کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان نگراں وزیراعظم پر اتفاق ہوتا نظر آرہا ، دوسری طرف ن لیگ اور تحریک انصاف نے نگراں وزیراعظم کیلئے جو نام تجویز کیے ہیں وہ قریب ترین نظر آتے ہیں، معاملہ اگر پارلیمانی کمیٹی میں گیا تو کیا یہ ممکن ہے کہ ن لیگ اور تحریک انصاف ایک ساتھ نام پروپوز کردیں، منگل کو تحریک انصاف کے کور گروپ کا اجلاس دو سینئر رہنماؤں کی تلخ کلامی کا شکار ہوگیا، ذرائع کے مطابق اجلاس میں جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے درمیان مختلف پارٹی امور پر شدید تلخ کلامی ہوئی، دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے اور طعنے بھی دیئے، دونوں رہنماؤں کے درمیان تلخ کلامی کی وجہ تحریک انصاف کے سابق ایم این اے رائے حسن نواز بنے، شاہ محمود قریشی نے رائے حسن نواز کے پارٹی عہدہ رکھنے پر اعتراض کیا، رائے حسن نواز اثاثے چھپانے کے الزام میں سپریم کورٹ سے نااہل ہوچکے ہیں، رائے حسن نواز کی نااہلی کو شاہ محمود قریشی زیربحث لائے، شاہ محمود قریشی نے رائے حسن نواز کے پارٹی اجلاسوں میں شرکت پر بھی اعتراض کیا، شاہ محمود قریشی کے اعتراض پر جہانگیر ترین بول پڑے،شاہ محمود قریشی بار بار یہ بات کررہے تھے کہ کیونکہ رائے حسن نواز نااہل ہیں اس لئے ان کا پارٹی کی نمائندگی کرنا نہیں بنتا ہے، جہانگیر ترین اس اعتراض پر بول اٹھے اور کہا شاہ صاحب آپ کا اشارہ میری طرف ہے، ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین نے شاہ محمود قریشی کو طعنہ دیا کہ آپ کو صوبہ سندھ دیا گیا دو سال میں آپ نے وہاں پارٹی کو ڈبودیا، جہانگیر ترین نے شاہ محمود قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ سارے جنوبی پنجاب پر انہوں نے کام کیا، آپ تو کسی پارٹی رکن کو منہ نہیں لگاتے، جہانگیر ترین نے اس تلخ کلامی کے دوران کہا کہ انہوں نے پارٹی پر خرچ کیا ہے، انہوں نے شاہ محمود قریشی سے کہا کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے لوگوں کو میں لے کر آیا اور کریڈٹ آپ لے رہے ہیں، جہانگیر ترین نے یہ تک کہہ دیا کہ اگر شاہ محمود قریشی کا یہی رویہ رہا تو ان کی وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی، جہانگیر ترین نے مزید کہا کہ انہیں اپنے مستقبل کا معلوم نہیں وہ عمران خان کو وزیراعظم بنوا کر گھر چلے جائیں گے، شاہ محمود قریشی نے جہانگیر ترین کو جواب دیا کہ وہ ایسے لوگوں کو پارٹی میں لارہے ہیں جس سے پارٹی کا امیج خراب ہورہا ہے، وہ سیاسی طور پر داغدار لوگ پارٹی میں لارہے ہیں، آپ نے رائے حسن نواز کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا نہیں پڑھا، عمران خان نے دونوں رہنماؤں کے درمیان تکرار ختم کروانے کی کوشش کی مگر یہ معاملہ بڑھتا گیا، شاہ محمود قریشی نے علیم خان سے متعلق بھی اعتراض اٹھایا کہ پارٹی میں لوگوں کو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ علیم خان کس طرح پارٹی ٹکٹ کا معاملہ دیکھ رہے ہوں گے کیونکہ علیم خان کے اپنے کردار پر بہت زیادہ سوالات اٹھ رہے ہیں، اس کے بعد عمران خان نے تقریر میں جہانگیر ترین کے پارٹی کیلئے کردار اور کنٹری بیوشن کی تعریف کی۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے درمیان اختلافات کی خبریں پہلے بھی سامنے آتی رہی ہیں، 2016ء میں انٹراپارٹی انتخابات سے پہلے بھی دونوں رہنماؤں کے اختلافات سامنے آئے تھے اور واضح طور پر دو دھڑے بن گئے تھے، اس وقت شاہ محمود قریشی نے نام لیے بغیر جہانگیر ترین اور چوہدری سرور پرتنقید کی تھی، آج سے پہلے جس نے بھی جہانگیر ترین سے اختلاف کیا وہ پارٹی میں سائڈ لائن ہوگیا ہے، یہاں تک کہ جہانگیر ترین کا گروپ ہارنے والا تھا تو عمران خان نے انٹراپارٹی الیکشن ہی ملتوی کردیئے تھے۔پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کور کمیٹی اجلاس میں ہونے والی چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بنادیا گیاہے، اجلاس میں ایسا کچھ نہیں ہوا نہ ہی جہانگیر ترین میٹنگ چھوڑ کر گئے، زیادہ سے زیادہ 85سیکنڈ کی بات ہوئی جو رائے حسن نواز سے متعلق تھی، شاہ محمود قریشی نے رائے حسن نواز سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے پر توجہ دلائی تھی، اس پر جہانگیر ترین نے کہا کہ اگر آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ مجھے بھی نہیں بیٹھنا چاہئے تو میں بھی نہیں بیٹھوں گا، مگر شاہ محمود قریشی سمیت تمام لوگوں نے کہا آپ پارٹی کے معتبر رہنما ہیں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ ایڈوائزری رول سے پیچھے ہٹیں، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی بچپن کی دوستی ہے۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ علیم خان پر پارٹی میں اعتراض نہیں ہے، علیم خان سے متعلق اجلا س میں کوئی بات نہیں ہوئی، ہر پارٹی میں پارٹی پالیٹکس ہوتی ہے لیکن پارٹی میں کوئی بڑی لڑائی نہیں ہے، ہر جماعت میں مختلف گروپس ہوتے ہیں جو اپنے لوگوں کو آگے لے کر چلتے ہیں، شاہ محمود قریشی او ر جہانگیر ترین کے درمیان نہ جنوبی پنجاب اور نہ ہی سندھ سے متعلق کوئی بات ہوئی، جس طرح پارٹی اجلاس کی کہانی بیان کی جارہی ہے اس کی مکمل تردید کرتا ہوں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ سیاستدانوں کو اتنا میچور ہونا چاہئے کہ نگران وزیراعظم کیلئے ایک نام پر اتفاق کرلیں، پیپلز پارٹی نے نگران وزیراعظم کیلئے دلچسپ نام دیئے ہیں، سلیم عباس جیلانی، تصدق حسین جیلانی اور سلیم عباس جیلانی تینوں فرسٹ کزن ہیں، مجھے نہیں پتا پیپلز پارٹی کو تصدق حسین جیلانی سے کیا پرابلم ہے، جسٹس تصدق حسین جیلانی بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان ریٹائر ہوئے اس لئے ان کا قدوقامت باقی صاحبان سے بڑا ہے، باقی دونوں صاحبان بھی ذاتی حیثیت میں ہمارے لئے محترم ہیں، پیپلز پارٹی اس معاملہ میں کردار معاملات خراب کرنے کا ہے، جب ن لیگ اور پی ٹی آئی کی طرف سے مشترکہ نام آرہے ہیں تو اچھی بات ہے، پیپلز پارٹی کو کھیل کے قواعد کے مطابق آگے بڑھنا چاہئے، خورشید شاہ اب شاہ محمود قریشی کو نگران وزیراعظم کے نام پر اعتماد میں نہیں لے رہے ہیں، میری رائے میں نگران وزیراعظم کیلئے نام پر اتفاق ہوجائے گا ، آئندہ نگراں حکومت کا طریقہ کار ختم کردیں گے، الیکشن کمیشن کو اتنا مضبوط ہونا چاہئے کہ نگراں حکومت کے بغیر شفاف انتخابات کرواسکے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان نے تصدق حسین جیلانی پر کبھی اعتراض نہیں کیا تھا، تصد ق حسین جیلانی نے اس سے پہلے ہی معذرت کرلی تھی، نگراں وزیراعظم کیلئے نام خفیہ نہیں رکھنا چاہئے میڈیا کا حق ہے اس پر بات کرسکے۔نمائندہ خصوصی زاہد گشکوری کی گفتگو نمائندہ خصوصی زاہد گشکوری نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کور کمیٹی اجلاس میں جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے درمیان سنجیدہ اختلافات سامنے آئے ہیں، جہانگیر ترین نے شاہ محمود قریشی کو کہا کہ میرا شاید پارٹی اور سیاست میں کوئی مستقبل نہ ہو ،میں عمران خان کا وفادار ہوں اور پارٹی کیلئے کام کررہا ہوں لیکن آپ کا لوگوں کے ساتھ جو رویہ ہے اس سے نہیں لگتا ہے کہ پارٹی انتخابات جیت کر حکومت بناسکے گی، جہانگیر ترین آخر میں کمیٹی کی میٹنگ سے چلے گئے تھے، اجلاس کے دوران عمران خان اور دیگر سینئر رہنماؤں نے دونوں کی تکرار ختم کروائی۔