• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صوفی ازم امن کا پیغامبر ہے

ڈاکٹر عالیہ امام

صوفی ازم صدیوں کے انسانی جدوجہد کے معجزوں کا عطر ہے، یہ امن کی معطر وادی ، فکر کی جگمگاہٹ ، ذہن کی پاکیزگی کا دوسرا نام ہے، سندھ کی تہذیب و ثقافت ہی عالمی کلچر کاحصہ ہے، جس پر صوفی ازم کی گہری چھاپ ہے، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی، حضرت سچل سرمست، لعل شہباز قلندر صوفی بزرگ شاعر ہیں، جن کا سینہ کشادہ ، سخن دلنواز ہیں۔

صوفی ازم دراصل قرون وسطی میں کاشت کاروں اور محنت کشوں کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف انقلابی تحریک تھی، حکمرانوں نے انقلاب کے شعلوں کو دبانے کی بہت کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔

گزشتہ دنوں محکمۂ ثقافت کی جا نب سے صوفی ازم کو فروغ دینے کے لیےدو روزہ ’’بین الاقوامی صوفی کانفرنس ‘‘کا انعقاد کیا گیا،جس کے اجلاس کی صدارت پاکستان پیپلز پارٹی ممتاز رہنما فریال تالپور نے کی، ان کی پختگی نظر اور شعلہ بیانی نے مختلف ممالک سے آئے ہوئے اسکالرز سے اپنے حسن تخیل کا خراج وصول کیا، امریکا، لندن، ترکی، اٹلی، جرمنی ، سوئٹزرلینڈ کے دانش وروں نے صوفی ازم کے مختلف پہلوئوں پر بھرپور انداز سے روشنی ڈالی، چاروں صوبوں کے ادیبوں اور دانش وروں نے صوفیاءکے کلام کے نمونے پیش کیے اور نوجوان شرکا سے داد وتحسین وصول کی،سندھ کے پور پور میں موسیقی کی انگوٹھیاں ہوئی ہیں، فیسٹیول نے خیالوں کے مختلف روپ ،رقص وموسیقی کے انداز میں دکھائے، تالیوں کی بارش نے قدر شناسی کا دفتر کھول دیا، سوکھی ہوئی زمین پر بارش کی پھوار نے شرکاء کو سیراب کردیا۔

اس تاریخ اور عہد ساز بین الاقوامی صوفی کانفرنس اور فیسٹیول کے کئی پہلو غور طلب ہیں۔جیسے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، ڈاکٹر جعفر، ڈاکٹر ضیغم، بیرسٹر زہرہ حسین، قندیل جعفری، پروفیسر نشاط کاظمی اور سرور جاوید جیسے دیدہ وروں کو بھی کانفرنس کا حصہ بنایا جاتا، گل دان میں سجے ہوئے رنگ برنگے پھول ،حُسن میں اضافہ کرتے ہیں، صوفی ازم نظر کی صفائی کا طالب ہے، صوفی ازم سڑک پر پڑا ہوا پانی نہیں ہے، جو اِدھر اُدھر بہتا ہے بلکہ یہ ڈیم بننے کا متقاضی ہے، رُخ حیات طے کرنا لازمی ہے، کیوں کہ صرف آگے بڑھنا ضروری نہیں ہے، بلکہ ہم کس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، اس کا تعین کرنا انتہائی اہم ہے۔ صوفی ازم امن کا پیغامبر ہے ،یہ ہم سے مطالبہ کرتاہے کہ ہم اس پیغام کو عام کریں۔

فن کار انگور کی بیل ہیں، لیکن وہ کیکر کے درخت پر پڑے ہوئے ہیں ،ان کا ہر خوشہ زخمی ہے، لہولہان ہے،ان کی مدد کرنی چاہیے، ان کے لیے بھی کالونیاں بنائی جانی چاہییں۔ گھنگرو رقص کی زینت ہیں، ان کے بغیر رقص کچھ یوں ہے جیسے بغیر سر کا جسم آخر میں بس اتنا ہی کہ کیا یہ ممکن ہے سندھ کے ہر علاقے میں سنگیت اکیڈمی قائم کی جائے، کیوں کہ سندھ کا ہر ذرّہ انجم بننے کے لیے بے تاب ہے۔

تازہ ترین