سجاد احمد چاون
ماحولیاتی تبدیلیاں اب ماحولیاتی تباہ کاریوں میں بدل رہی ہیں۔ گرین ہائوس گیسز کی کثرت سے پورے کرہ ارض پر گرمی کی شدت میں دو طرفہ اضافہ ہو رہا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ اور گرمی کے دورانیے میں بھی اضافہ ، ساتھ ساتھ آلودگی بھی جان لیوا بن چکی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے مہلک نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک جس میں پاکستان بھی شامل ہے ، ماہرین کی رائے کے مطابق ان ممالک میں درجہ حرارت 8 ڈگری سینٹی گریڈ مزید بلند ہوگا اور اتنا درجہ حرارت بڑھنے سے اس خطہ کے کئی علاقے انسانی آبادیوں سے محروم ہو جائیں گے۔
اس تپش کا دوسرا رخ برف کی جانب ہے۔ برف ہر سو اپنا وجود کھو رہی ہے یعنی گلیشیر ، برفانی پہاڑی چوٹیاں ، برفانی سطح سمندر اور قطبین ہر مقام پر برف تیزی سے پگھل رہی ہے جس سے بارش اور سیلاب بے ترتیب اور کثرت سے آئیں گے۔ موذی امراض ڈینگی ، ملیریا ، نمونیا ، کینسر کا پھیلائو اور امراض دل کے امکانات میں اضافہ ہوگا بلکہ لوگ یہ بیماریاں بھی بھول جائیں گے کیونکہ ان کا واسطہ ’’ان سنی‘‘ بیماریوں سے پڑ جائے گا۔ تمام پگھلی ہوئی برف کے پانی کا رخ سمندر کی طرف ہے۔ ایک جانب سمندری پانی درجہ حرارت بڑھنے سے اس کا حجم بڑھ رہا ہے اور سطح سمندر بلند ہو رہی ہے۔ ماہرین کا نکتہ نظریہ ہے کہ تخمینہ 4-9" تک سطح سمندر بلند ہو جائے گی۔ اس وقت کل انسانی آبادی کا 20 فیصد سے 25 فیصد تک حصہ ساحلی شہروں میں بستا ہے۔ گرمی کی ناقابل برداشت شدت اور ساحلی شہروں کے زیر آب آنے کے سبب کثیر انسانوں کو آبادکاری کے ناقابل حل مسائل پیش آئیں گے۔ معدنیاتی ایندھن ، تیل ، پٹرول ، گیس ، کوئلہ کا بے رحمانہ استعمال بجلی کی پیداوار اور بجلی سے چلائے گئے آلات ، سیمنٹ کے کارخانے اور ٹرانسپورٹ تک کے بے ہنگم استعمال نے کرہ ارض کو گرمی کے علاوہ بدترین آلودگی سے بھی ڈھانپ دیا ہے۔ ان دو اسباب سے نہ صرف موجودہ نسل بیماریوں کی زد میں ہے بلکہ رحم مادر کے بچوں میں بھی پیدائشی بیماریاں ہوںگی۔ کرہ ارض پر مضبوط ترین جُثے والی جانور جیسے شیر ، ہاتھی ، جنگلی بھینسے ، چیتا ، دریائی گھوڑے اور وہیل ، شارک مچھلیاں ہیں۔ شارک وہیل مچھلی 420 ملین سال سے سمندر میں رہتی ہے۔ ان تمام جانوروں کی زندگی کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا ہے۔ رب نے ان کی رہائش ، خوراک ، موسموں سے بچائو اور بیماریوں کا علاج بھی کردیا ہوا ہے مگر صنعتی انقلاب کے بعد ان کی زندگی اور وجود کو خطرات لاحق ہیں۔ گرین ہائوس گیسز کے بے رحمانہ استعمال کے بعد اس وقت گرمی اور آلودگی پیدا کرنے کا سب سے بڑا سبب بجلی کے پیدا کرنے اور اس سے چلنے والی مشینیں ہیں ، جیسے حرارت پیدا کرنے والی 9-10 مشینیں ہر گھر میں موجود ہیں۔
اسراف سے بچیے۔ کاغذ ، پانی ، بجلی ، پٹرول ، گیس و دیگر استعمال کی چیزوں کا کم سے کم استعمال کریں۔ خاص طور پر حرارت/آلودگی کے اسباب کو آخری حد تک گھٹانا ہے مثلاً ہیٹر ، جنریٹر ، استری ، گیزر وغیرہ۔ تمباکو نوشی ترک کریں۔ کار کااستعمال کم کریں۔ میٹرو یا کوئی پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں۔ خود بھی سائیکل چلائیں اور بچوں کو سائیکل یا پیدل سکول جانے کی عادت ڈالیں۔ ایک سائیکل سوار جو روزانہ چار کلومیٹر کا سفر آفس جانے اور چار کلومیٹر واپس آنے کیلئے سائیکل پر طے کرتا ہے ، وہ سالانہ نو سو کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بچاتا ہے ، پس ہر سائیکل سوار قوم کا محسن ہے۔ کھلی فضا میں کچھ مت جلائیں۔ کوڑا ، ڈسٹ بن میں پھینکنے کی عادت اپنائیں اور گھر ، دکان کے باہر رکھ دیں تاکہ وہاں سے بلدیہ والے آسانی سے اٹھا سکیں۔
کوڑے کو چار حصوںمیں علیحدہ علیحدہ ڈبوںمیں ڈالیں۔ کاغذ ، گتہ اور شاپر پلاسٹک کو دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سبزی پھل کے کوڑے کو درخت اور فصل کی غذا بنائیں یا کسی جانور پالنے والے کو دے دیں۔ شاپر کو استعمال کے بعد کھلا چھوڑنا فضا میں زہر پھیلانے کے برابر ہے۔ مٹی میں دفن ہو کر کئی سو سالوں تک یہ نہیں گلتا اور اس جگہ پر کسی پودے کو اگنے نہیں دیتا یا ندی نالوں کے ذریعے سمندر میں پہنچ جاتا ہے۔ اس وقت سالانہ 40 لاکھ ٹن شاپر و پلاسٹک داخل سمندر ہو رہا ہے۔ اس وقت زمین کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کثرت اور آکسیجن کی کمی کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی حرارت اور آلودگی ہلاکت کا پیغام ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے طوفان نوح سے بچنے کیلئے زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔ درخت موسم کی گرمی کو کم کرتے ہیں۔ ندی نالوں کے کناروں پر لگائے ہوئے ہوں تو ان کی گندگی کو اپنے میں ہضم کرلیتے ہیں۔ شوروغل کی آلودگی کا بھی فطری سدباب ہے اور زیر زمین پانی کی صفائی کا ذریعہ ہیں۔
درخت کے ہر پتے کی رب کائنات نے یہ ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہ زہریلی گیس خود کھالیتا ہے اور ہمارے لئے زندگی کی ضرورت آکسیجن گیس پیدا کرکے فضا میں بکھیر دیتا ہے جسے انسان سمیت ہر جاندار استعمال کرتا ہے۔ دوسرا کام ہر پتہ حرات کو ہضم کر رہا ہے اور ٹھنڈک بکھیر رہا ہے۔ جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے یہ گیس ناگزیر کردار ادا کرتی ہے۔ پروردگار عالم نے آم ، جامن ، آڑو ، کھجور ، لوکا ، خوبانی ، کیکر وغیرہ کی گٹھلی کی شکل میں سیل بند پودے عام کئے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی زیادہ سے زیادہ درخت کاشت کرے۔ پودا میسر نہ ہو تو گٹھلی کاشت کرے۔
زیر سایہ اگنے والے پودے (Indoor Plant) کثرت سے ہوا کو صاف کرنے والی چھاننیاں ہیں۔ ان کی کاشت انتہائی آسان ہے۔ مثلاً ربڑ پلانٹ ، منی پلانٹ یا لیڈی بام ، کیکٹی ، سپائیڈر پلانٹ ، کوار گندل ، سنیک پلانٹ ، پیتھوز ، کاریس وغیرہ لگائیں۔ کچھ پودے ایسے بھی ہیں جو مچھروں سے بچاتے ہیں۔ صرف ایک شاخ لگانے سے پودا تیار ہو جاتا ہے۔ ان پودوں کو برآمدوں اور کمروں کے اندر رکھیں۔ آپ کے سونے کی حالت میں بھی پودے جاگ کر آپ کو پھول کی پتی کی مانند تازہ آکسیجن مہیا کرتے رہتے ہیں۔ پودا کاشت کرنے کیلئے لوگوں کو بھی رغبت دیں اور ایک مہم کا حصہ بنیں۔ اپنے گھر ، اپنے محلے ، اپنے دفتر میں عملدرآمد شروع کریں۔ گنجائش کے مطابق زیادہ سے زیادہ گٹھلیاں کاشت کریں۔