکرام اللہ جو جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین کا رہنے والا ہے وہاں سے فرار ہوگیا اور ابھی تک زندہ ہے ۔ (5)مولوی عمران کے مطابق مولوی عمران کا انڑویو کتاب کے مصنف نے کیا کہ اسے (مولوی عمران ) کو احمد ، قاری اسماعیل اور ملا احسان کی معاونت حاصل تھی ۔ (6)جو نہی خفیہ ایجنسیوں کی نظر میں نصر اللہ آیا جو کہ سید گئی برمل کا رہائشی ہے اور بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملے میں شریک تھا وہ پشاور سے مہمند ایجنسی میںمنتقل ہوگیا ۔ 2008میںجب نصر اللہ اپنے ساتھیوں قاری اسماعیل اور ایک ٹین ایج خود کش بمبار نقیب اللہ محسود کے ہمراہ مہمند ایجنسی میں خود کش حملے کے مشن پرتھا اس کو مہمند ایجنسی میں نکئی چیک پوسٹ پرسیکورٹی اہلکاروں نے روکا اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں تینوں خود کش بمبار مارے گئے ۔ خط میں کہا گیا کہ بے نظیر بھٹو کراچی حملے میں بچے جانے کے بعد بھی حکومت نےانہیں کوئی مناسب سیکورٹی فراہم نہیں کی ۔ راولپنڈی میں حملے کےبعد تحقیقات میںمشکلات کےلئے شواہد تباہ کئے گئے ۔ایف آئی اے کی تحقیقات کےمطابق گرفتار ملزم رشید ترابی نے اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ مدرسہ حقانیہ کا اس کا پرانا کلاس فیلو قاری اسماعیل عرف نادر خان نے نصر اللہ عرف احمد اور عبداللہ عرف صدام نے مدرسہ منبع العلوم میرن شاہ میںاس کے ہوسٹل کے کمرے میں ایک رات قیام کیا تھا۔ دو دن بعد یہ تمام افراد ایک نو عمر لڑکے سعید عرف بلال کے ساتھ آئے ۔جس کوبے نظیربھٹو پر حملے کا کام سونپا گیا ۔ 15دن بعد قاری اسماعیل عرف نادر خان جس کو ٹرائل کورٹ نے ملزم قرار دیا تھا سے ملزم رشید ترابی ، نصر اللہ ، عبداللہ مدرسہ حقانیہ میں ملے جہاں عبداللہ نے تصدیق کی کہ بلال عرف سعید حسنین گل عرف علی پنجابی کی مدد سے بے نظیر بھٹو پر خود کش حملے راولپنڈی میںکرے گا۔ ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق نصر اللہ عمر احمد نے خود کش بمبار کے ہمراہ ملزم رفاقت حسین کے گھر میں 26تاریخ کی رات کو قیام کیا۔ جیو فینسنگ اور فرانزک شواہد کے مطابق خود کش بمبار لیاقت باغ راولپنڈی میںموجود تھے ۔ رحمان ملک نے خط میںلکھا کہ ٹرائل کورٹ نے 9سال 8ماہ تین دن ٹرائل کیا اور تحریک طالبان کے اہم دہشت گردوں حسنین گل ، رفاقت حسین ، رشید ترابی، شیر زمان اور اعتزاز شاہ کو ناقابل تردید ثبوتوں کے باوجود بری کر دیا ۔