• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم بھی کیا عجیب قوم ہیں کسی حال میں خوش نہیں رہتے، بری خبریں آرہی ہوں تو اچھے وقت کی پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اچھی خبر آئے تو حیرت کے مارے پریشان ہوجاتے ہیں۔ بےچارے ایوان صدر کے ممنون مکین نے پانچ برسوں میں اگر ابہام میں پڑے عام انتخابات کی حتمی تاریخ پر مہر ثبت کرنے کا کوئی بڑا کام کرہی دیا ہے تو اب ہمیں دل کو تھام کے اس فیصلے پر صدق دل سے یقین بھی کرلینا چاہئے کہ اب عام انتخابات 2018 میں ہی ہوں گے اور وقت پر بھی ہوں گے۔ اگر اب بھی یقین کسی کو نہیں آرہا ہے تو اس سوچ، ذہنی اختراع اور وہم کا کیا کیا جاسکتا ہے بظاہر انتخابات میں تاخیر کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، ہاں کوئی نئی سازشی تھیوری ضرور گھڑی جاسکتی ہے۔
ہماری سیاسی قیادت کے زیراثر پوری قوم کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے اگر کوئی کام نہ کرنا ہو یا نہ ہوپا رہا ہو تو ناکامی کو قبول کرنے کے بجائے رکاوٹ کا خفیہ ہاتھ تلاش کرنا شروع ضرور کردیتے ہیں۔ پھر پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اپنا فرض ادا کرنے سے نہیں چوکتے وہ بھی کسی ان دیکھی سازش کے تانے بانے بُن کر کوئی اسٹوری گھڑ ہی لیتے ہیں۔ اب یہی منظر ملک کے موجودہ سیاسی اور جمہوری حالات کا ہے۔ پہلے شور تھا کہ سینیٹ کے انتخابات نہیں ہوں گے، پھر کہا گیا ہوں گے مگر وقت پر نہیں ہوں گے، پھر اسٹوری آئی کہ ہوگئے تو قابل قبول نہیں ہوں گے، تمام جماعتیں ہنگامہ کردیں گی لیکن الحمدللہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ’’جمہوری‘‘ پلان کے مطابق ہوگیا، باوجود اس کہ حقیقت سب کے سامنے آچکی ہے لیکن سب خوش ہیں کہ کم ازکم ایک صوبے کی محرومی تو ختم ہوئی، اب نگران وزیراعظم کا معاملہ درپیش ہے تو کئی سازشی تھیوریاں بھی چل رہی ہیں اک آدھ دن میں وہ جنون اور پریشانی بھی ختم ہوجائے گی۔
مارشل لا کے بعد2008 اور پھر 2013کے کامیاب انتخابی عمل کے بعد جمہوریت کےتسلسل کا تیسرا مرحلہ 25 جولائی 2018 کو عام انتخابات کی صورت مکمل ہوگا جس کا صدارتی حکم جاری ہوچکا ہے۔ نئے انتخابات پر 20 ارب روپے کے اخراجات کا تخمینہ ہے جو ملکی تاریخ کے سب سے مہنگے عام انتخابات ہوں گے۔ 2008 میں ایک ارب 85 کروڑ جبکہ 2013 کے انتخابات پر 4 ارب 73 کروڑ روپے کے اخراجات آئے تھے۔ گزشتہ برس ہونے والی نئی مردم شماری میں ہم سب 20 کروڑ سے زائد ہوچکے ہیں، نئی حلقہ بندیاں ہوچکیں تاہم وفاق اور صوبائی نشستوں میں ابھی تک اضافہ نہیں ہوا۔ قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیوں کی 849 جنرل نشستوں پر انتخابات ایک ہی روز ہوں گے جس میں قومی اسمبلی کی272 ، پنجاب کی 279، سندھ کی 130، خیبرپختون خواکی99 جبکہ بلوچستان کی 51 جنرل نشستیں شامل ہیں۔ ایک ہی دن قومی و صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کرانے کا مقصد انتخابی عمل کو شفاف بنانا اور پری پول دھاندلی سے بچنا ہے۔ یعنی اگر پہلے قومی اسمبلی کے انتخابات ہوں اور شام تک نتیجہ کسی ایک جماعت کےحق میں آجائے تو لامحالہ اس کا براہ راست اثر اگلے روز کے صوبائی انتخابات پر ہوگا۔ وفاق میں حکومت بنانے والی جماعت کو نہ چاہتے ہوئے بھی صوبوں میں ووٹ پڑ جائیں گے، الیکشن کمیشن شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے عالمی اسٹینڈرڈ کے جدید سیکورٹی فیچرز والے بیلٹ پیپرز بنوا رہا ہے، فوج اور دیگر سیکورٹی اداروں کی مدد کے ساتھ غیرملکی مبصرین کو بلایا جارہا ہے، تاہم انتخابی عمل سے قبل ضابطہ اخلاق کے نام پر سیاسی جماعتوں پر کئی قدغنیں لگائی جارہی ہیں جو شاید انتہائی قدم ہے جس سے تمام جماعتوں کو یکساں اور کھل کر مہم سازی میں مسئلہ بھی ہوگا۔
اب جب یہ سب کچھ ہونے جارہا ہے، سیاسی اور ابلاغی حلقے نئی سازشی تھیوریاں گھڑنے سے باز نہیں آرہے۔ انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے باوجود ان کے بروقت انعقاد کو مشکوک بنانے کے لئے ایک ہی وقت میں دو ریاستی ستونوں اور جولائی میں بے چارے مون سون کے بپھر جانے جیسے الزاماتی اندازے گھڑے جارہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ دو بڑے ریاستی اداروں کے سربراہان جمہوریت پر غیرمتزلزل یقین اور اس کو مضبوط بنانے کا کئی مرتبہ آن ریکارڈ بلکہ قسمیہ اعادہ کرچکے ہیں۔ انتخابات کےبروقت انعقاد پر تو گویا وہ اپنی زبان بھی دے چکے ہیں۔ پھر بھی کہا جارہا ہے کہ حلقہ بندیوں کے معاملے پر عدالتی جنگ سپریم کورٹ کو عام انتخابات کے التوا کا جواز دے سکتی ہے، حالانکہ قانونی ماہرین کی رائے میں سپریم کورٹ کے پاس قانونی وآئینی طور پر کوئی ایسا جواز نہیں کہ وہ عام انتخابات کو ملتوی کردے جب تک کہ مجموعی حلقوں کی نصف تعداد یعنی 425 حلقہ بندیاں ٹھوس اعتراضات کی بنیاد پر کالعدم قرار نہ دے دی جائیں۔ ایک دوسری سازشی تھیوری یہ گھڑی جارہی ہے کہ سیاسی توڑ پھوڑ کےجاری عمل کی تکمیل اور شریفوں کو بدمعاش قرار دے کر اندر کئے جانے تک انتخابات غیرضروری ایکسرسائز اور مرضی کے نتائج کےحصول میں رکاوٹ ثابت ہوں گے۔ دوسری طرف اس غیرمنطقی سوچ اور ہرزہ سرائی کا جواب بھی دیا جا رہا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی، پی ایس پی اور کئی ایک چھوٹے گروپوں کو سیاسی طاقت بخشنے کے لئے توانا اور کارگر افرادی قوت فراہم کردی ہے تو پھر انتخابات کا التوا کیونکر اور کس کےمفاد میں ہوگا، ایسے میں جب سب سیاسی جماعتیں تیار ہیں، تاخیری حربے سے محض بدنامی کے سوا کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
دراصل ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ پر بلاجواز الزام تراشی اور انہیں ہرمعاملے میں گھسیٹنا سیاسی فیشن بن چکا ہے۔ طاقتوروں کےہاتھوں تیار ہونے والے سیاسی بت اب ہر تازہ ہوا کے جھونکے سے ڈرجاتےہیں اور جب بھی نیا منظر نظر آتا ہے تو ان کےاندر کا خوف باہر کے منظر کو خوفناک بنا دیتا ہے، یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ عالمی اور اندرونی ملکی حالات کسی طور پر عام انتخابات کے التوا کی اجازت دے رہے نہ ہی یہ کسی طور اداروں اور قوم کے مفاد میں ہے۔
تاریخ بتاتی ہےکہ دراصل 2018 کے عام انتخابات ملکی تاریخ کے سیاسی طور پر فیصلہ کن انتخابات ہوں گے یہ انتخابات ہمارے جمہوری سفر کی اگلی منزل کا بھی تعین کردیں گے۔ موجودہ سیاسی منظرنامےمیں پریشانی اور واویلے کی بنیاد بھی شاید یہی ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے لئے تاریخ کا سب بڑا سیاسی امتحان آن پہنچا ہے اور شاید تیاری مکمل نہیں۔لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہےکہ شفاف انتخابات کی صورت میں ووٹ کی طاقت رکھنے والے 20 کروڑ عوام اب کی بار سیاسی اداکاروں کا کڑا احتساب بھی ضرورکریں گے۔ملک کی70 سالہ سیاسی تاریخ کو دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ کے کندھے پر سوار ہوکر تین مرتبہ وزارت عظمیٰ پانے والے نواز شریف پہلی مرتبہ ببانگ دہل اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ پر اتر آئے ہیں۔ ملک میں حکمرانی کے تاج کا فیصلہ کرنے والا پنجاب اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے پر پرانے میاں صاحب کا ساتھ دیتا ہے کہ بدلے ہوئے شریف کا یہ امتحان بہت کڑا ہے۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ن کے 15 سے20 ایلیکٹبلز کو انتخابی میدان میں اترنے سے روکنے کی کوششیں جاری ہیں جبکہ40 سے50 ارکان پہلے ہی اپنا پنجرہ بدل چکے ہوں گے۔ ایسے میں میاں صاحب کے لئے بڑا چیلنج نئے چہروں کا انتخاب اور عوام کا ان پر اندھا اعتماد ہوگا۔!
دوسری طرف اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے نعرے سے وجود میں آنے والی پیپلزپارٹی بلوچستان کی ’’محرومی‘‘ مٹا کر پوری طرح ’’ان‘‘ کی ہوچکی ہے، سندھ کے عوام ان کے ہاتھ کی صفائی سے بھلے کتنے ہی ناراض ہوں، پارٹی کے نظریاتی خاموش اور قیادت سمیت الیکٹبلز خوش ہیں کہ ان کی ’’کارروائیوں‘‘ پر طاقتوروں نے فی الحال آنکھیں بند کرلی ہیں وہ اس غلط فہمی کا بھی شکار ہیں کہ وہ بچ گئےہیں۔
ادھر ’’ہردل عزیز‘‘ اور برسوں کے انتظار کے بعد اندھادھند نوازشات پر مسٹر خان ابھی سے خود کو اقتدار کے جھولے میں بیٹھا محسوس کررہے ہیں۔ ہر ایرےغیرے فصلی بٹیرے کو سینے سے لگا کر خوش ہورہے ہیں وہ نہیں جانتے نئےدوست برے نہیں صرف اچھے وقتوں کے ساتھی ہیں، مسٹرخان پہلے امتحان میں تھے یا نہیں لیکن اب ضرور ہیں اور یہی انتخابی معرکہ ان کی سیاسی زندگی کا بڑا امتحان ثابت ہوگا۔ پارٹی کا دیرینہ کارکن، برق رفتاری سےبنی گالہ پہنچ کر گلے میں دو رنگہ پہننے والوں کی خواہشات کی اڑتی دھول میں کہیں گم ہوگیا ہے۔ لگتا ہے بیلٹ باکس سے پہلے ٹکٹوں کی تقسیم ہی پارٹی اور خان صاحب کےمستقبل کا تعین کردے گی، شاید کلیدی فیصلوں سے پہلے انہیں مڑ کر اپنی زندگی بھر کی جدوجہد کو ایک نظر دیکھنے کا خیال آجائے۔ کسی سیانے کا صائب مشورہ ہے کہ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے لوٹا سازی کی فیکٹری بند کرنے کا سوچا جائے، انتخابی نتائج پر دھاندلی کا راگ روکنے کے لئے جامع قانون سازی کا سوچا جائے اور عوام کے حقیقی نمائندوں کو اقتدار میں آنے کا موقع دیا جائے۔ اس سے پہلے کہ تاریخ پھر کوئی تلخ فیصلہ لکھے سیاسی قیادت ملک و قوم کے مفاد میں بہتر اور سمجھدار فیصلے خود کرلے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین