• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ظہور اسلام، سینکڑوں صدیوں سے قائم اور مسلسل منفی طاقت پکڑتے عالمی اسٹیٹس کو (نظام بد) پر سب سے بڑی اور سب سے نتیجہ خیز ضرب تھی۔
قارئین کرام! ذرا غور تو فرمائیں کہ کتنی گمراہ قبائلی زندگی میں نبی کریمؐ خالصتاً اپنے ذاتی کردار و اخلاص و مزاج سے قبل از نبوتؐ ہی صادق اور امین کہلانے لگے تھے۔ سیرت البنی ؐ میں نبوت سے قبل زندگی کا ایک بڑا حصہ، جاہلی قبائلی معاشرے کے فقط اک فرد میں کتنی عظیم تر معاشرتی تبدیلی کی علامتوں، اشاروں اور اعمال کا حامل تھا؟ اتنا کہ خود مخالفین اور نیکی اور خیر کے حاسد بھی آپ ؐ کی مکمل صداقت و امانت کے شاہد بن گئے۔ ظلمت کدہ حجاز میں یہی تبدیلی کئی سالوں بعد آنے والے پیغام حق کا پس پردہ ذریعہ اعتماد(Source credibility)بنی۔ ذریعے کا مطلب یہاں ذریعہ ابلاغ (برائے پیغام اسلام) ہے جو آنے والے وقت میں آپ ؐ بننے والے تھے اور پیغام(اسلام) ذریعہ پر پہلے سے موجود اعتماد(صادق ہونے کا) کے باعث تیزی سے قبول ہونا ٹھہر گیا تھا۔
مزید غور فرمائیں، کس طرح انتہا کا پراثر ابلاغِ محمدؐ ہے؟
ظلمت میں غرق قبائلی زندگی میں عورت کی تعظیم و تحفظ اور علم کا حصول اور فروغ، تبدیل ہوتے جاہل معاشرے میں سماجی نظام کا فریضہ اور لازمہ بنتا گیا۔
احکام الہٰی اور بمطابق سیرت البنی ؐکی تقلید میں فلاح عامہ، بلاامتیاز رنگ و نسل و مذہب سماجی انصاف، حق گوئی کی آزادی، مشاورت، حکام کی جوابدہی اور ان پر جواب دینے کی پابندی اور احتساب و حساب، قائم ہونے والی پہلی اسلامی ریاست کے سیاسی و سماجی نظام کا فریضہ و لازمہ بنے۔ یہ ہی حقیقی فلسفہ جمہوریت نہیں؟ یہ تسلیم کرنے میں تامل نہیں ہونا چاہئے کہ آنے والی صدیوں میں، اس فلسفے کی پیروی کرتے حکمرانی کے میکنزم اور ادارہ سازی میں مغرب نے زیادہ کام کیا، جبکہ ظہور اسلام اور ادوار خلافت راشدہ میں مثالی اسلامی ریاست کا نمونہ قرآن و سنت پر ایمان اور اس سے حاصل ہونے والے اخلاق کی طاقت سے تشکیل پایا۔
کیا آج کی جدید، ترقی یافتہ یا آئیڈیل ریاستوں کے نظام ہائے جمہوریت کے تمام لازمے اس پہلی ریاست کے متذکرہ لازموں(Essantials)سے ہم آہنگ نہیں؟
مغربی اور شمالی یورپ کی فلاحی ریاستوں اور کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں شہریوں کی انتہائی بنیادی ضرورتیں (صحت و تعلیم، زچہ و بچہ سے متعلق ، پیرانہ عمر ی کی نگہداشت، تولیدی صحت(Reproductive health)اور کچھ دوسری) ریاست کی گارنٹی کے طور پر آئینی ضمانت ہیں۔ ان میں سے اکثر ریاستیں اپنا یہ فریضہ’’سوشل ڈیموکریسی‘‘کے چھتری تلے اور کچھ صدارتی اور پارلیمانی جمہوری نظام کے نام پر ادا کررہی ہیں۔
واضح رہے کہ امریکہ نے من حیث القوم خود کو بطور ریاست اپنے آئین میں ’’فلاحی ریاست‘‘ کے طور پر ڈیکلئیر نہیں کیا۔ سو، امریکی ریاست اپنے شہریوں کو مغربی یورپی اور سکنڈے نیوین ممالک کی طرح انتہائی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی پابند نہیں، نہ وہ آئین میں اس کی گارنٹی فراہم کرتی ہے۔(یہاں ذرا موضوع سے ہٹ کر)۔
آج کے عالمگیر فلسفہ جمہوریت کے حوالے سے یہ ایک عظیم سوال نہیں کہ’’آئیڈیل یا حقیقی جمہوریت‘‘، فلاحی ریاست‘‘کے بغیر ممکن ہے؟۔ کیا دنیائے اسلام میں ماہرین سیاسیات اور جمہوریت کے مقلدین میں اتنی سکت ہےکہ وہ امریکہ کے غرباء اور دانشوروں میں اس سوال کو عام کردیں؟ وہ امریکی غرباء جن کی پانچ چھ سال قبل کی’’آکوپائی وال اسٹریٹ موومنٹ‘‘ سرمایہ کاروں کی روایتی امریکی انتظامیہ نے کچل دی، جس پر امریکی صحافت کا فالو ا پ میں نہ جانا تو سمجھ آتا ہے کہ میڈیا کی تھیوری آف پولیٹکل اکانومی ایک عالمی حقیقت ہے لیکن امریکی دانشوروں کی خاموشی ایک اور بڑا سوال نہیں؟
(اب دوبارہ آئیے موضوع کی طرف کہ زیر بحث موضوع میں یہ سوال ریکارڈ ہونا بھی فقیر کے نزدیک اہم ترین ہے)اگر چہ خلفائے راشدین تادم کتنی ہی مسلم ریاستوں میں عوامی فلاح کا پہلو بہت نمایاں رہا۔ کتنے ہی غیر جمہوری مزاج کے فاسق مسلم حکمراں بھی مستحق عوام میں بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کے اسلامی ریاستی فیچر کی تقلید کرتے رہے، لیکن ریاست مدینہ کے بعد پاکستان پہلی اسلامی مملکت ہے جس نے اپنے قیام کا مقصد اسلامی فلاحی ریاست کا قیام بتایا اور کامل قومی ا تفاق سے اس کا نام’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ رکھا ہے، جس کا قرآن و سنت، پہلی اسلامی ریاست اور خلفائے راشدین کے قائم کردہ ریاستی نظام کی روشنی میں فلاحی ہونا لازم ہے۔
ہمارا سات عشروں کا ا لمیہ یہ ہے کہ ہم نے’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ قائم کرکے، یہاں جاگیروں، علاقائی ثقافتوں کے سیاسی کارڈز نسل و ذات و دولت کی بنیاد پر نمایاں خاندانوں، ناخواندگی، منفی رسم و رواج و روایات، انتظامی طاقت کے غلط استعمال، خود پسندی، کنبہ پروری، بددیانتی، خیانت اور بے ایمان اور نااہل قیادتوں کے ملغوبے سے اپنی سماجی پسماندگی اور اس کی طاقت میں مسلسل اضافہ کیا پھر متوازی ریاستی نظام اور بیڈ گورننس اسی سے تشکیل دی، ہمارا سماجی نظام اور معاشرتی رویہ بھی اسی کا عکاس ہے، یہ سب کچھ ہی، وہ اسٹیٹس کو ہے جو بڑھتے سیاسی و سماجی شعور ، سماجی انصاف، فلاح عامہ، حق گوئی اور حاکموں کے احتساب و حساب جیسے اسلامی ریاست کے لازموں کو قومی ضرورت قرار دیتے چیلنج ہی نہیں ہوگیا اس پر سنجیدگی اور تسلسل اختیار کرنے سے اس کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوئی تو مرد خدا کے واضح اشارے ملنا شروع ہوگئے۔ پاناما کا نزول، سول آرمی اتفاق سے دہشت گردی کا خاتمہ، ٹاپ سے احتسابی عمل، سرگرم اور مستعد عدلیہ، جھوٹ کے مقابل حق گوئی میں غیر معمولی اضافہ، جمہوری اور سیاسی عمل کا بڑھتا استحکام، افواج پاکستان کی مسلسل بڑھتی استعداد، بلوچستان اور کراچی پر آئینی کردار کی گنجائش ا ور سیاسی اتفاق سے سول ملٹری کنٹرول اور امن کی بحالی، اور تو اور شاید سب سے بڑھ کر(دور رس نتائج کے اعتبار سے) اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ اس کی سرزمین پر دنیا میں دہشت گردی کی سب سے بڑی آماجگاہ اور ملک میں اسٹیٹس کو کی سب سے بڑی علامت کے نام سے جانے جانے والے فاٹا کا پاکستان کے مین اسٹریم میں انضمام، ستر ہی نہیں ڈیڑھ سو سال سے ہماری سرزمین پر تشکیل ہونے والے اسٹیٹس کو کا مکمل انہدام، کمال عسکری کارروائی کے بعد پارلیمانی قوتوں کے تقریباً مکمل اتفاق اور آئینی طریقے سے، پاکستان کے اس کے مقاصد بننے کا پیغام ہی نہیں پاکستانی جاری نظام بد کے مکمل انہدام کی جانب پہلا بڑا اور نتیجہ خیز اقدام ہے(جاری ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین