شگفتہ بلوچ، ملتان
عکاسی: عقیل چوہدری
شہر کے وسط میں واقع، ملتان پریس کلب کو اس لحاظ سے اہمیت حاصل ہے کہ تین بڑے اخبارات کے دفاتر اس سے پیدل مسافت پر ہیں، تو وہیں عام افراد کا بھی اس تک پہنچنا آسان ہے۔ یہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان، محنت کش اور سرکاری ملازمین تقریباً روز ہی مظاہرے کرتے ہیں، جس کے سبب اس پریس کلب کو جنوبی پنجاب کے ایک’’ داد رَسی مرکز‘‘ کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ سوا کنال اراضی پر مشتمل، پریس کلب کی دو منزلہ عمارت میں صحافیوں کے بیٹھنے کے لیے دو بڑے ہالز، آئی ٹی روم اور عُہدے داران کے دفاتر بنائے گئے ہیں۔ عمارت کے سامنے ایک چھوٹا سا لان ہے، جہاں صحافی شام کے اوقات میں بیٹھتے ہیں۔ ایک کونے میں چھوٹی سی کینٹین ہے، جہاں چائے اور کولڈ ڈرنکس وغیرہ تو دست یاب ہیں، لیکن معیاری کھانے کی کمی شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ اس حوالے سے پریس کلب کے سابق صدر، شکیل انجم کا کہنا ہے کہ’’ ملتان کے صحافی پیسوں کے معاملے میں بہت تنگ دِل ہیں۔ وہ10 روپے کی چائے کا کپ بھی بڑی مشکل سے خرید کر پیتے ہیں۔ اس لیے معیاری کھانے کی کوئی کینٹین یہاں کبھی نہیں بنائی جاسکی۔‘‘ پریس کلب کے پانچ بار صدر رہنے والے، غضنفر شاہی نے بتایا کہ’’ ہم نے اپنے دَور میں ایک صاحب کو کلب میں بریانی کی ریڑھی لگانے پر آمادہ کیا اور اُس سے طے پایا کہ وہ جو پلیٹ باہر 30 روپے میں فروخت کرتا ہے، یہاں 20 روپے کی دے گا، لیکن صحافی بھائی اس ریڑھی والے سے بھی کئی ہزار کی ادھار بریانی کھا گئے، جس کی پریس کلب کے فنڈز سے ادائی کی گئی۔ صحافیوں کے اس طرزِ عمل سے دل برداشتہ ہو کر وہ ریڑھی والا بھی یہاں سے بھاگ گیا۔‘‘پریس کلب کے لیے حکومتی سطح پر کوئی باقاعدہ بجٹ تو مختص نہیں، تاہم اسے ہر سال مختلف مدات میں فنڈز ضرور فراہم کیے جاتے ہیں۔ اس برس بھی وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے بیس لاکھ روپے کی گرانٹ منظور کی ہے۔
پریس کلب کی تعمیر: ملتان میں پریس کلب کا قیام کیسے عمل میں آیا؟ معروف صحافی اور کلب کے سابق صدر، رشید ارشد سلیمی نے اس جدوجہد کی رُوداد کچھ یوں بیان کی’’ 50ء کی دہائی میں ملتان سے صرف دو اخبارات شایع ہوتے تھے۔ ایک کوہستان، جس کے بانی نسیم حجازی تھے اور دوسرا امروز۔ ان دونوں اخبارات میں کُل بائیس صحافی کام کرتے تھے اور ان کے دفاتر سے باہر کہیں بیٹھنے یا گپ شپ کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہیں تھی۔ ابتدا میں حسن پروانہ کالونی میں معروف صنعت کار، میاں احمد حسن کی کوٹھی کے ایک کمرے میں دفتر قائم ہوا۔ پھر کچھ عرصے بعد شیر شاہ روڈ پر گلڈ ہوٹل کے مقابل، ڈیڑھ سو روپے ماہ وار کرائے پر ایک کمرا لے کر اُسے پریس کلب کا نام دیا گیا، لیکن 1966ء میں صحافیوں نے محسوس کیا کہ اُن کے بیٹھنے کے لیے کسی معقول جگہ کا انتظام ہونا چاہیے، مگر ان صحافیوں کی آمدن اتنی نہیں تھی کہ وہ کوئی مناسب عمارت کرائے پر لے پاتے، سو کافی غوروخوض کے بعد طے پایا کہ شہر کے صاحبِ ثروت افراد سے مدد لی جائے۔ ملتان میں اُن دنوں ایک ادارہ،’’ ملتان امپروومنٹ ٹرسٹ‘‘ کے نام سے کام کررہا تھا، جس کے تحت معروف رہائشی کالونیاں ممتاز آباد، گلگشت وغیرہ بسائی گئی تھیں۔ لوگ اس ادارے کے ذریعے اراضی حاصل کرکے اُسے سماجی مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔ لہٰذا سینئر صحافیوں نے بھی اس ٹرسٹ سے ملتان کرکٹ کلب سے ملحقہ، سینٹر ٹیلی فون ایکسچینج کے قریب سوا کنال اراضی 99 برس کی لیز پر حاصل کر لی۔
ملتان کرکٹ کلب کے صدر، چوہدری لطیف کے ساتھی، ملک صدیق نے، جو صحافیوں کے دوستوں میں سے تھے، صحافیوں سے درخواست کی کہ پریس کلب کے لیے حاصل کی گئی اراضی پر وہ پویلین تعمیر کروانا چاہتے ہیں، لہٰذا آپ کوئی اور جگہ لیز کروالیں۔ سینئر صحافیوں نے اُن کی درخواست پر کمشنر ملتان، ایس ایم عثمان سے ملاقات کرکے اراضی کی منتقلی کی درخواست دے دی، جس پر اُنھیں شیش محل روڈ پر سوا کنال اراضی الاٹ کردی گئی، جہاں آج پریس کلب قائم ہے۔ جن صحافیوں نے ٹرسٹ سے اراضی حاصل کرنے کی کام یاب جدوجہد کی، اُن میں نام وَر صحافی و ادیب مسعود اشعر، افضل خان، حشمت خان، رفیق اللہ خان، انور امروہوی، ولی محمّد واجد اور اے کے درّانی کے نام نمایاں ہیں۔ ان صحافیوں نے اپنے تعلقات کے بل بُوتے پر ٹرسٹ سے اراضی تو حاصل کرلی، مگر اس کی تعمیر کے لیے ان کے پاس وسائل نہ تھے۔ اُنھوں نے صاحبِ ثروت افراد سے ملاقاتیں کیں اور اُن سے مدد کی درخواست کی، یوں کہیں سے سیمنٹ لیا گیا، کہیں سے اینٹیں اٹھائی گئیں اور کہیں سے بجری اکٹھی کی گئی۔ اس دَوران پریس کلب کی تعمیر میں رکاوٹیں بھی آئیں۔ کچھ عرصے کے لیے تعمیر کا کام رُکا بھی۔ 60ء کی دہائی کے آخری برسوں میں مخدوم سجّاد حسین قریشی، جو اُس وقت میونسپل کارپوریشن کے وائس چیئرمین تھے، عُہدے کی مدّت ختم ہونے سے پہلے پریس کلب کی تعمیر کے لیے 25 ہزار روپے کی گرانٹ منظور کروا گئے۔ یوں 67ء سے تعمیر کا آغاز ہوا اور 1976ء میں ملتان پریس کلب کی تعمیر مکمل ہوئی۔ ابتدا میں صرف ایک ہال تعمیر کیا گیا تھا، جس میں ایک سو کے قریب افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔‘‘ مسعود اشعر کو پریس کلب ملتان کے پہلے صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ 1965ء سے 1977ء تک ملتان میں رہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ بیس، بائیس صحافیوں نے اپنی اَن تھک جدوجہد سے ملتان پریس کلب کی عمارت تعمیر کروائی۔ صحافیوں نے معراج خالد( مرحوم) سے، جو اُس وقت وزیرِ اعلیٰ پنجاب تھے، ملاقات کرکے پریس کلب کی تعمیر کے لیے فنڈز منظور کروائے، جب کہ عمارت کا افتتاح اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ، حنیف رامے نے کیا تھا۔‘‘
پریس کلب اراضی پر تنازع: پریس کلب کی تعمیر مکمل ہوئی، تو چند مفاد پرست صحافیوں نے اس کے خلاف سازشیں شروع کردیں، یہاں تک کہ عمارت مسمار کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی گئی۔ اس سازش کا قصّہ کچھ یوں ہے کہ 1976ء میں عمارت کی تعمیر مکمل ہوئی، تو پریس کلب کا پہلا الیکشن کروایا گیا۔ اُس وقت تک کلب کا کوئی آئین نہیں تھا۔ صحافیوں کی تعداد 30 یا 40 کے قریب تھی، لہٰذا اُنہوں نے آپس ہی میں تاریخ اور شیڈول طے کرکے انتخابی عمل مکمل کرلیا، جس کے نتیجے میں مسعود اشعر صدر اور افضل خان جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ 77ء میں بھی یہی دونوں دوبارہ صدر اور جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ 1976ء سے 1983ء تک کلب کے باقاعدگی سے الیکشن ہوتے رہے، پھر 1983ء میں پریس کلب کا آئین بنانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے چیئرمین، رشید ارشد سلیمی مقرر ہوئے، جب کہ اُن کے ساتھ اکمل فضلی اور سلیم چشتی بھی کمیٹی کے ممبر منتخب ہوئے۔ اُس وقت ملتان کے صحافیوں کی تعداد 67 ہوچکی تھی۔ اُس کمیٹی کے تیار کردہ آئین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا آئین ہے، جو اُردو میں لکھا گیا۔ قصّہ مختصر، کمیٹی نے جب آئین مکمل کرلیا، تو اس کی ایک شق پر فوٹو گرافرز کے ایک گروپ نے تنازع کھڑا کردیا۔ اُس شق کے مطابق، رُکن کی آمدنی کا انحصار اخباری تن خواہ پر ہونا لازم تھا، لیکن اُس دَور کے بیش تر اخباری فوٹو گرافرز دُکان دار تھے۔ نذیر چوہدری اور شیخ امین فوٹو گرافرز کی اپنی دُکانیں تھیں اور وہ پارٹ ٹائم صحافت کر رہے تھے۔ اسی طرح امروز کے فوٹوگرافرز، انور امروہوی، رفیق اللہ خان کے بزنس پارٹنر تھے، جن کی بوہڑ گیٹ میں دُکان تھی۔ لہٰذا اُن سب سے کہا گیا کہ چوں کہ وہ کُل وقتی صحافی نہیں، اس لیے پریس کلب کے ممبر نہیں بن سکتے، جس پر اُنہوں نے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ اُن کا مؤقف تھا کہ’’ باقی پریس کلبز میں تو فوٹو گرافرز کو رُکنیت دی جاتی ہے،‘‘ جس پر اُنھیں بتایا گیا کہ اُن فوٹو گرافرز میں سے کسی کی دکان نہیں ہے۔ جب تنازع شدّت اختیار کر گیا، تو آئین ساز کمیٹی کے چیئرمین، رشید ارشد سلیمی نے کہا کہ’’ اس آئین کی منظوری جنرل باڈی میں ہوگی۔‘‘ سعید غنی نے، جو اُس وقت پریس کلب کے صدر تھے، تمام فوٹو گرافرز کو پریس کلب کی رُکنیت دینے کی سفارش کی، لیکن کمیٹی نے اُن کی تجویز مسترد کرتے ہوئے صرف دو فوٹو گرافرز کو رُکنیت دی، جو میرٹ پر پورے اترتے تھے۔ اُن میں ایک نوائے وقت کے افضال نیازی تھے۔ جنرل باڈی کے اجلاس میں آئین کی منظوری کے لیے ووٹنگ کروائی گئی، تو آئین کے حق میں 45 اور مخالفت میں 21 ووٹ آئے۔ بعدازاں ناراض گروپ کو بھی منا لیا گیا، یوں تمام 66 ارکان نے پریس کلب کے پہلے آئین پر دست خط کردیے۔ آئین تو منظور ہوگیا، لیکن بعد میں مخالف گروپ اپنی بات سے مُکر گیا۔ نوائے وقت کے ایک گروپ نے چند ہم خیال ساتھیوں کے ذریعے نیا تنازع کھڑا کردیا کہ’’ موجودہ جگہ پر تو پریس کلب کی تعمیر کی منظوری ہی نہیں دی گئی تھی، لہٰذا یہ عمارت غیرقانونی ہے، اسے گرا دیاجائے۔‘‘ صحافیوں کے اس گروپ نے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دی، جس نے کسی تحقیق کے بغیر ہی مجسٹریٹ، چوہدری مشتاق کو فوری طور پر پریس کلب گرانے کا آرڈر دے دیا۔ صُورتِ حال نازک ہونے پر سینئر صحافی، کمشنر ملتان، شیخ فرید الدّین سے ملے اور اُنھیں اصل صُورتِ حال سے آگاہ کیا، جس پر عمارت گرنے سے بچی۔ کمیٹی نے سازش میں ملوّث ان 35 صحافیوں کو اظہارِ وجوہ کے نوٹس بھجوائے اور پھر10 برس کے لیے اُن کی رُکنیت معطّل کردی۔
صحافیوں کے درمیان اختلافات کے حوالے سے مسعود اشعر کا کہنا ہے کہ’’ اُس زمانے میں صحافیوں میں صرف الیکشن کے دنوں میں کچھ اختلافات دِکھائی دیتے، مگر اُن اختلافات کو کبھی ذاتیات کی شکل نہیں دی جاتی تھی۔ صحافیوں کے خلاف کوئی واقعہ ہوتا، تو سب متحد ہو کر اُس کے خلاف کھڑے ہو جاتے۔ ملازم صرف اخبار کا ادارہ رکھ سکتا تھا، کسی ٹھیکے دار کی جرأت نہ تھی کہ وہ صحافیوں کو ملازم رکھے۔ جب کبھی صحافت پر حملہ ہوتا، تو یونین کے تحت جلوس نکلتے۔ صحافیوں کے حقوق تلف ہونے پر اخبارات کی ہڑتال ہو جایا کرتی، لیکن آج ان باتوں کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
جب پریس کلب کو تالا لگا: الیکشن کے دنوں میں صحافی گروپس کے درمیان عموماً تنازعات دیکھنے کو ملتے ہیں، لیکن ملتان پریس کلب کے ایک الیکشن میں یہ تنازع اتنی شدّت اختیار کر گیا کہ ایک گروپ کی مَن مانی اور جانب دارانہ رویّے کے نتیجے میں صحافیوں کے دوسرے گروپ نے پریس کلب آمد ہی کا بائیکاٹ کردیا۔ اسی تنازعے میں ملتان کے کئی معروف اور سینئر صحافیوں کی رُکنیت بھی ختم کردی گئی۔ بدقسمتی سے بات یہاں تک بڑھی کہ پریس کلب ہی کو تالا لگا دیا گیا اور یہ تالا کئی برس تک لگا رہا۔ اس دَوران پریس کلب کی عمارت کو بلیئرڈ کلب بنا دیا گیا اور صحافیوں کی بجائے عام لوگ یہاں بلیئرڈ کھیلنے آنے لگے۔ بعدازاں ایک الیکشن میں منتخب ہونے والی گورننگ باڈی نے تالا تڑوایا اور پریس کلب دوبارہ صحافیوں کے لیے کھول دیا گیا۔
صحافیوں کی فلاح و بہبود میں کردار:ملتان پریس کلب کے ابتدائی دنوں میں تو کئی صحت مندانہ اقدامات کیے گئے، مگر رفتہ رفتہ ان سرگرمیوں میں کمی آنے لگی اور اب چیدہ چیدہ اقدامات ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں صحافیوں کے لیے ایکسرسائز مشینز رکھی گئی تھیں۔ علاوہ ازیں، بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس کھیلنے کے بھی انتظامات موجود تھے۔ نیز، ایک بہترین لائبریری بھی قائم کی گئی تھی۔ صحافیوں کی مالی معاونت کے لیے ایک لاکھ روپے تک قرض دینے کی اسکیم بھی شروع کی گئی تھی، جو ختم ہوچکی ہے۔ 1980ء میں ملتان پریس کلب میں کھیلوں کی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا اور سینئر صحافی، رشید ارشد سلیمی کو اسپورٹس کمیٹی کا چیئرمین چُنا گیا، جس کے بعد کیرم بورڈ اور شطرنج کا بھی آغاز ہوا۔ 1980ء سے 2000ء تک ہر سال کیرم بورڈ اور شطرنج ٹورنامنٹس کا انعقاد ہوتا رہا، جو اب کئی برس سے نہیں ہو رہے۔ ملتان پریس کلب کی کرکٹ ٹیم کو 2013ء میں رشید ارشد سلیمی کی سربراہی میں پنجاب پریس کلبز کرکٹ ٹورنامنٹ جیتنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔
پریس کلب کے زیر اہتمام صحافیوں کو تفریحی مقامات کے کئی دورے بھی کروائے گئے، مگر اب یہ سب باتیں ماضی کا قصّہ ہو چکی ہیں۔ مسعود اشعر کا کہنا ہے کہ’’ ہمارے دَور میں صحافیوں کے لیے صحت مندانہ سرگرمیوں کا رواج تھا۔ پریس کلب کی عمارت تعمیر ہونے سے قبل، جب صحافی حسن پروانہ کالونی کی ایک کوٹھی کے ایک کمرے میں بیٹھا کرتے تھے، تو وہاں بھی اُن کے کھیلنے کے لیے ٹینس کی ٹیبل رکھی گئی تھی۔ نیز، برٹش کاؤنسل سے کتب لے کر اس کمرے میں رکھی گئیں، جب کہ پریس کلب کی عمارت تعمیر ہونے کے بعد امریکن سینٹر سے مووی پراجیکٹر منگوا کر لگایا گیا۔ اُس دَور میں سوویت انقلاب پر بننے والی فلمز دنیا بھر میں مشہور تھیں، ہم نے وہ فلمز منگوا کر نشتر کالج کے ہال میں فلم فیسٹیول کروایا، جس میں ضیاء الحق نے بھی، جو اُس وقت ملتان میں کرنل تھے، ہماری دعوت پر شرکت کی۔ جنرل ضیاء الحق صحافیوں سے بہت شوق سے ملا کرتے تھے۔ وہ جنرل بننے کے بعد بھی ملتان پریس کلب آئے۔‘‘ شکیل انجم نے، جو 9 بار کلب کے صدر رہ چکے ہیں، اس ضمن میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’’ 2005ء میں صحافیوں کی تعداد 300 سے زاید ہوچکی تھی، جب کہ پریس کلب صرف دو ہالز اور تین کمروں پر مشتمل تھا۔ اس لیے نئی عمارت کی تعمیر کے لیے کوششیں شروع کردی گئیں۔ اس سلسلے میں حکومتِ پنجاب سے رابطہ کیا گیا، تو اُس وقت کے وزیراعلیٰ، پرویز الٰہی نے عمارت کے لیے ایک کروڑ روپے کی منظوری دے دی۔ یوں پریس کلب میں دو بڑے ہالز کے علاوہ صدر، جنرل سیکرٹری اور فنانس سیکرٹری کے لیے کمرے تعمیر کیے گئے۔ علاوہ ازیں، خواتین کے بیٹھنے کے لیے بھی علیٰحدہ روم تعمیر کروایا گیا۔ 2009ء میں پریس کلب ملتان میں آئی ٹی روم کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اب پریس کلب کے دونوں ہالز میں 300 سے زاید صحافیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔‘‘ شکیل انجم کا یہ بھی کہنا ہے کہ’’ ہمارے دَور ہی میں پریس کلب کی جانب سے موٹرسائیکل اسکیم کا اجرا ہوا، جس کے تحت صحافیوں کو 10 ہزار کی سبسڈی دی جاتی تھی، تاہم چند برس بعد یہ اسکیم ختم کردی گئی۔ پریس کلب کی جانب سے پی پی پی حکومت کے تعاون سے ہر سال 10سے 12 صحافیوں کو حج اور 4سے 5کو عُمرے پر بھیجا جاتا تھا، لیکن یہ اسکیم بھی گزشتہ کئی برسوں سے تعطّل کا شکار ہے۔‘‘
جرنلسٹ ہائوسنگ سوسائٹی2006:ءمیں اُس وقت کے وزیراعلیٰ، چوہدری پرویز الٰہی نے صحافیوں کو فاطمہ جناح کالونی، فیز ٹو میں10 مرلے کے پلاٹس دینے کا اعلان کیا۔ ان پلاٹس کی قیمت 5 لاکھ روپے تھی، لیکن صحافیوں کے لیے صرف ڈھائی لاکھ روپے قیمت مقرر کی گئی۔ محکمۂ اطلاعات، ملتان کی جانب سے250 صحافیوں کی ایک فہرست تیار ہوئی، جن سے ابتدا میں 25ہزار روپے وصول کرکے بینک آف پنجاب میں جمع کروائے گئے۔ جن صحافیوں نے 25ہزار جمع کروائے، اُن کے ناموں کی آرٹس کونسل، ملتان میں قرعہ اندازی ہوئی، جو اُس وقت کے گورنر، خالد مقبول نے کی۔ بعدازاں صحافیوں نے حکومت سے مزید رعایت دینے کا مطالبہ کیا، تو اُس وقت کے وزیر اعظم، یوسف رضا گیلانی نے وفاقی حکومت کے فنڈز سے 7 کروڑ روپے کالونی کی ڈویلپمنٹ کے لیے ملتان پریس کلب کو دئیے۔ یوں ایک لاکھ 73ہزار روپے حکومت کی جانب سے ادا کردیے گئے۔ اس کے بعد ایم ڈی اے نے کالونی میں ڈویلپمنٹ کے لیے مزید ایک لاکھ، ایک ہزار اور بینک آف پنجاب نے 73 ہزار روپے کی ڈیمانڈ کی۔ اِس وقت ملتان کے45 سے زاید صحافی ایک لاکھ 73 ہزار روپے کی رقم ایم ڈی اے اور بینک آف پنجاب میں جمع کرواچکے ہیں، لیکن رقم کی ادائی کے باوجود کسی صحافی کو پلاٹ کا قبضہ نہیں دیا گیا۔ جرنلسٹ کالونی، لاہور کا آغاز بھی صحافی کالونی، ملتان کے ساتھ ہوا تھا، اب وہاں تیسرا فیز مکمل ہوچکا ہے، لیکن ملتان میں10 سال گزرنے کے باوجود، پلاٹس کی الاٹمنٹ کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ اس حوالے سے شکیل انجم کا کہنا ہے کہ’’ 2006ء ہی میں پنجاب کے تین بڑے شہروں ملتان، پنڈی اور لاہور میں بہ یک وقت ہائوسنگ اسکیمز کا اجرا کیا گیا۔ ملتان میں 73 ایکڑ رقبے پر صحافی کالونی تعمیر کی گئی، جہاں بجلی، پانی، سڑکیں اور سوئی گیس کی سہولتیں موجود ہیں۔ ابتدا میں10 مرلے کے پلاٹ کے پانچ لاکھ ادا کرنے تھے، لیکن پہلے ڈھائی لاکھ قرض معاف کروایا گیا۔ اس کے بعد7 کروڑ کے فنڈز ملنے سے فی صحافی صرف 73 ہزار روپے جمع کروانا ہیں، جن صحافیوں نے ایک لاکھ 73 ہزار جمع کروادیئے ہیں، اُنہیں ایک لاکھ روپے واپس کردیے جائیں گے۔ جن صحافیوں نے واجبات ادا کردیے ہیں، اُنہیں پلاٹ کا قبضہ بھی دے دیا گیا ہے۔‘‘
آمریت کے خلاف شان دار کردار
مُلک کے دیگر پریس کلبز کی طرح ملتان پریس کلب نے بھی آمریت کے خلاف جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔ 1986ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو طویل جلاوطنی کے بعد وطن لَوٹیں، تو تمام پریس کلبز نے جنرل ضیاء کے خوف سے اُنہیں مدعو کرنے سے صاف انکار کردیا، لیکن ملتان پریس کلب نے محترمہ بے نظیر بھٹّو کو پریس کانفرنس کا موقع فراہم کیا۔ علاوہ ازیں، مارشل لاء کے دَوران ملتان کے صحافیوں مسعود احمد، خاور نعیم ہاشمی اور ناصر زیدی نے کوڑے تک کھائے۔ ناصر زیدی 1981ء تک ملتان میں رہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ’’ایّوب دَور میں پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس آیا، تو پورے مُلک کے صحافیوں نے اس کے خاتمے کے لیے تحریک چلائی۔ اس حکومتی پالیسی کے تحت بہت سے اخبار بند ہونے سے صحافیوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہوگئی تھی۔ پی ایف یو جے نے صحافت پر پابندی، سنسر شپ کے خاتمے اور صحافیوں کی بے روزگاری کے خلاف لاہور میں جلوس نکالے، تو ملتان سے بھی صحافیوں کی بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی۔ یہ صحافی پہلے ملتان پریس کلب میں جمع ہوتے، پھر ٹولیوں کی شکل میں لاہور جا کر جلوس میں شریک ہو جاتے تھے۔‘‘ ایسے ہی جلوس میں شرکت کرنے پر ناصر زیدی کو کوڑوں کی سزا سُنائی گئی۔ اسی حوالے سے ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ’’ تمام مارشل لاء ادوار میں ملتان پریس کلب نے جمہوریت کی بحالی میں تاریخی کردار ادا کیا۔
اینٹی ایوب موومنٹ میں لاہور اور کراچی کے بعد، ملتان پریس کلب تیسرا بڑا مرکز تھا۔ ایک ایسے دَور میں جب چار بندے ایک جگہ اکٹھے ہو کر بات نہیں کرسکتے تھے، ہوٹلوں تک میں سیاسی گفتگو پر پابندی تھی، ملتان پریس کلب نے تمام جمہوریت پسندوں کو اجازت دی کہ وہ یہاں آئیں اور اپنا موقف پیش کریں۔ ملتان پریس کلب میں مشاعرے بھی ہوتے تھے اور ٹریڈ یونین کے کنونشنز بھی۔ یہاں مزدوروں کے حقوق کی جنگ لڑی گئی، تو ادبی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملا۔ فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، عبدالحمید عدم، حبیب جالب وغیرہ گاہے گاہے ملتان پریس کلب کے مشاعروں میں شریک ہوتے رہے۔ مارشل لاء دَور میں کسی وردی والے کو پریس کلب آنے کی اجازت تھی اور نہ ہی مارشل لاء کو سپورٹ کرنے والی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو یہاں مدعو کیا جاتا تھا۔ ایم آر ڈی کے کئی اہم اجلاس اسی پریس کلب میں ہوئے۔ اسی طرح ملتان میں جب کالونی ٹیکسٹائل ملز میں ہڑتال سے مزدوروں کی شہادت ہوئی، تو بیگم نصرت بھٹّو مزدوروں کے گھروں میں تعزیت کے بعد ملتان پریس کلب تشریف لائیں۔‘‘ اسی ضمن میں مسعود اشعر کا کہنا ہے کہ’’ جمہوریت کے فروغ اور آمریت کے خلاف جدوجہد میں ملتان کے صحافیوں کا نمایاں کردار ہے۔ 1963ء میں ایّوب خان نے پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈر جاری کیا، تو صحافیوں نے جلوس نکالے، جن کی پاداش میں ملتان کے صحافیوں پر مقدمات بھی بنے۔ اسی طرح جب ایم آر ڈی کی تحریک چلی تو جمہوریت کی بحالی اور مارشل لاء کے خاتمے کے لیے صحافیوں نے مختلف طبقات کے ساتھ مل کر جلوس نکالے۔ ملتان سے جن صحافیوں نے ایم آر ڈی تحریک میں حصّہ لیا ان میں روزنامہ مشرق، پاکستان ٹائمز اور امروز کے 12 صحافی شامل تھے۔‘‘
پروگرام’’گفتگو‘‘ میں اہم شخصیات کی شرکت
ملتان پریس کلب میں صحافیوں کی تربیت کے لیے ’’گفتگو‘‘ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا گیا تھا، جس میں کئی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ ان میں جنرل ضیاء الحق (جو اُس وقت کورکمانڈر تھے)جنرل اعجاز عظیم، جنرل حمید گل، جنرل اسلم بیگ، سردار فاروق خان لغاری، ذوالفقار علی بھٹّو (جو اُس وقت اپوزیشن میں تھے)محترمہ بے نظیر بھٹّو، سردار بلخ شیر مزاری، غلام مصطفیٰ جتوئی، میاں نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، ملک معراج خالد، مخدوم امین فہیم، غوث بخش بزنجو، سلمان تاثیر، مرتضیٰ بھٹّو، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، سیّد قصور گردیزی، سیّد فخر امام، سیّد تصدّق جیلانی، رائو سکندر اقبال، مولوی فرید احمد، میاں یٰسین وٹو، غلام حیدر وائیں، غلام مصطفیٰ کھر، نواب زادہ نصراللہ خان، سردار ذوالفقار کھوسہ، اکبر بگٹی، سردار شوکت مزاری، جاوید ہاشمی، قاضی حسین احمد، عبدالولی خان، بیگم نسیم ولی خان، ممتاز بھٹّو، مخدوم سجاد حسین قریشی، معروف اداکار محمّد علی، عنایت حسین بھٹی، سیّد اکمل، حبیب جالب، عُمر شریف، دلدار پرویز بھٹی، منو بھائی، احمد فراز، محسن نقوی، عرش صدیق، مقصود زاہدی، ثریا ملتانیکر، نواب قاسم خاکوانی، ظہیر بابر، قدرت اللہ شہاب، حمید اختر، شکور رانا، سلیم بدر وغیرہ شامل ہیں۔