رپورٹ:طلعت عمران
عکّاسی:اسرائیل انصاری
میزبان:محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
گزشتہ رمضان المبارک میں منافع خوروں پر کم و بیش 3کروڑ روپے کا جرمانہ عاید کیا، 500منافع خوروں کو حوالات بھیجا اور 3000چالان کیے، لیکن اس قدر ’’ہائی ڈوز‘‘ کے باوجود بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا ، لگتا ہے کہ اس مرتبہ مزید سختی کرنا پڑے گی، رمضان میں منافع خوری کی شرح کئی گنا بڑھ جاتی ہے،
ہمیں بحیثیت معاشرہ صحیح اور غلط میں امتیاز کرنا ہو گا اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہو گی،اس وقت ہمارے پاس پرائس چیکنگ کے علاوہ کوئی مجسٹریل پاور نہیں ہے،کمپلین سینٹرز قائم ہیں، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ شہریوں میں اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے، عوام کو کسی بھی معاملے میں شکایت درج ضرور کروانی چاہیے، ہو سکتا ہے کہ فوری طور پر ریلیف نہ ملے، لیکن جب یہ سلسلہ قائم ہو جائے گا اور شہری اپنا حق نہ ملنے پر شکایات کرنے لگیں گے، تو پھر انتظامی اداروں میں بھی جوابدہی کا احساس پیدا ہو گا
اعجاز احمد خان
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر سال ہی رمضان جیسے بابرکت اور مقدس ماہ میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگرچہ مقامی انتظامیہ گراں فروشی کی روک تھام کے لیے اپنے تئیں اقدامات کرتی ہے، لیکن یہ شہر اس قدر پھیل چکا ہے کہ اس رجحان پر پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکتا۔
البتہ حکومت کی یہ پوری کوشش ہونی چاہیے کہ رمضان المبارک کے دوران پھلوں سمیت دوسری اشیائے خور و نوش غریب افراد کی دسترس میں ہوں، تاکہ وہ بھی اس بابرکت ماہ کے دوران اللہ پاک کی نعمتوں سے مستفید ہو سکیں، بیش تر شہری بارگیننگ سے ہچکچاتے ہیں، حالانکہ یہ ان کا حق ہے،اس رویے کو تبدیل کرنا ہوگا
خالد امین
حیرت کی بات ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں سے رمضان المبارک میں پھل وافر مقدار میں موجود ہونے کے باوجود ان کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، اس کا سبب منافع خوری ہے،ہمارے ہاں عوام بھی رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ خریداری کی کوشش کرتے ہیں، جس سے تاجر فائدہ اٹھاتے ہیں، شہریوں کوبلاضرورت خریداری نہیں کرنی چاہیے،ایک ایسی مافیا موجود ہے،
جو سال بھر رمضان المبارک میں منافع خوری اور ان اداروں کی راہ میں روڑے اٹکانے کی منصوبہ بندی کرتی ہے، جو منافع خوری کے سدِ باب کے ذمے دار ہیں، منافع خوری کی جڑآڑھتی ہیں، یہ ایک مضبوط لابی ہے، جس پر ہاتھ ڈالنا شاید بہت مشکل ہے، گراں فروشی روکنے کے لیےکمشنر کراچی کی کوششیں قابلِ ستائش ہیں، لیکن ان کے اختیارات محدود ہیں،اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے صرف خوفِ خدا ہی منافع خوری اور گراں فروشی سے روک سکتا ہے
عتیق میر
پچھلے سال کے مقابلے میں اس مرتبہ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں کم ہونی چاہئیں تھیں، لیکن ڈالر کی قدر میں اضافے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا،کمشنر کراچی کے ساتھ مل کر شہر کے مختلف بازاروں کا سروے کر رہے ہیں،تاجروں نے ہمیں یقین دہانی کروائی تھی کہ اس مرتبہ رمضان میں فروٹ مہنگے نہیں ہوں گے، لیکن رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی پھل مہنگے ہو گئے،
تین سال گزرنے کے بعدبھی سندھ میں کنزیومر کورٹس کاقیام عمل میں نہیں آیا،ہمارے ہاں کنزیومر ایسوسی ایشنز صارفین سے زیادہ ایوارڈ پر توجہ دینے لگی ہیں،ایک پھل فروش گراں فروشی سے کم و بیش ڈھائی سے تین ہزار روپے کی دیہاڑی بنا لیتا ہے اور ہم پھر بھی اسے غریب سمجھ کر اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں،منافع خوروں پر صرف جرمانہ عاید کرنے سے بات نہیں بنے گی، بلکہ انہیں جیلوں میں بھیجنا ہو گا اور اس کا اثر نظر آئے گا، صارفین کو خود بااختیار بننا ہو گا اور شکایات درج کروانا ہوں گی
شکیل بیگ
اگرچہ دنیا بھر میں رمضان المبارک اور تہواروں کے موقع پر عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے اشیا سستی کر دی جاتی ہیں، لیکن بد قسمتی سے پاکستان بالخصوص کراچی میں اس کے برعکس ہوتا ہے اور رمضان المبارک شروع ہونے سے قبل ہی اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہر چند کہ ہر سال انتظامیہ کی جانب سے ماہِ صیام میں قیمتیں کنٹرول رکھنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس مہینے گراں فروشی عام ہوتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سلسلے کی روک تھام کے لیے حکومت، مقامی انتظامیہ اور سول سوسائٹی کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں گزشتہ دنوں انڈس یونیورسٹی میں ’’رمضان میں مہنگائی‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں کراچی ڈویژن کے کمشنر، اعجاز احمد خان، آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین، عتیق میر، کنزیومر رائٹس پروٹیکشن کائونسل آف پاکستان کے چیئرمین، شکیل بیگ اور انڈس یونیورسٹی کے چانسلر، خالد امین نے اظہارِ خیال کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
جنگ:آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
خالد امین:اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر سال ہی رمضان جیسے بابرکت اور مقدس ماہ میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگرچہ مقامی انتظامیہ گراں فروشی کی روک تھام کے لیے اپنے تئیں اقدامات کرتی ہے، لیکن یہ شہر اس قدر پھیل چکا ہے کہ اس رجحان پر پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکتا۔ البتہ حکومت کی یہ پوری کوشش ہونی چاہیے کہ رمضان المبارک کے دوران پھلوں سمیت دوسری اشیائے خور و نوش غریب افراد کی دسترس میں ہوں، تاکہ وہ بھی اس بابرکت ماہ کے دوران اللہ پاک کی نعمتوں سے مستفید ہو سکیں۔
جنگ:قیمتوں کے کنٹرول میں بہ تدریج بہتری آ رہی ہے یا ان میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے؟
شکیل بیگ:پچھلے سال کے مقابلے میں اس مرتبہ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں کم ہونی چاہئیں تھیں، لیکن ڈالر کی قدر میں اضافے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ ان دنوں چکن کی قیمت بہت زیادہ ہے، لیکن دالوں کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ہم کمشنر صاحب کے ساتھ مل کر شہر کے مختلف بازاروں کا سروے کر رہے ہیں۔ رمضان شروع ہونے سے چند روز قبل فی درجن کیلے کی قیمت 120تک پہنچ گئی، جو پہلے 60سے 70روپے درجن تھی۔ اسی طرح فی کلو خربوزے کی قیمت 25سے 40روپے کلو تک پہنچ گئی۔
جنگ:کیا آپ رسد و طلب کا ریکارڈ بھی رکھتے ہیں؟
شکیل بیگ:جی بالکل، ہم نے انہی اعداد و شمار کی روشنی میں پھلوں کے تاجروں سے ایک میٹنگ بھی کی تھی، جس میں ہمیں یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ اس مرتبہ رمضان میں فروٹ مہنگے نہیں ہوں گے، کیونکہ پیچھے سے فراہمی جاری ہے۔ نہ جانے پھر ایسا کیا ہوا کہ رمضان شروع ہونے سے چند روز پہلے ہی پھل مہنگے ہو گئے۔
جنگ :پنجاب میں کنزیومر کورٹس اچھا کام کر رہی ہیں، لیکن صارفین کے حقوق کے حوالے سے سندھ میں کیا صورتِ حال ہے؟
شکیل بیگ :مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ 2015ء میں کنزیومر کورٹس کا قانون منظور ہوا، لیکن ابھی تک ان کا قیام عمل میں نہیں آیا۔
جنگ :آپ نے اس حوالے سے حکومت پر دبائو نہیں ڈالا؟
شکیل بیگ :ہم نے دبائو ڈالا ہے، لیکن حکام کا کہنا ہے کہ کنزیومر کورٹس کا فیصلہ ہو چکا ہے، لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔
جنگ:رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے، لیکن تاجر برادری اسے ’’سیزن‘‘ قرار دے کر منافع خوری میں مصروف ہو جاتی ہے۔ کیا آپ اس عمل کو درست قرار دیتے ہیں؟
عتیق میر:جب کوئی چیز کمیاب ہوتی ہے، تو اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں سے رمضان المبارک میں پھل وافر مقدار میں موجود ہونے کے باوجود ان کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اس کا سبب منافع خوری ہے۔ پھر ہمارے ہاں عوام بھی رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ خریداری کی کوشش کرتے ہیں، جس سے تاجر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس صورتحال میں شہریوں کو کم سے کم خریداری کرنی چاہیے۔ یاد رہے کہ گزشتہ رمضان المبارک میں شہریوں نے تین روز تک پھلوں کا بائیکاٹ کیا تھا، جس کے بعد واضح فرق دیکھنے میں آیا تھا۔ درحقیقت، ایک ایسی مافیا موجود ہے، جو سال بھر رمضان المبارک میں منافع خوری اور ان اداروں کی راہ میں روڑے اٹکانے کی منصوبہ بندی کرتی ہے، جو منافع خوری کے سدِ باب کے ذمے دار ہیں، جو نہ صرف دینِ اسلام کی تعلیمات بلکہ انسانیت کے بھی خلاف ہے۔ مجھے بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس ماہِ مقدس میں گراں فروشی اور منافع خوری مسلمان ہی کرتے ہیں۔
جنگ:حالاں کہ مغربی ممالک میں کرسمس سمیت دیگر تہواروں کے موقع پر طلب بڑھنے کے باوجود اشیا کی قیمتیں کم ہو جاتی ہیں۔
عتیق میر:رمضان المبارک میں مجسٹریٹ منافع خوروں پر جرمانے بھی عاید کرتے ہیں، لیکن وہ اس جرمانے کی رقم عوام سے وصول کر لیتے ہیں۔ میں نے پچھلے سال بھی اسی فورم میں یہ بات کہی تھی کہ ہم برائی کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔ منافع خوری کی جڑ دراصل آڑھتی ہیں۔ یہ ایک مضبوط لابی ہے، جس پر ہاتھ ڈالنا شاید بہت مشکل ہے۔
جنگ:کیا منافع خوری اور گراں فروشی کے سدِباب کے لیے آپ انتظامیہ اور صارفین کے حقوق کی تنظیموں سے رابطہ کرتے ہیں؟
عتیق میر:اس ضمن میں کمشنر کراچی کی کوششیں قابلِ ستائش ہیں، لیکن شاید ان کے اختیارات محدود ہیں اور یہ اس مضبوط مافیا پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ میرے خیال میں اس وقت خوفِ خدا کے سوا ایسی کوئی طاقت نہیں کہ جو اس مافیا کو روک سکے۔ اس مافیا کو ان افراد کی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے، جو منافع خوری کو روکنے کے ذمے دار ہوتے ہیں، کیونکہ انہیں پیسے کا لالچ دیا جاتا ہے۔ میں نے بعض مجسٹریٹس کو بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کمشنر اور صوبائی حکومت رمضان المبارک میں گراں فروشی اور منافع خوری روکنے کے لیے حکمتِ عملی ترتیب دیتی ہے، لیکن ماہِ صیام شروع ہوتے ہی منافع خوری کا جن بے قابو ہو جاتا ہے۔
جنگ:گزشتہ کئی برسوں سے گراں فروشی کی روک تھام کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں، سزائیں دی جا رہی ہیں اور جرمانے عاید کیے جا رہے ہیں، لیکن منافع خوری بڑھتی ہی جا رہی ہے؟
اعجاز احمد خان:میں گزشتہ دو برس سے کمشنر کراچی کے طور پر فرائض انجام دے رہا ہوں۔ یہاں میں ایک جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں، جس کے بعد آپ خود میری اہلیت یا نا اہلیت کا فیصلہ کیجیے گا۔ میں نے گزشتہ رمضان المبارک میں پرائس کنٹرول مہم چلائی اور اس ایک مہینے میں پچھلے چار سے پانچ برس کے مجموعی جرمانوں کے مساوی جرمانہ عاید کیا۔ میں نے ایک ماہ میں کم و بیش 3کروڑ روپے جرمانہ عاید کیا۔ تقریباً 500منافع خوروں کو حوالات میں بھیجا اور 3000چالان کیے، لیکن اس قدر ’’ہائی ڈوز‘‘ کے باوجود بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا اور ایسا لگتا ہے کہ اس مرتبہ مزید سختی کرنا پڑے گی۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مسئلے کا حل ’’ہائی ڈوز‘‘ ہے۔ اس سوال کا جواب سو فی صد ہاں میں نہیں ہے، کیوں کہ اگر میں کسی تاجر کو ایک ماہ میں 2لاکھ روپے کا جرمانہ بھی کرتا ہوں، تو اس پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا اور اس کا سبب یہ ہے کہ رمضان المبارک میں ان کی منافع خوری کی شرح گزشتہ گیارہ ماہ کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ گزشتہ رمضان المبارک میں ہم نے گوشت کے ایک بہت بڑے برانڈ پر 30،32لاکھ روپے کا جرمانہ عاید کیا، حالاں کہ اس پر کوئی ہاتھ بھی نہیں ڈال سکتا تھا، لیکن جب بعد میں میں نے تخمینہ لگایا، تو پتہ چلا کہ اس ایک ماہ میں اس برانڈ نے کروڑوں روپے کا منافع کمایا۔ اب میرا کام پالیسی بنانا نہیں، بلکہ اس کا نفاذ ہے۔ پالیسی صوبائی حکومت بناتی ہے۔ جب میں نیا نیا کمشنر کراچی تعینات ہوا تھا، تو ہم نے ایک علاقے میں 8انچ قطر کا پانی کا غیر قانونی کنکشن کاٹ دیا تھا اور متعلقہ افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی، لیکن اگلے ہی روز شہر کے بااثر افراد وزیر اعلیٰ کے پاس پہنچ گئے کہ اگر پرچہ واپس نہ لیا گیا، تو شہر کا کاروبار بند ہو جائے گا۔ یعنی ہمارا معاشرہ بے حس ہو چکا ہے اور اسے صحیح اور غلط کا ادراک ہی نہیں ہے۔ منافع خوری اور گراں فروشی سے سب سے زیادہ متاثر متوسط اور نچلا متوسط طبقہ ہوتا ہے اور ان طبقات کو خود کو منظم کرنا ہو گا۔ ہم خود ضرورت سے زیادہ خریداری کی کوشش کرتے ہیں، جس سے منافع خور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح جب چکن مہنگا ہوا، تو شہریوں نے اس کی دھڑا دھڑ خریداری شروع کر دی، حالانکہ اس کی خریداری کم کرنی چاہیے تھی۔ ہمیں بحیثیت معاشرہ صحیح اور غلط میں امتیاز کرنا ہو گا اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہو گی۔ مغربی ممالک میں جب کنزیومر رائٹس پر کوئی زد پڑتی ہے، تو پوری سوسائٹی مل کر احتجاج کرتی ہے۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ صارفین تشدد پر اتر آئیں، بلکہ انہیں اظہار کر کے اپنی احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے، تاکہ منافع خوروں کو اپنی غلطی کا احساس ہو۔
جنگ:ہمارے ملک میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی تنظیمیں قائم ہیں، لیکن انہوں نے ابھی تک کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی، حالانکہ اب تو سوشل میڈیا پر بھی مہم چلائی جا سکتی ہے؟
شکیل بیگ:اس میں کوئی شک نہیں کہ ابھی تک صارف اپنے حقوق کے بارے میں اتنا ادراک نہیں رکھتا، جتنا اسے ہونا چاہیے۔ ہم ماہِ شعبان سے سوشل میڈیا پر گراں فروشی کے خلاف مہم چلا رہے تھے اور چوں کہ ہم طلبہ سے مخاطب ہوتے ہیں، لہٰذا ہمیں طلبہ کی جانب سے اچھا فیڈ بیک موصول ہوا۔ پھر ہم نے مختلف جامعات کا سروے کر کے رمضان المبارک میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اشیائے خور و نوش کا بھی تعین کیا اور انہیں کمشنر کی پرائس کمیٹی کے سامنے پیش کیا۔ دراصل، ہمارے ہاں کنزیومر ایسوسی ایشنز صارفین سے زیادہ ایوارڈ پر توجہ دینے لگی ہیں۔ ہم جب تک گراس روٹ لیول تک نہیں جائیں گے اور لوگوں کو لوٹ مار کرنے والوں کے بارے میں نہیں بتائیں گے، تبدیلی نہیں آئے گی۔ پھر جب ہم مجسٹریٹ کے ساتھ مل کر چھاپے مارنے جاتے ہیں، تو صارفین ٹھیلے والوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار شروع کر دیتے ہیں۔ عموماً کسی فرد کے ایک سو سے 150ٹھیلے ہوتے ہیں اور وہ دیہاڑی اور کمیشن پر یہ ٹھیلے مختلف لوگوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ ہم ان افراد کو غریب ترین سمجھتے ہیں، لیکن یہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیسر سے بھی زیادہ کمائی کرتے ہیں۔ ایک ٹھیلے والا گراں فروشی کے ذریعے کم و بیش ڈھائی سے تین ہزار روپے کی دیہاڑی بنا لیتا ہے اور ہم پھر بھی اسے غریب سمجھ کر اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں منافع کے ساتھ جو چیز 85روپے میں فروخت ہونی چاہیے، اسے 160روپے میں فروخت کیا جاتا ہے۔ یعنی ریٹیل کی سطح پر صارف کے ساتھ بہت زیادہ زیادتی کی جاتی ہے۔
جنگ:اس سلسلے میں تو سال بھر مہم چلانے کی ضرورت ہے، جب کہ آپ صرف رمضان المبارک ہی میں مہم چلاتے ہیں۔
اعجاز احمد خان: میں یہاں بغیر لگی لپٹی بتانا چاہتا ہوں کہ 2000ء سے پہلے مجسٹریٹ کے پاس بہت زیادہ اختیارات ہوتے تھے، لیکن اس وقت ہمارے پاس صرف پرائس چیکنگ کے علاوہ کوئی مجسٹریل پاور نہیں ہے۔ مجسٹریٹ کے اختیارات کم کرنے سے پوری سوسائٹی کو نقصان پہنچا ہے اور یہ ایک غلط فیصلہ تھا۔ اسی طرح انتظامیہ کووہ کام بھی کرنے پڑ رہے ہیں، جو اس کی ذمہ داری ہی نہیں ہے، تو وہ اپنے کام پر کس طرح توجہ برقرار رکھ پائے گی۔
جنگ:کیا جرمانے کے بہ جائے قید کی سزا دینا زیادہ مناسب نہیں ہو گا؟
اعجاز احمد خان :یہ طریقہ کار زیادہ بہتر ہو گا، لیکن ہم ایک حد سے تجاوز نہیں کر سکتے۔
عتیق میر: اعجاز احمد صاحب نے اپنے دور میں جو جرأت مندانہ اقدامات کیے ، میں نے کسی اور شخص کو یہ اقدامات کرتے نہیں دیکھا۔ یہ کم اختیارات اور بے دست و پا ہوتے ہوئے بھی اپنے تئیں بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔
اعجاز احمد خان:کمشنری نظام کے غیر موثر ہونے کی صرف سندھ حکومت ذمے دار نہیں، بلکہ یہ فوجداری نظام کسی اور نے ختم کیا تھا، لیکن عوام کی بہتری کے لیے اس نظام کو موثر اور بہتر ہونا چاہیے۔
جنگ:ماہِ رمضان میں جہاں منافع خوری بڑھ جاتی ہے، وہیں چیریٹی کے کاموں میں بھی بہت زیادہ تیزی آتی ہے، تو کیا مخیر حضرات کو روزے داروں کو آسانیاں فراہم کرنے کے لیے کوششیں نہیں کرنی چاہئیں؟
عتیق میر:جی بالکل، ایسا ضرور ہونا چاہیے اور تاجربرادری کو اس میں اپنا کردار ادا کرناچاہیے۔ پھر اس وقت بازار میں زیادہ تر ایسے پھل دستیاب ہیں، جو بہت جلد خراب ہو جاتے ہیں۔ لہذا، اگر عوام کو مہنگے پھل مل رہے ہیں، تو وہ انہیں نہ خریدیں یا پھر کم خریدیں۔
شکیل بیگ:گزشتہ دنوں ٹماٹر 380روپے کلو تک پہنچ گیا تھا، تو ہم نے یہ مہم چلائی تھی کہ ٹماٹر چھوڑو، دہی کا استعمال بڑھائو۔ یہ مہم بڑی کامیاب رہی اور اس مرتبہ بھی اسی قسم کی ایک مہم چلا رہے ہیں۔ میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو چیزوں کے متبادل تلاش کرنے چاہئیں۔
اعجاز احمد خان:اس وقت مارکیٹ میں کم از کم ایسے 18آئٹم موجود ہیں، جن کے ریٹ یوٹیلیٹی اسٹورز سے بھی کم ہیں۔ مثال کے طور پر دال ماش مارکیٹ میں 83روپے اور یوٹیلیٹی اسٹور میں سبسڈی دینے کے بعد 90روپے میں دستیاب ہے۔ اسی طرح دال مونگ سمیت دیگر اشیا بھی یوٹیلیٹی اسٹورز سے کم ریٹ پر مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
جنگ:لیکن کیا ان قیمتوں کا اطلاق ہو رہا ہے؟
اعجاز احمد خان:قیمتوں کے اطلاق کے لیے مارکیٹوں کا سروے کیا جاتا ہے اور منافع خوری میں ملوث تاجروں پر بھاری جرمانے عاید کیے جاتے ہیں۔
جنگ:دودھ پر ہم الگ سے فورم کریں گے، لیکن آپ نے دودھ کی جو قیمت طے کی ہے، مارکیٹ میں اس سے زاید قیمت پر فروخت ہو رہا ہے۔
اعجاز احمد خان:اگر کسی جگہ دودھ مہنگا فروخت ہو رہا ہے، تو صارفین 1299ہیلپ لائن پر کال کر کے اس دکان کا پتہ بتائیں اور اس کے خلاف شکایت درج کروائیں۔ اسی طرح ہمیں کمشنر آفس کے ای میل ایڈریس پر بھی شکایات موصول ہوتی ہیں، جنہیں میں خود دیکھتا ہوں اور متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کو بھیج دیتا ہوں۔ پھر واٹس ایپ پر بھی ہر ضلع کے گروپس بنے ہوئے ہیں۔
عتیق میر:کمشنر صاحب نے جس طرح دودھ کی قیمتوں کا مسئلہ حل کروایا، اسی طرح سبزیوں اور پھلوں کے تاجروں سے بھی ملاقات میں انہیں اشیا کی سستے داموں فراہمی پر آمادہ کریں۔
اعجاز احمد خان:یہ ایک اچھی تجویز ہے اور میں اس پر ضرور عمل کروں گا۔
سید انجم :اگر سرکاری طور پر فارمنگ شروع کی جائے، تو اشیا کی قیمتوں میں کمی ہو سکتی ہے؟
اعجاز احمد خان: یہ درست سوال اور تجویز ہے، لیکن چوں کہ یہ اس فورم سے غیر متعلق ہے، لہٰذا میں ابھی اس کا جواب نہیں دے سکتا۔
ڈاکٹر ظفر ناصر:تہذیب یافتہ معاشروں میں منافع خوری اور گراں فروشی جیسی چیزیں نظر نہیں آتیں۔ ہمارے ہاں ان کا خاتمہ کیسے ہوگا؟
اعجاز احمد خان :اس کا حل تو خوفِ خدا اور صراطِ مستقیم پر چلنا ہے۔ اگر اس معاشرے کو اس راستے پر چلانے والے لوگ آجائیں، تو اس میں سے یہ برائیاں ختم ہو جائیں گی۔
جنگ:کیا شہر میں بچت بازار قائم ہیں؟
شکیل بیگ :جی ہاں، شہر میں ایک سو سے زاید بچت بازار قائم ہیں اور ان میں قیمتیں عام بازاروں کے مقابلے میں کسی حد تک کم ہوتی ہیں، کیوں کہ یہاں انتظامیہ بھی موجود ہوتی ہے، لیکن یہاں کم اشیا دستیاب ہوتی ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ صارف کو خود اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ وہ جو چیز خرید رہا ہے، وہ درست ہے یا نہیں۔ غربت کے مارے لوگ بچا کھچا فروٹ سستے داموں خریدتے ہیں اور یہ دن بھر منافع خوری کے باوجود بھی ان پر ترس نہیں کھاتے۔
س:لیکن وہ تو کہتے ہیں کہ مارکیٹ ہی سے فروٹ مہنگا مل رہا ہے؟
شکیل بیگ:وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ پہلے ہم بھی یہی سمجھتے تھے، لیکن اب ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اور اگر انہیں مافیا کہو، تو یہ تب بھی برا مانتے ہیں۔
عتیق میر:یہ پھل فروش صارفین کو مختلف درجات میں بھی الجھا دیتے ہیں۔ کمشنر صاحب اپنے محدود اختیارات کے باوجود اچھا کام کر رہے ہیں، لیکن اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ صرف خوفِ خدا ہی انہیں منافع خوری اور گراں فروشی سے روک سکتا ہے۔
جنگ :کیا صارفین کے لیے رمضان میں عارضی طور پر کمپلین سینٹرز قائم نہیں کیے جا سکتے؟
اعجاز احمد خان:کمپلین سینٹرز قائم ہیں، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ شہریوں میں اعتماد کا فقدان بھی پایا جاتا ہے، لیکن عوام کو کسی بھی معاملے میں شکایات درج ضرور کروانی چاہئیں۔ ہو سکتا ہے کہ فوری طور پر ریلیف نہ ملے، لیکن جب یہ سلسلہ قائم ہو جائے گا اور شہری اپنا حق نہ ملنے پر شکایات کرنے لگیں گے، تو پھر انتظامی اداروں میں بھی جوابدہی کا احساس پیدا ہو گا۔ میں اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ جب شہریوں کو اس بات کا ادراک ہو جائے گا کہ انہیں ان کا حق نہیں مل رہا اور وہ متعلقہ اداروں کو شکایات کریں گے، تو معاشرے میں تبدیلی ضرور آئے گی۔ ہم جب یہ سوچ کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں کہ ہر شخص چور ہے اور اپنا حق استعمال نہیں کریں گے، تو پھر تو کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو گی۔ ہمیں اپنا شکایت کا حق ہر صورت استعمال کرنا چاہیے۔
عتیق میر:میں یہ تجویز دینا چاہتا ہوں کہ صارفین کے حقوق کے لیے منافع خوروں کے خلاف کارروائی بھی کرنی پڑے، تو اس سے گریز نہ کیا جائے۔ بعض اوقات مجرم قانون سے زیادہ طاقتور ہو جاتا ہے، تو ہمیں اس سے بات چیت کرنی چاہیے، جیسا کہ میں نے اوپر تجویز دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کمشنر صاحب یہ کام کر سکتے ہیںاور اس کے ساتھ ہی صارفین کو بھی اپنا حقِ احتجاج استعمال کرنا چاہیے اور خریداری کم کرنی چاہیے۔ اگر وہ اشیا کو ذخیرہ کرنا چھوڑ دیں، تو اس کے اثرات نظر آئیں گے۔
شکیل بیگ:صارفین 1299پر شکایت کریں۔ اس کے علاوہ ہم مہم بھی چلا رہے ہیں اور ہماری کوشش ہو گی کہ پچھلے سال کی طرح اس مرتبہ بھی کم و بیش 18کروڑ روپے کا فروٹ جائز قیمت پر فروخت کیا جائے۔ میں یہ تجویز بھی دینا چاہتا ہوں کہ منافع خوروں پر صرف جرمانہ عاید کرنے سے بات نہیں بنے گی، بلکہ انہیں جیلوں میں بھیجنا ہو گا اور اس کا اثر نظر آئے گا۔ اسی طرح صارفین کو خود بااختیار بننا ہو گا اور اپنی شکایت درج کروانا ہو گی۔ اگر اس شکایت پر عمل درآمد نہیں ہوتا، تو آپ پھر بھی یہ سلسلہ جاری رکھیں۔ اس ضمن میں ہماری تنظیم بھی صارفین کی مدد کرے گی۔ ہمارا رابطہ نمبر 0321-8216603ہے اور یہی ہمارا واٹس ایپ نمبر بھی ہے۔ اس پر آپ تصویر بھی بھیج سکتے ہیں۔
اعجاز احمد خان:اسی طرح آپ کسی بھی دکان پر جائیں، تو دکاندار سے نرخ نامہ ضرور طلب کریں۔ ہر دکاندار کو نرخ نامہ ملتا ہے۔ یہ نرخ نامہ تاجروں کی مشاورت ہی سے تیار کیا جاتا ہے۔
شکیل بیگ:اسی طرح نقول کی بہ جائے اصل نرخ نامے پر اصرار کریں اور اگر کوئی دکاندار منع کرتا ہے، تو اس کے خلاف شکایت درج کروائیں۔
اعجاز احمد خان:اگر ہم بحیثیت معاشرہ اس بات کا تہیہ کر لیں کہ ہم نے صارفین کو ارزاں نرخوں پر معیاری اشیا کی فراہمی یقینی بنانی ہے، تو ہمارے معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی آ جائے گی۔ پھر ہمیں ایک دوسرے اور ایک دوسرے کے مسائل کو بھی سمجھنے کا موقع ملے گا۔ اس فورم کے دوران جو نئے مسائل اور تجاویز میرے سامنے آئی ہیں، ان پر قابو پانے اور عملدرآمد کے لیے ضرور کوشش کروں گا اور اپنے اسٹاف تک بھی یہ ساری باتیں پہنچائوں گا۔
خالد امین:آخر میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم عوام میں آگہی پھیلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے اور اس مقصد کے لیے ہر فورم استعمال کریں گے۔ بیش تر شہری بارگیننگ سے ہچکچاتے ہیں، حالانکہ یہ ان کا حق ہے۔ اس رویے کا تبدیل کرنا ہوگا۔
اعجاز احمد خان:میں جب کبھی کبھار عام دکانوں پر خریداری کے لیے جاتا ہوں، تو مجھے پہچاننے والے دیکھ کر حیرانی کا اظہار کرتے ہیں، تو میں ان سے کہتا ہوں کہ میں بھی انہی میں سے ہوں۔ میں کراچی میں پلا بڑھا ہوں اور کراچی سے جڑا ہوا ہوں۔ مجھے شہریوں کی مشکلات کا احساس ہے اور ان کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہوں گا۔
جنگ:میں فورم میں شریک طلبہ سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے صارفین میں ان کے حقوق سے متعلق مہم چلائیں اور شہریوں میں ادراک اور آگہی پیدا کریں۔