تین دن اور تین راتیں میامی کے جادوئی ساحلوں پرگزارنے کے بعد نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ اترا تو کافی تھک چکا تھا۔ ایئر پورٹ سے ٹیلی فونک کال پر بلائی گئی ٹیکسی پر سوار ہوکر بروک لین پہنچا۔ میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہاکہ میرے پاس سامان ہے اسلئے وہ مجھے سڑک کی دوسری جانب اپارٹمنٹ کے سامنے اتارے۔ میری اس درخواست پر ڈرائیور نے کندھے اچکاتے ہوئے کہاکہ ۔۔۔نوپرابلم ! اگر وہ یوٹرن لے گا تو اس کے چارجز علیحدہ سے ہوں گے۔امریکہ کو سمجھنے کے لئے ڈرائیور کی طرف سے بیان کئے گئے اضافی خرچے اور سروس چارج کی پالیسی کو سمجھنا ضروری ہے ۔امریکی اسٹریپر کلب میں ڈانس کرنے والی کالیاں اور گوریاں ہوں یا امریکی فوج جس نے ہیروشیما اور ناگا ساکی میں ایٹم بم گرانے کے بعد جاپان سے امن معاہدہ کیاتھا ۔امریکہ یہ سب کا م اضافی خرچے اور سروس چارجز کے سنہری اصولوں کے تحت کرتاہے۔
نیویارک کے بعد اب تک مشی گن ڈی ٹرائٹ ، ٹراورس سٹی ، اٹلانٹک سٹی، نارتھ کیرولینا، میری لینڈ اوشن سٹی، لاس ویگاس، لاس اینجلس( ہالی وڈ)، ورجینیا اور واشنگٹن دیکھ چکا ہوں جس سے امریکہ کو اور بھی سمجھنے کا موقع ملا۔ نیویارک بلند عمارتوں ، رنگوں روشنیوں، کالے، گوروں اور ہر رنگ و نسل کے لوگوں کا شہر ہے۔نیویارک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ امیگرینٹس کا شہر ہے اور یہاں ہر سال 60ملین سے زیادہ لوگ سیرو تفریح ، روزگار کی تلاش اور دیگر کام کاج کی غرض سے آتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق نیویارک میں 800 سے زائد زبانیں بولنے والے لوگ اور قومیں آباد ہیں تاہم کالوں کے گاڑھے رنگ کے باعث یوں لگتا ہے کہ نیویارک پر کالوں کا قبضہ ہے۔ نیویارک میں مجھے طرح طرح کے کالے اور کالیاں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ان میں ہر سائز کے کالے اور کالیاں تھیں۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ امریکہ میں مجھے کوئی پستہ قد کالا دکھائی نہیں دیا۔ ہم پاکستانی کالے رنگ کو حسن کی علامت نہیں سمجھتے لیکن امریکہ میں کالیاں مس امریکہ بھی منتخب ہوجاتی ہیں ۔اوباما کو بھی شاید یہ تاثر دینے کیلئے صدر منتخب کرایا گیاتھاکہ امریکہ میں کالے اور گورے میں فرق نہیں کیاجاتا ۔ جس طرح ایک خاص بیک گرائونڈ کے باعث پاکستان میں کسی کو ’’لاڈلہ‘‘ قرار دیا جاتاہے اسی طرح گورا امریکہ میں لاڈلا بلکہ ماں دا لاڈلا جانا جاتا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی امریکہ کے سیاسی رعب کا آئینہ دار ہے اس کی وجہ وائٹ ہائوس اور وفاقی انتظامیہ کے اداروں کے دفاتر ہیں۔ اس شہر میں مختلف ممالک کے سفارت خانے بھی ہیں۔ یوں تو امریکہ اور پاکستان میں کوئی مماثلت نہیں ہے مگر اسے حسن اتفاق ہی کہنا چاہیے کہ پاکستان میں عسکری طاقت کاسرچشمہ راولپنڈی ہے اور امریکہ میں یہ مقام اعلیٰ ورجینیا اور واشنگٹن کے سنگم پر واقع ہے جسے پنٹا گون کہاجاتاہے ۔ واشنگٹن اور ورجینیا میں وہی رشتہ قائم ہے جو اسلام آباد اور راولپنڈی میں پایا جاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امریکہ میں اس’’ رشتہ داری‘‘ کا احترام کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں اکثر و بیشتر جمہوری نمائندوں کو ’’ میکے ‘‘ بھیج دیا جاتا ہے۔ ۔ پنٹا گون کی عمارت کے عقب میں دریائے Potomac بہتا ہے۔ یہ منظر ظاہری طور پر دیکھنے میں تو ہدایتکار دادا نذرالاسلام کی فیورٹ لوکیشن لگتا ہے مگراندرون خانہ یہ مائیکل مور کی فلم ’’ فارن ہائٹ نائن الیون ‘‘ جیسا مرکزی خیال اورا سکرین پلے جیسا خوفناک ہے۔
دریائے پوٹامک سے آگے بڑھیں تو الٹے ہاتھ پر لنکن میموریل کی خوب صورت عمارت واقع ہے۔ جیسے ہی واشنگٹن میں داخل ہوں تو دائیں بائیں حکومتی اداروں کی عمارتیں واقع ہیں جن میں امریکی وزارت خزانہ کا دفتر خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں دنیا کی اکانومی پر راج کرنے والی کرنسی، ڈالر کی چھپائی کا کام ہوتا ہے یہاں سے گزرتے ہوئے مجھے لاہور کا ٹیکسالی گیٹ یاد آ گیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں کبھی سکے بنائے جاتے تھے۔ ڈالروں کے چھاپہ خانہ کے ساتھ یو ایس اے ہالوکاسٹ میوزیم کی عمارت ہے۔ اس چوک سے دائیں مڑیں تو دونوںاطراف پر امریکہ کے سائنسی، تاریخی اور ثقافتی عجائب گھروں کا ایک سلسلہ واقع ہے۔ ان میں ا یک ایئر اینڈ اسپیس میوزیم ہے۔ یہاں امریکہ کی عسکری، فضائی اور خلائی بالا دستی کی داستانیں رقم ہیں۔ میوزیم کے بعد آگے کانگریس کی وہ سفید عمارت واقع ہے جسے ہمارا میڈیا وائٹ ہائوس سے تعبیر کرتا ہے۔ اصل میں یہ عمارت کانگریس کی ہے اور وائٹ ہائوس یا امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ اس سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔ امریکیوں کا کمال ہے کہ انہوں نے اپنی سرکاری بلڈنگز کو بھی ٹورسٹ کے لئے ایک پک نک اسپاٹ بنا رکھا ہے ۔اس بار وائٹ ہائوس کے سامنے پہنچا تو پتہ چلا کہ ڈونلڈ ٹرمپ قیلولہ فرما رہے ہیں۔ اس موقع پر مجھے وہ جوان یاد آگیاجس سے میری ملاقات جون 2012میں ہوئی تھی ۔ یہ پڑھا لکھا گورا نوجوان احتجاجی کیمپ میں کتاب پڑھنے میں مشغول تھا جبکہ اس کا پالتو کتا اس کے پہلو میں بیٹھا تھا ۔ نوجوان نے پھٹی ہوئی جینز پہنی ہوئی تھی اس کے دائیں جانب کتبے پر لکھا ہوا تھا کہ Silence is a crime۔ میں نے آگے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملایا اور پوچھا کہ آپ کا احتجاج کس لئے ہے؟ میرا سوال سن کر نوجوان مجھ اکیلے سے یوں مخاطب ہوا جیسے وہ’’ بی بی سی ، یا کم از کم ’’ سی این این ‘‘ سے مخاطب ہو۔ اس نے کہا کہ وہ اور ان کے ساتھی خیال کرتے ہیں کہ امریکہ ایک ظالم ریاست ہے جو دنیا کے انسانوں کے وسائل پر قابض ہے اور اپنے اس گھنائونے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے یہ جاپان پر ایٹم بم بھی گرا دیا کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ امریکہ کوئی ملک نہیں بلکہ ایک کارپوریشن ہے جسکا مقصد ہر قیمت پرمنافع کمانا ہے۔ امریکی پالیسیوں کے باعث ہی دنیا دہشت گردی کی زد میں ہے۔ میں نے اس سے سوال کیا کہ جڑواں ٹاور گرانے کی سازش میں کس کا ہاتھ تھا؟ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ جڑواں ٹاورگرنے سے امریکہ کا فائدہ ہوا یا نقصان؟ میں نے اسے کہا کہ تم امریکی ہو اس لئے امریکہ کے نفع و نقصان کے متعلق بہتر بتا سکتے ہو؟ اس نے کہا کہ ٹوئن ٹاور گرنے سے امریکہ ساری دنیا پر مسلط ہو چکا ہے اگر اس سے امریکہ کو خسارے ہوتا تو یہ ٹاور کبھی نہ گرتے۔ امریکی نوجوان نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان جیسے ملک ان کے لئے ’’ ہیلپنگ ہینڈز‘‘ (سہولت کار) کا کردار ادا کرتے ہیں۔
مجھے یا د ہے میں نے اس سے آخری سوال کیا کہ تم امریکی حکومت سے کیا چاہتے ہو؟ گورے نے جواب دیا کہ اس وقت امریکہ کے پاس 85ایکٹو ایٹمی وار ہیڈز (2012میں بیان کیاگیا ایٹمی اسلحہ) موجود ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ یہ تمام اسلحہ ضائع کرے۔ امریکہ پوری دنیا سے اپنی فوجیں واپس بلا کر امن اور شرافت کے ساتھ رہے۔ اسے چاہیے کہ کرہ ارض کو ایک محفوظ، خوب صورت ، پر امن اور خوش حال دنیا بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ گورے نوجوان نے بتایا تھا کہ اس کے سینئر ساتھی 1981ء سے یہ احتجاجی کیمپ بسائے ہوئے ہیں۔ وہ اس مشن میں شامل ہونے والی دوسری نسل ہے اور وہ عہدکئے ہوئے ہیں کہ وہ اس جدوجہد کو اپنی اگلی نسل تک بھی منتقل کریں گے۔ گورے نے جب یہ کہا تو اس کا پالتو کتا غرایا اور پھر اپنے مالک کے قدموں میں لوٹنے لگا۔ مجھے یوں لگا جیسے اس نے اپنے مالک کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا تھا کہ … ہاں! میں تمہارے ساتھ ہوں!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)