• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ادب پارے: مشتاق احمد یوسفی

مشتاق احمد یوسفی

ایک دن موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔ مشتاق احمد یوسفی تھکے ماندے بارش میں شرابور گھر پہنچے تو دیکھا کہ تین مرغے ان کے پلنگ پر باجماعت اذان دے رہے ہیں۔ سفید چادر پر جا بجا پنجوں کے تازہ نشان تھے، جہاں جہاں جگہ خالی رہ گئی تھی، وہاں سفید دھبے نہایت بدنما معلوم ہورہے تھے۔

یوسفی صاحب نے بیگم سے ذرا درشتی سے سوال کیا:

’’آخر یہ گلا پھاڑ پھاڑ کے کیوں چیخ رہے ہیں۔‘‘

بولیں: ’’آپ تو خواہ مخواہ الرجک ہوگئے ہیں۔ یہ بے چارے چونچ کھولیں تو آپ سمجھتے ہیں کہ مجھے چڑا رہے ہیں۔‘‘

یوسفی صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، بولے:

’’بس ہوچکا، آئو آج دو ٹوک فیصلہ ہوجائے، اب گھر میں یا تو یہ رہیں گے یا میں......‘‘

بیگم کی آنکھوں میں سچ مچ آنسو بھر آئے، ہراساں ہوکر کہنے لگیں:

’’اتنی تیز بارش میں آپ کہاں جائیں گے۔‘‘

چ چ چ

مشتاق احمد یوسفی نے کسی کی آب بیتی احمد فراز کو بذریعۂ ڈاک بھیجی ۔ ساتھ میں ایک سطری رقعہ لکھا:

’’مطلوبہ آب بیتی ارسال خدمت ہے۔ سنائیں آپ اپنی ’’پاپ بیتی ‘‘ کب لکھ رہے ہیں؟‘‘

چ چ چ

مارچ 1942کا ذکر ہے ۔ بی اے کے امتحان میں ابھی ایک ہفتہ باقی تھا۔ مشتاق احمد یوسفی، روہیلوں کی لڑائیوں سے فارغ ہوکر مرزا عبدالودود بیگ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ جھوم جھوم کر کچھ رٹ رہے ہیں۔

پوچھا: ’’خیام پڑھ رہے ہو؟‘‘

کہنے لگے: ’’نہیں تو، ہسٹری ہے۔‘‘

’’مگر آثار تو ہسٹریا کے ہیں۔‘‘ یوسفی نے کہا۔

یوسفی صاحب لکھتے ہیں:

’’اپنی اپنی جگہ دونوں سچے تھے، انہوں نے غلط نہیں کہا۔ اگرچہ میرا خیال بھی صحیح نکلا کہ وہ شعر سے شغل فرمارہے ہیں، البتہ شعر پڑھتے وقت چہرے پر مرگی کی سی کیفیت میں نے قوالوں کے سوا کسی اورکے چہرے پر اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی۔‘‘

چ چ چ

یوسفی صاحب، ابولکلام آزاد کی نثر کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں:

’’مولانا ابوالکلام آزاد اپنا سن پیدائش اس طرح بتاتے ہیں۔

’’یہ غریب الدیار عہد، ناآشنائے عصر، بیگانہ خویش، نمک پروردہ ریش، خرابہ حسرت کو موسوم بہ احمد، مدعو بابی الکلام 1888مطابق ذوالحجہ 1305میں ہستیِ عدم سے اس عدم ہستی میں وارد ہوا اور تہمت حیات سے مہتم۔‘‘

اب لوگ اس طرح نہیں لکھتے ۔ اس طرح پیدا بھی نہیں ہوتے۔ اتنی خجالت، طوالت و اذیت تو آج کل سیزیرین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی۔

اسی طرح نو طرزِ مرصع کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیے۔

’’جب ماہتاب عمر میرے کا بدرجہ جہاردوسالگی کے پہنچا، روز روشن ابتہاج اس تیرہ بخت کا تاریک تر شب یلدہ سے ہوا، یعنی پیمانۂ عمر و زندگانی مادر و پدر بزرگوار حظوظ نفسانی سے لبریز ہوکے اسی سال دست قضا سے دہلا۔‘‘

کہنا صرف یہ چاہتے ہیں کہ کہ جب میں چودہ برس کا ہوا تو ماں باپ فوت ہوگئے، لیکن پیرا یہ ایسا گنجلک اختیار کیا کہ والدین کے ساتھ مطلب بھی فوت ہوگیا۔

تازہ ترین
تازہ ترین