اکتیس مئی کی شب بارہ بجے اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد تحلیل ہو گئیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری عمل کو دس سال کا تسلسل میسر ہوا۔ اس دوران دو انتخابات ہوئے جن میں عوام نے مختلف سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ان ستر سالوں میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے،ورنہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایک سیاسی تحریک کے نتیجے میں قائم ہونے والا ملک ایک حقیقی جمہوریت کی طرف اپنا سفر اپنی تخلیق کے پہلے سالوں میں ہی کر لیتا۔ لیکن دیر آید درست آید۔ اب جب ہم دس سالوں میں تیسری مرتبہ الیکشن کی جانب جا رہے ہیںتو ہم کم از کم اس بات پر تھوڑااطمینان ضرور محسوس کر سکتے ہیں کہ آخر کار ہم نے راہ راست کی طرف قدم بڑھا ہی دیا۔
ان دس سالوں میں ہم نے سینکڑوں مرتبہ یہ سنا کہ جمہوریت کی بساط بس لپیٹی ہی جانے والی ہے۔ میرے بہت سے دوست توحکومت گرنے کی تاریخیں بتاتے بتاتے تھک گئے ۔پتہ نہیں ان سالوں میں کتنے گھنٹوں پر محیط لیکچرز ہوں گے جو ٹی وی کی اسکرینوں پر چلے جن میں ہمیں بتایا جاتا رہاکہ مقتدر حلقوں نے اب حکومت کا بستر گول کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کئے بلکہ مسلم لیگ ن کی حکومت بھی پانچ سال گزار کر ہی گئی۔
یہ تسلیم کرلینے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ان دس سالوں میں جو جمہوریت ہمیں میسر رہی وہ بالکل بھی پرفیکٹ نہیں تھی۔ دونوں حکومتی جماعتیں مختلف اوقات میں یہ شکوہ کرتی پائی گئیں کہ ریاست میں دائمی اقتدار رکھنے والے ادارے انہیں کھل کر عوامی خدمت نہیں کرنے دے رہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں عدلیہ کی جانب سے ایگزیکٹوکے اختیارات میں دخل اندازی کی بہت بات ہوئی، اسی طرح مسلم لیگ ن کی حکومت کے مختلف اراکین بھی اسٹیبلشمنٹ پر سویلین حکومت کے اختیارات چھیننے کی کوشش کا الزام عائد کرتے پائے گئے۔ کسی حد تک ان سیاسی جماعتوں کا شکوہ جائز بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میںاس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں جس طرح سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لینے کے اختیار کا استعمال کیا اس نے حکومتی مشینری کو تقریباََ غیر فعال کر دیا۔ ان دنوں سرکاری ملازمین سپریم کورٹ میں پیشی سے اتنا گھبرانا شروع ہو گئے کہ بہت سوں نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا۔ بہت سے سینئر بیوروکریٹ سرکاری محکموں میں فائلوں پر سائن کرنے سے انکاری ہو گئے۔ سپریم کورٹ نے جس جوڈیشل ایکٹوازم کا مظاہرہ کیا اس کے اثرات صرف پاکستا ن تک ہی محدود نہیں رہے، بلوچستان میں معدنیات کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد غیر ملکی کمپنی پاکستان کو عالمی عدالتوں میں لے گئی۔ غیر ملکی کمپنی نے معاہدے کی خلاف ورزی کو بنیاد بنا کر اربوں ڈالر ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان کو یہ جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح بجلی پیدا کرنے والی ترکی کی ایک کمپنی نے بھی پاکستان کے خلاف عالمی عدالتوں سے رجوع کر لیا۔ ان دونوں کیسز میں سپریم کورٹ نے پاپولسٹ فیصلے دینے سے پہلے شاید یہ نہیں سوچا کہ ان فیصلوں کے اثرات معاشی طور پر کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح مسلم لیگ ن کی حکومت بھی مختلف اوقات پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے حکومتی امور میں مداخلت کی شکایت کرتی پائی گئی۔ حکومت کے ابتدائی سالوں میں یہ شکوہ صرف اسٹیبلشمنٹ تک ہی محدود رہا لیکن پانامہ کیس میں آنے والے فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن نے سپریم کورٹ کو بھی اپنی حکومت کے خلاف جاری سازش کا حصہ قرار دے دیا۔ ویسے تو اس طرح کے الزامات کا سلسلہ نیا نہیں ہے، انیس سو نوے کی دہائی میں بھی دونوں سیاسی جماعتیں اس سے ملتی جلتی شکایات ہی کرتی نظر آتی تھیں۔ لیکن ماضی کے برعکس ان دس سالوں میں ایک نئی بات ہوئی ہے۔ نوے میں جب میاں نواز شریف نے ڈکٹیشن لینے سے انکار کا نعرہ بلند کیا تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد ان کی حکومت کو چلتا کر دیا گیا۔ اسی طرح جب محترمہ بینظیر بھٹو نے فارن پالیسی پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی تو ان سے بھی اقتدار چھین لیا گیا۔ لیکن گزشتہ دس سالوں میں تمام ترکھینچا تانی کے باوجود جمہوریت کا تسلسل برقرار رہا۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ریاستی اداروں کے مابین اقتدار کی جنگ جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے بھی لڑی جا سکتی ہے۔ بہت سے لوگ شاید میری اس بات سے متفق نہ ہوں لیکن یہ ایک بہت مثبت بات ہے۔ یہ جمہوری نظام اگر مزید دس سال بغیر کسی وقفے کے چلتا رہا تو مجھے یقین ہے کہ ریاستی ادارے بھی اپنی اپنی جگہ بنا کر دوسرے کے کام میں مداخلت بند کر دیں گے۔
لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ ہماری جمہوریت کو اب سروس ڈیلوری کی جانب بھی توجہ دینا ہو گی۔ عوام نظام میں یقین تب ہی رکھیں گے جب انہیں یہ یقین ہو گا کہ یہ ان کے حق میں بہتر ہے۔ آنے والی حکومتوں کو نہ صرف ترقی پر زور دینا ہو گا بلکہ عوامی مفاد کی قانون سازی کے لئے بھی بھرپور کوشش کرنا ہو گی۔ ہمارے بہت سے قوانین میں ایسے سقم موجود ہیں جن کی وجہ سے عام عوام کو انصاف نہیں مل پاتا۔ پولیس سے لے کر پروسیکیوشن تک، مجسٹریٹ کی عدالت سے سپریم کورٹ تک،، ابھی بہت کچھ ایسا ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ابھی اصلی جمہوریت سے کافی دور ہیں لیکن ان سالوں کے بعد کم از کم ہمیں یہ اندازہ تو ضرور ہو گیا ہے کہ اس مثالی جمہوریت تک پہنچنے کا راستہ کہاں سے گزرتا ہے۔ بے شک ہماری منزل ابھی دور ہے لیکن اپنی ستر سالہ تاریخ میں ہم منزل کے اتنے قر یب شاید پہلے کبھی نہیں تھے۔ میں جہاں یہ امید کرتا ہوں کہ عوام 2018 کے انتخابات میں بھرپور شرکت کریں گے اور ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لئے گھروں سے نکلیں گے۔ وہیں سیاسی جماعتیں بھی یہ انتخاب ایک موثر منشور کی بنیاد پر لڑیں گی اور عوام کو ایک ایسا قابل عمل پروگرام دیں گی جو ان کی امنگوں کا ترجمان ہو گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)