• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب وہ جگانے والے کہاں

رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمان سحری اور افطار کے لیے خصوصی اہتمام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ مختلف خِطّوں میں سحری کا وقت شروع اور ختم ہونے اور افطار کے وقت کا آغاز ہونے کی اطلاع دینے کے لیے مختلف اسلامی ممالک یا مسلمانوں کی بستیوں میں صدیوں سے مختلف طریقوں پر عمل کیا جاتا ہے۔ بدلتی ہوئی معاشرتی ضروریات کے تحت ان طریقوں میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں۔ نت نئی ایجادات اور اختراعات نے پہلے کی نسبت یہ کام آسان بنا دیا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی سحری اور افطار کے اوقات کی اطلاع دینے کی روایت موجود ہے۔ تاہم وقت کے ساتھ اس میں بعض تبدیلیاں آئی ہیں۔ پہلے اس روایت کی کیا شکل تھی اور وقت کے ساتھ اس میں کیا تبدیلیاں ہوئی ہیں؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے مختلف شخصیات سے گفتگو کی گئی۔ اس کے علاوہ موجودہ دور میں اس روایت کے امین بعض افراد سے رابطہ کیا گیا۔ آئیے ! یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وقت گزرنے کے ساتھ مذکورہ روایت میں کیا تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔

نعیم الدین زندگی کی ساٹھ سے زاید بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ان کی لیاقت آباد کے بازار میں گوشت کی دکان ہے۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے اور 1953ء میں خاندان کے ساتھ ہجرت کر کےکراچی آگئے۔ ان کے مطابق دہلی میں ان کے محلّے میں واقع مسجد میں افطار کے وقت بڑے بڑے نقا رّ ے بجائے جاتے اور جامع مسجد دہلی میں گولے چھوڑے جاتے تھے۔ ان نقّاروں کی اور گولے چھوڑنے کی آوازیں دُوردُدور تک سنی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ محلّوں میں لوگوں کو جگانے والے بھی آتے تھے۔ ان کے مطابق لیاقت آباد میںپہلے محلّے کے بزرگ ثواب کی نیت سے لوگوں کو سحری میں جگاتے تھے۔پھر معاوضے کی لالچ میں لوگوں کو یہ کام کرتے دیکھا۔ ان کے بہ قول پاکستان میں جب تک لائوڈ اسپیکر عام نہیں ہوئے تھے تو سحری اور افطار کے اوقات میں سا ئرن بجا کر لوگوں کو اطلاع دی جاتی تھی۔ لائوڈ اسپیکر عام ہونے کے بعد مساجد سے اعلانات کا سلسلہ شروع ہوا۔

احمد علی ،گلستان جوہر میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ عمر کی 70 سے زائد بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ سابق ریاست حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے اور پاکستان آنے سے قبل تک ان کا خاندان وہیں مقیم رہا۔ ان کے مطابق ان کے علاقے گل برگہ میں بہت سے افراد رمضان میں محلّے کی مساجد میں جاکر افطار کرتے تھے۔ مساجد میں مختلف گھروں سے ایک ایک ہفتے تک افطاری آتی اور لوگ اپنے ساتھ بھی افطار کا سامان لے جاتے تھے۔ وہاں بہت مشہور قلعہ ہشّام تھا جس میں اونچے مقام پرتوپ نصب تھی۔ سحری کا وقت ختم ہونے اور افطار کا وقت شروع ہونے کے وقت وہ توپ داغی جاتی جس کی زوردار آواز بہت دور تک سنائی دیتی تھی۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان کے وقت تک چلتا رہا۔ پھر وہ پاکستان آکر1975ء تک حیدرآباد کالونی (کراچی) میں رہائش پذیر رہے۔ ان کے بہ قول وہ جب تک حیدرآباد کالونی میں رہائشی پذیر رہے وہاں سحری کے وقت جگانے کے لیے لوگ آتے تھے۔پھر وہ 2000ء تک گلشن اقبال کے علاقے میں رہائشی پذیر رہے۔ وہاں بھی 2005ء تک سحری میں جگانے والے آتے تھے ، لیکن پھرسکیورٹی کے معاملات کی وجہ سے یہ سلسلہ وہاں ختم ہوگیا تھا۔

گلشن اقبال میں رہائش پذیر انیس احمد، ر یٹا ئر ڈ سر کا ر ی افسر ہیں۔ وہ پہلے ، ملیر کے علاقے میں رہائشی پذیر تھے۔ وہ پرانے دور کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ملیر میں صرف ماڈل کالونی میں واقع صابری مسجد سے سحری کا وقت ختم ہونے سے تقریباً نصف گھنٹہ قبل یہ اعلان ہوتا تھا کہ سحری کا وقت شروع ہوچکا ہے اور سحری کے لیے اہتمام کرلیا جائے۔ اس زمانے میں ملیر میں آبادی بہت کم تھی، لہٰذا اس مسجد کے خطیب و امام مفتی غلام قادر صابری کشمیری مرحوم کی آواز بہت دور دور تک سنی جاتی تھی۔ ان کے مطابق ان کے گھر کے قریب واقع مسجد اقصیٰ، صابر کا لو نی سے سحری کے وقت پہلے اعلان نہیں ہوتا تھا۔لیکن بعد میں وہاں سے بھی سحری کا وقت شروع ہونے کے بارے میں لائوڈ اسپیکر پر لوگوں کو اطلاع دی جاتی تھی۔ دو تین برس تک انہوں نے اپنے محلّے کے دوستوں کے ساتھ مل کر جذبۂ خد مت کے تحت علاقے میں لوگوں کو سحری کے وقت جگایا۔ ان کے بھائی بھی اس کام میں ان کی معاونت کرتے تھے۔ پھر کچھ لوگ پیسوں کی لالچ میں آکر یہ کام کرنے لگے۔ ان میں سے کوئی ٹین اور کوئی ڈھول بجا کر لوگوں کو جگاتا۔ ان میں سے ایک شخص برس ہا برس تک سحری میں لوگوں کو جگانے کے لیے آتا رہا۔ اس کے ہاتھ میں اِک تارہ ہوتا ،وہ اسے بجاتا اور نعت پڑھتا جاتا تھا۔ اس کی آواز بہت اچھی تھی اور وہ ہر رمضان میں ایک ہی نعت پڑھتا تھا جس کا ایک شعر کچھ یوں ہے۔

مِری جان جل رہی ہے،آقا مدینے والے

اب تو مجھے بلالو، آقا مدینے والے

صابر کالونی میں واقع مسجد اقصیٰ میں ایک بزرگ افطار کے وقت کی اطلاع دینے کے لیے زور دار آواز والا پٹاخہ چھو ڑ تے تھے۔ سائرن عام ہونے کے بعد بھی وہ کئی برس تک یہ کام کرتے رہے۔

نفیسہ بیگم اِن دنوں ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی، کراچی میں مقیم ہیں۔ ان کے والد بھارت میں بڑے سرکاری عہدے پر فائز تھے۔ سرکاری فرائض کی انجام دہی کے لیے وہ غاز ی پور، اٹاوہ، لکھنئو اور دہلی میں بھی قیام پذیر رہے۔ نفیسہ بیگم نے بلند شہر میں آنکھ کھولی اور والد کے تبادلوں کی وجہ سے مذکورہ شہروں میں بھی رہیں۔ شادی ہونے کے بعد وہ دوتین برس تک شوہر کے ساتھ سیتا پور میں بھی رہیں اور پھر پاکستان آگئیں۔ انہوں نے مختلف علاقوں میں رمضان المبارک کے ایّام گزارے۔ ان کے مطابق لکھنئو میں انہوں نے سحری کے وقت لوگوں کو جگانے کے لیے آنے والوں کی آوازیں سنیں۔ وہ ڈھول بجاتے اور نعتیں بھی پڑھتےتھے۔ کراچی آنے کے بعد ان کا خاندان ابتداء میں سعید منزل کے قریب واقع فلیٹس میںرہا۔ وہاں بھی سحری میں لوگوں کو جگانے والے آتے۔ سحری اور افطار کے اوقات میں سائرن کی آوازیں بھی آتی تھیں۔ دہلی میں قیام کے دوران ان اوقات میں گولہ چھوڑے جانے کی آوازیں سنیں۔ شادی کے بعد وہ رمضان المبارک کے ایام میں والد سے ملنے دہلی گئیں تو وہاں سحری میں لوگوں کو جگانے کے لے آنے والوں کی آوازیں سنتی رہیں۔

رفیع احمد 1930ء میں مغل سرائے (بنارس) کے قریب واقع ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ ان کے مطابق اس گائوں میں مسلمان اقلیت میں تھے لہٰذا وہاں رمضان میں مسلمانوں کے محلّوں والا روایتی ماحول نہیں تھا۔ قیام پا کستا ن کے بعد ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آیا اور گورا قبرستان کے قر یب ایلومینیم کوارٹرزمیں رہائش پذیر ہوا۔ اس زمانے میں گھر وں میں کام کرنے والی ماسیوں کے بچّے یا شوہر ٹین کے ڈبّے لے کر سحری کے وقت لوگوں کو جگانے کے لیے آتے تھے۔پھر وہ ڈرگ کالونی اور وہاں سے گلشن اقبال منتقل ہوئے۔ اس سفر میں انہوں نے مذکورہ علاقوں میں بھی سحری میں جگانے کے لیے آنے والوں کو دیکھا۔

عاجز شفیع سرکاری اسکول کے صدر مدرّس رہ چکے اور زندگی کی 80 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ انہوں نے اجمیر شریف (بھارت) میں آنکھ کھولی۔ ان کے مطابق وہاں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ کے قریب ایک تو پ نصب تھی جو سحری کا وقت شروع اور ختم ہونے کے وقت داغی جاتی۔ اس کے بعد مسجد سے فجر کی اذان ہوتی تھی۔ ا گر چہ اذان کے لیے اس زمانے میں لائوڈاسپیکر مستعمل نہیں تھا ، لیکن مؤذن کی آواز گھروں تک پہنچ جاتی تھی۔ افطارکے و قت بھی توپ داغ کر لوگوں کو اطلاع دی جاتی۔ان کے مطا بق توپ داغنےسے قبل اس میں بارود بھرنے اور پھر اسے آگ لگانے کا منظر انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ ان کے محلّے میں لوگ گھر کی چھت پر بیٹھ کر افطار کرتے تھے۔ سحری میں سائیکل پر اور پیدل لوگ جگانے کے لیے آ تے۔ ان کے پاس چھوٹے ڈھول اور دف ہوتے تھے۔ اجمیر شریف سے ہجرت کرکے وہ حیدرآباد سندھ آئے تو و ہا ں بھی انہوں نے سحری میں جگانے کے لیے آنے والوں کی آوازیں سنیں۔ ان دنوں وہ شرف آباد (کراچی) میں مقیم ہیں اور ان کے بہ قول اس علاقے میں بھی یہ سلسلہ کافی عرصے تک قائم رہا۔ تاہم اب بہت سے افراد سحری اور افطار کے اوقات میں ریڈیو اور ٹی وی سے مدد لیتے ہیں۔

ماڈل کالونی کی شیٹ نمبر ایک میں رہائش پذیر محمد اسلم صدیقی ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں۔ ان کے والدین قیام پاکستان کے وقت ہجرت کر کے کراچی آئے۔ اس وقت سے ان کا خاندان اسی گھر میں مقیم ہے۔ وہ لڑکپن کے زمانے میں سحری کے وقت گھر سے باہر نکل کر دوست احباب سے ضرور ملتے اور خوش ہوتے تھے۔ کبھی کبھار وہ دوستوں کو جگانے کے لیے ان کے گھر بھی جاتے تھے۔ پھر یہ ان کی عادت بن گئی۔ وہ دس پندرہ برس کی عمر سے باقاعدگی سے محلّے والوں کو سحری کے وقت جگانے لگے۔ انہیں فی سبیل اللہ یہ کام کرتے ہوئےچالیس برس سے زاید ہو چکے ہیں۔ وہ رمضان میں علی الصباح ساڑھے تین بجے لوگوں کو جگانے کے لیے گھر سے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور چار بجے واپس گھر پہنچ جاتے ہیں ۔ اس دوران ان کے ہاتھ میں چھوٹی سی چھڑی ہوتی ہے جس کی مدد سے وہ کسی محلّے دار کا دروازہ کھٹکھٹاتے اور کہیں صرف آواز لگا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ وہ وقت مقررہ پر بے دار ہونے کے لیے سرہانے تیز آواز میں الارم بجانے والی گھڑی رکھ سوتے ہیں۔ سردی ہو یا گرمی ان کے معمول میں کوئی فرق نہیں آتا۔ ان کے بہ قول لوگوں کو جگانے کے دوران ان کے ساتھ کبھی کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ ان کے خاندان میں کبھی کسی نے یہ کام نہیں کیا، لیکن جب انہوں نے اس کارِخیر کا آغاز کیا تو کسی نے انہیں نہیں روکا۔

عالم خاں 65 برس کی عمر کو پہنچ چکے تھے جب ان سے ہماری ملاقات ہوئی ۔اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ گڈاپ ٹائون کی حدود میں واقع برو گوٹھ میں رہتے تھے ۔ ا نہوں نے بیس برس سے زاید عرصے تک اپنے اور اردگرد کے گوٹھوں میں لوگوں کو سحری کے وقت جگانے کا کام کیا۔ یہ ان کاپشتینی کام تھا۔پہلے وہ بڑے بھائی کے ساتھ یہ کام کرتے تھے۔ اب ان کا بیٹا اور بھتیجایہ کام کرتاہے۔ انہوں نے بڑے بھائی کے انتقال کے بعد والد کی ہدایت پر نیکی کے جذ بے کے تحت یہ سلسلہ جاری رکھا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ تر ا و یح پڑھنے کے بعد سو جاتے اور پھر دو، ڈھائی بجے شب اٹھ کر پہلے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دُر محمد گوٹھ جاتے، وہاں لوگوں کو جگانے کے بعد وہ حاجی مراد گوٹھ کا رخ کرتے ، اور تقریباً ساڑھے تین بجے برو گوٹھ واپس جاتے تھے۔ یہ سفر وہ سائیکل پر کرتے تھے۔ وہ لوگوں کو بے دار کرنے کے لیے کسی زمانے میں سائیکل پر لگایا جانے والا وہ باجا استعمال کرتے جس کے پیچھے لگا ہوا ربر دبانے سے آواز پیدا ہوتی ہے، لیکن وہ اسے منہ سے بجاتےتھے۔ اس باجے کو بلوچی زبان میں ’’ تُترُو ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ بلوچی زبان میں وہ آواز لگاتے : ’’ اُٹھو روزے دارو ! سحری کا وقت ہو گیا ہے۔ اُٹھو مسلمانوں ! روزہ رکھو ‘‘۔ وہ گھروں کے دروازے بھی کھٹکھٹاتے اور جب تک اس گھر کے مکینوں کی جانب سے بے دار ہو جانے کا اشارہ نہیں ملتا وہ آگے نہیں بڑھتےتھے۔

ابتدائی پانچ سات روزوں تک انہیں اس کام میں مشکل محسوس ہوتی تھی، لیکن اس کے بعد وہ اور لوگ عادی ہو جاتے اور عموماً ان کی ایک آواز پر بے دار ہو جاتے تھے۔ عیدالفطر کے روز فجر کی نماز ادا کر کے وہ پہلے دُر محمد گوٹھ اور پھر باقی دو گوٹھوں میں واقع گھروں پر جاتے اور ’’ تُترُو ‘‘ بجا کر لوگوں کو اپنے آنے کی اطلاع دیتے ہیں۔ پھر کوئی انہیں 5 تو کوئی 100 روپے دیتا جسے وہ خوشی سے قبول کر لیتےتھے۔ کسی گھر سے انہیں کچھ نہیں ملتا۔ اس طرح مجموعی طور پر انہیں 1000 تا 1200 روپے مل جاتےتھے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت محنت اور ذمّے داری کا کام ہے۔ ان کا کوئی بچّہ اس کام میں دل چسپی نہیں رکھتا تھا۔ تاہم والد کے انتقال کے بعد ان کے لڑکے کو والدہ نے نیکی کے جذبے کے تحت والد کی روایت کو آگے بڑھانے کی ہدایت کی تو اب وہ یہ کام کرتا ہے۔

اب وہ جگانے والے کہاں

برو گوٹھ ہی میں رہائش پذیر 35 سالہ مولا بخش بھی سحری میں لوگوں کو جگاتے ہیں۔ وہ 15 برس کی عمر سے یہ کام کر رہے ہیں۔ ان کا ذریعۂ معاش چوکی داری ہے۔ وہ برو گوٹھ اور ملیر پیراڈائز نامی بستی میں سحری میں لوگوں کو بے دار کرنے جاتے ہیں۔ یہ ذمے داری ادا کرنے کے لیے وہ رمضان میں رات کے وقت اس خطرے کے پیش نظر سوتے نہیں کہ کہیں وہ سوتے ہی نہ رہ جائیں اور لوگوں کو وقتِ مقرّرہ پر سحری میں بے دار نہ کر سکیں۔ وہ اس کام کے لیےپیدل دوبجے شب روانہ ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں مخصوص باجا ’’ تُترُو ‘‘ ہوتا ہے جسے وہ بھی عالم خاں کی طرح منہ سے بجاتے ہیں۔ پہلے وہ ملیر پیراڈائز نامی بستی میں واقع آخری گھر کے مکینوں کو جگا تے ہیں، پھر دیگر گھروں سے ہوتے ہوئے اپنے گوٹھ آکر لو گو ں کو بے دار کرتے ہیں۔ جب تک گھر کے مکینوں کے بے دار ہونے کا اشارہ نہ ملے وہ آگے نہیں بڑھتے۔ وہ تقریباً ڈھائی بجے پہلے گھر کے مکینوں کے کو بے دار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق 90 فی صد بلوچ گھرانوں میں سحری کے لیے تازہ تازہ روٹیاں اور سالن استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا پہلے خواتین بے دار ہوتی ہیں اور روٹی، سالن وغیرہ تیار کرنے کے بعد خاندان کے دیگر افراد کو بے دار کرتی ہیں۔ وہ عید کے روز نمازِ فجر ادا کر کے ان تمام گھروں پر جاتے ہیں جن کے مکینوں کو انہوں نے سحری میں بے دار کرنے کا کام کیا ہوتا ہے۔ انہیں جو کچھ پیش کیا جاتا ہے وہ اسے بہ خوشی قبول کر لیتے ہیں۔

مولا بخش کے مطابق یہ خدمت وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ لہٰذا کبھی یہ خدمت انجام دیتے ہوئے ان کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا اور نہ انہوں نے کبھی کسی قسم کا خوف محسوس کیا۔ وہ مالی طور پر آسودہ حال نہ ہونے کے باوجود اس برس بھی یہ خدمت انجام دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ وہ سرکاری ملازم ہیں اور چوں کہ رمضان المبارک میں انہیں سونے کے لیے کم وقت ملتا ہے، لہذا وہ شدید تھکن کا شکار رہتے ہیں۔ان کے بہ قول وہ اپنے بزرگوں کا حکم پورا کرتے ہیں۔ لیکن ان کے بعد ان کے خا ندان کا کوئی فرد شاید یہ کام نہ کرے۔ کچھ عرصہ قبل ر مضا ن المبارک میں ان کے بیمار ہو جانے پر ان کے خا ند ا ن کے ایک، دو نوجوانوں نے چند یوم تک لوگوں کو سحری میں بے د ا ر کرنے کی ذمے داری نبھائی تھی۔تاہم اس کے بعد انہوں نے معذرت کر لی تھی۔

حیدرآباد دکّن میں سحری کے وقت جگانے والے آتے، جو بہت خوب صورت اشعار پڑھتے تھے، فاطمہ ثریّا بجیامرحومہ

اردو کی ممتاز ادیبہ اور ڈراما نگار ،فاطمہ ثریّا بجیا،مرحومہ کا خاندان،مشرقی تہذیب و ثقافت کا چلتا پھرتا نمونہ ہے۔بجیا نے حیدرآباد دکّن کے ایک ممتاز گھرانے میں آنکھ کھولی تھی ۔ ان کے پاس بہت حسین تہذیبی یادوں کا ذخیرہ تھا۔ایک مر تبہ ان سے رمضان المبارک کے ضمن میں پرانی روایات پر گفتگو کا موقع ملا تو انہوں نے حیدرآباد دکّن کے حوالے سے سحری اور افطار کے اوقات کی سرگرمیوں کا بہت خوب صورت الفاظ میں نقشہ کھینچا تھا۔ان کا کہنا تھا:’’حیدرآباد دکّن میں ر مضان المبارک میں سحری اور افطار کے لیے بہت ا ہتما م کیا جاتا تھا۔وہاں گزارے ہوئے رمضان المبارک کے ایّام کی یادیں بہت خوب صور ت ہیں۔ رمضان کے دنوں میں پیتل اور تانبے کی بڑی بڑی تھالیاں خوب مانجھ کر صاف کی جاتی تھیں جن میں محلّے کی مساجد میں افطاری بھیجی جاتی۔ گھر میں ایک عجیب سماں ہوتا تھا۔ سحری میں جگانے والے آتےجو بہت خوب صورت اشعار پڑھتے اور آوازیں لگاتے، مثلاً آیا رمضان ، منائو خوشی، دوستوٖ! اٹھو نمازیں پڑھو۔‘‘ کوئی آواز لگاتا! اُٹھو! بھائی بہنو! ’’اُٹھو محلّے والو! اللہ کی رحمت کا مہینہ آگیا، غریبوں کو یاد رکھو۔ آئو سحری کریں، کل ان شاء اللہ ا فطا ر کریں گے۔ میرے نانا اوّل تعلقہ دار تھے۔ انہیں سرکار کی جانب سے گھر پر خدمت کے لیے 22نوکر ملے ہوئے تھے اور اتنے ہی انہوں نے گھرپر نجی نوکر رکھے ہوئے تھے۔ دیگر ایّام میں سرکاری نوکر سہ پہر چار بجے گھر چلے جاتے ، لیکن رمضان المبارک میں تمام نوکر ہمارے گھر پر افطار کرنے کے بعد گھر جاتے تھے۔ اس زمانے میں ایک ر وپے کے عوض 16کلو آٹا ملتا تھا۔ وہ بہت سستا دور تھا۔ افطار اور سحری کے وقت خوب اہتمام ہوتا۔ رمضان المبارک میں گھر میں بہت گہماگہمی ہوتی اور ہمارے بعض عزیز، بزرگوں کے دو ست احباب اور جاننے والے ہمارے گھر پر اکثر افطار کر تے۔ ان میں بعض ہندو اور انگریز بھی ہوتے۔ سحری کا وقت ختم ہونے پر وہاں توپ داغی جاتی تھی‘‘۔

بجیا کا کہنا تھا:’’قیام پاکستان کے بعد کراچی آکر پیر کالونی میں آٹھ برس تک ہمارا خاندان مقیم رہا۔ وہاں بھی سحری میں جگانے والے آتے تھے۔ سحری کے وقت بہت اچھی اچھی آوازیں سننے کو ملتی تھیں۔ حیدرآباد دکّن میں عیدالفطر کے روز راجپوتانے سے خواتین آتیں اور گلیوں میں ہارمونیم کے ساتھ گانے گاتی تھیں۔ وہ جو کلام سناتی تھیں ان میں سے ایک کلام کا ایک مصرعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے، جو کچھ یوں ہے:’’ وہ چلے جھٹک کے دامن ، میرے دستِ ناتواں سے‘‘… اب وہ دور الف لیلیٰ کی داستان کی طرح لگتا ہے۔پاکستان آنے کے آٹھ، دس برس بعد ر مضا ن المبارک میں سحری اور افطار کے اوقات میں سائرن کی آوازیں سنیں‘‘۔

سحری میں جگانے کے لیے آنے والوں کو مراد آباد کی طرح کراچی میں بھی دیکھا، شکیل عادل زادہ ، ممتاز ادیب

’’میں نے مراد آباد (بھارت) میں آنکھ کھولی۔ ہمارے محلّے میں گلیاں اور گھر قریب قریب تھے۔ وہاں رمضان میں رات کے وقت لوگ سحری میں اٹھنے کے لیے ذہنی طور پر تیّار رہتےتھے۔ ان ایّام میں لوگوں کی نیند کچّی، پکّی ہوتی تھی۔ پھر بھی وہاں سحری میں لوگ جگانے کے لیے آتے ۔ وہ کچھ اس طرح کی آواز لگاتے: ’’جاگتے رہو! سحری کا وقت ہوگیا ہے‘‘۔ کبھی وہ دروازے کی کنڈی بھی بجادیتے ۔ وہاں سحری کا وقت ختم اور افطار کا وقت شروع ہونے پر سائرن بھی بجتا تھا۔ موسم گرما میں لوگ آسمان کی طرف دیکھ کر بھی وقت کا اندازہ لگاتےتھے۔ اس وقت تک لائوڈاسپیکر عام نہیں ہوا تھا، لہٰذا محلّے کی مسجد کا مؤذن بلند جگہ پر کھڑے ہوکر اذان دیتاجو گھر و ں میں سنائی دیتی تھی۔ ہر صاحبِ حیثیت کے گھر سے مسجد میں افطاری بھیجی جاتی تھی۔ وہاں مختلف گھروں سے ایک ایک ہفتے تک مدرسے کے طلباء کے لیے کھانا بھجوانے کا بھی رواج تھا۔ 

اب وہ جگانے والے کہاں

لوگ پڑوسیوں، رشتے دارں اور جاننے والوں کے گھروں میں افطاری بھجواتے۔ وہاں سحری اور افطار کے وقت توپ داغے جانے کی آواز میں نے کبھی نہیں سنی۔مراد آباد سے ہجرت کرکے 1952ء میں کراچی آکر کھارادر میں قیام پذیر ہوئے تو یہاں بھی سحری میں جگانے والے آتے تھے۔ وہ ڈھول بجاتے یا نعتیں پڑھتے ۔ وہاں سے شمالی ناظم آباد منتقل ہوئے تو وہاں بھی ایسا ہی دیکھا۔ کراچی میں 1960ء۔ 1961ء میں لائوڈاسپیکر کا استعمال عام ہوا تومساجد سے ان اوقات میں اعلانات ہوتے سُنا۔ سا ئرن یہاں بھی بجتا ہواسُنا۔ اس زمانے میں افطار کے وقت گلی محلوں میں سناٹا چھا جاتا تھا۔ گھروں میں دیوار گیر گھڑیاں اور ٹائم پیس ہوا کرتے ، لیکن کلائی کی گھڑیاں بہت کم تھیں۔ البتہ جیبی گھڑیاں بعض افراد کے پاس ہوتی تھیں۔ ریڈیو خال خال کسی گھر میں ہوتا تھا۔ کلائی کی گھڑیاں 1970ء کے قریب عام ہوئیں۔ سائنسی ترقی کے باعث بہت سی روایات دم توڑ چکی ہیں‘‘۔

تاریخی اور ثقافتی حوالوں کے مطابق سحری اور افطار کے اوقات کی اطلاع دینے کا نظام اسلامی معاشروں میںضرورت کے مطابق بنا۔ ابتدائی دور میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی تو اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ پھر جوں جوں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا معاشرتی ضرورت کے تحت یہ نظام آگے بڑھتا گیا اور مختلف معاشروں میں اس کی مختلف صورتیں سامنے آتی گئیں۔ نت نئی ایجادات نے یہ معاملہ آگے بڑھایا۔

بعض بز ر گو ں کے مطابق کسی زمانے میں سحری کے وقت محلّوں جگانےکےلیےلوگ نہیںآتےتھے،بلکہ محلّےمیںجو پہلےبے دار ہوجاتا، وہ دوچار گھروں پر جاکر مکینوں کو جگا د یتا۔ کہیںسحری کاوقت ختم اور افطار کا وقت شروع ہونے کی اطلاع دینے کے لیے گولہ چھوڑا جاتا یا توپ داغی جاتی تو کہیں نقّارے بجا کر لوگوں کو اطلاع دی جاتی تھی۔ پھر جگانے والے اورسائرن آگئے۔سائنس نے مزید ترقّی کی تو ریڈیو ، ٹی وی اور موبائل فون نے ان کی ضرورت بہت حد تک ختم کردی۔ 

تازہ ترین