• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ایوان اقتدار کے اصلی اور ’وڈے‘ سمجھتے ہیں کہ معاشی ترقی کے لئے جمہوری نظام کا چلنا لازم نہیں ہے۔ غالباً ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر دنیا میں تیز ترین معاشی ترقی کرنے والے ملک چین نے اپنے مقاصد غیر جمہوری نظام میں حاصل کئے ہیں تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کرسکتا۔ اس سلسلے میں میڈیا اور سوشل ویب سائٹوں پر بھی اس طرح کی تحریریں سامنے آئی ہیں جن میں چین کے ترقیاتی ماڈل کی مثال دی گئی ہے۔ یہ حقیقت تو اپنی جگہ پر ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کی گرفت میں رہتے ہوئے بھی چین نے پچھلے تیس چالیس برسوں میں جو ترقی کی ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ چین اور پاکستان کی صورت حال میں بہت بنیادی فرق ہے اور بہت سی مماثلتوں کے باوجود دونوں نظاموں میں کوئی قدر مشترک ناپید ہے۔
چین میں ہر ادارہ کمیونسٹ پارٹی کے زیر تحت کام کرتا ہے اور کسی کو بھی پارٹی کی منظور شدہ حدوں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ غالباً اسی ماڈل کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان میں طاقت کا کنٹرول مرتکز ہو رہا ہے۔ چین اور پاکستان کو متوازی نظام سمجھنے والے دلیل دے سکتے ہیں کہ دونوں ریاستیں نظریاتی ہیں، دونوں میں منڈی کا نظام ہے اور دونوں میں بالواسطہ یا بلا واسطہ اقلیتوں پر حدود و قیود قائم ہیں۔ اسی طرح اور بھی کئی مماثلتیں ڈھونڈی جا سکتی ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان بھی نظریاتی ریاست ہوتے ہوئے چین کی طرح ترقی کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں چین کی طرح بد عنوانیوں کا خاتمہ کرکے ترقی کے راستے پر گامزن ہوا جا سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ چین اور پاکستان کا نظام ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ دونوں کی نظریاتی اساس ایک دوسرے سے متحارب اصولوں پر قائم ہے۔ اگرچہ چین نے جب بیسویں صدی کے روایتی سوشلزم سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے منڈیوں کا نظام اختیار کیا تو اس سے یہ تاثر ابھرا کہ چین نے دنیا کے باقی سرمایہ دار ملکوں کا راستہ اپنا لیا ہے۔ لیکن چین کی کمیونسٹ پارٹی اس دعوے پر قائم رہی کہ وہ مارکسزم کے راستے پر ہی چل رہی ہے۔ ابھی چند ہفتے پہلے جب کارل مارکس کی دو سویں سالگرہ منائی جا رہی تھی تو نہ صرف چین نے ان کے پیدائشی قصبے میں ان کا مجسمہ نصب کیا بلکہ اس موقع پر صدر ژی جن پنگ نے مارکس اور اینگلز کے کمیونسٹ مینی فسٹو کو اجتماعی سطح پر پڑھنا لازم قرار دیا۔ غالباً چینی کمیونسٹ پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ چین کی صنعتی ترقی کے بغیر سوشلزم کی منزل تک نہیں پہنچا جا سکتا اور صنعتی ترقی کے لئے سرمایہ داری کے کچھ اداروں کو نظام میں داخل کرنا پڑے گا۔ لیکن پارٹی اور اس کے رہنما یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مارکسزم کا یہ اصول اولین حیثیت رکھتا ہے کہ تمام تبدیلیوں کی بنیاد مادی ذرائع کی تبدیلی میں پنہاں ہے۔
چینی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد مارکسی فلسفے پر استوار ہوئی تھی جس کی تشریح ماوزے تنگ نے چینی حالات کے مطابق کی۔ اس نظریے کو اپناتے ہوئے چین میں جاگیرادری کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ جاگیرداری کلچر کی باقیات کو ختم کرنے کے لئے بہت ہی متشدد قسم کا ثقافتی انقلاب برپا کیا گیا۔ اس ثقافتی انقلاب میں انتہائی نوعیت کے منفی رجحانات بھی سامنے آئے لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کے باوجود ماؤزے تنگ کی تعظیم قائم رہی۔ اسی کی دہائی تک آتے آتے چین جاگیرداری کے شکنجے سے ہر طرح سے آزاد ہو چکا تھا، عوام میں تعلیم کا نظام ہر سطح پر رائج ہو چکا تھا اور عوام میں صلاحیتوں کی سطح بہت بلند ہو چکی تھی۔ غرض یہ کہ چین ہر طرح سے صنعتی انقلاب کے لئے تیار تھا اور اس کے عوام میں جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کی صلاحیت موجود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ چین تین چار دہائیوں میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے۔
اس کے برخلاف پاکستان میں جاگیرداری نظام مضبوطی سے قائم رہا اور نظریاتی سطح پر مذہبی اصولوں کو مقدم بنانے کی کوششیں بڑھتی گئیں۔ اگر مارکسزم کی بنیاد پر چین مادی تبدیلیوں کو رہنما اصول کے طور پر اپناتا رہا تو پاکستان میں مذہبی اساس پر روحانی نظام کی ترویج دی گئی۔ اگر چین کے نظریات اس مادی دنیا کو تبدیل کرنے پر بنائے گئے ہیں تو پاکستان کے مذہبی فلسفے میں آخرت بہتر بنانے کو ترجیح دی گئی ہے۔ چین میں سیاسی مرکزیت اور کنٹرول کو چھوڑ کرسماجی اور انفرادی سطح پر ہر قسم کی آزادی ہے جبکہ پاکستان میں مذہبی نظام کے تحت سماجی اور انفرادی زندگی کو ایک مخصوص ڈھانچے میں ڈھالنے کا عمل جاری ہے۔ چین میں سیاسی بیانیے پر کنٹرول کے علاوہ معاشرہ ہر پہلو سے مغربی اقدار کو اپنا چکا ہے اور ذاتی زندگی میں کسی طرح کی قدغنیں نہیں ہیںجبکہ پاکستان میں اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ شاید پاکستان میں بھی عوامی سطح پر سرمایہ دار معاشروں کی اقدار آہستہ آہستہ اپنی جڑیں لگا چکی ہیں لیکن ریاست ان کی بیخ کنی کرنے والے نظریات کو بڑھاوا دے رہی ہے۔
اگر بغور دیکھا جائے تو چین اور پاکستان کی نظریاتی بنیادیں ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ چین اپنے مکتب فکر کے سیاق و سباق میں شاید یہ سمجھ رہا ہے کہ جب پاکستان کی مادی بنیادیں تبدیل ہو جائیں گی تو اس کی نظریاتی ساخت بھی بدل جائے گی۔ اسی لئے وہ سی پیک کے ذریعے سے پاکستان میں معاشی ترقی کو تیز تر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی کچھ طاقتیں یہ سمجھ رہی ہیں کہ وہ مذہبی روایت پرستی کو ڈھال بنا کر سیاسی مرکزیت پیدا کر سکتی ہیں اور معاشی ترقی خود بخود ہوتی جائے گی۔ مختلف اطراف سے آنے والی رپورٹوں کے مطابق چینی پاکستان کے بارے میں اب بہت زیادہ پر امید نہیں ہیںکیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان مذہبی انتہا پسندی کو روکنے کی مناسب کوششیں نہیں کر رہا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چین پاکستان میں بنیادی تبدیلی کے لئے کتنی دیر انتظار کر سکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین