• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ کی قومی اسمبلی میں حکومتی پارٹی پاپولر کے وزیر اعظم ’’ماریانو راخوئی‘‘ اپنے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد پر ممبران کی رائے دیکھ رہے ہیں۔ تحریک کامیاب ہو یا ناکام اِس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں، سروکار ہے تو صرف اس بات سے کہ ملک میں کرپشن برداشت نہیں کی جا سکتی۔ آہستہ آہستہ ممبران پارلیمنٹ اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ اسمبلی میں لگے ’’گھڑیال‘‘ کی سوئیاں رائے کے اظہار کے وقت کو ختم کرنے کی طرف رواں دواں ہیں۔ کسی قسم کا شور شرابا یا بد نظمی کی کوئی شکایت نہیں، مسکراتے چہروں سے تمام سیاسی پارٹیوں کے ممبران چپ چاپ اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں، رائے کا وقت ختم ہوتا ہے، حکومتی پارٹی کے بعد دوسرے نمبر پر آنے والی ہسپانوی سیاسی پارٹی سوشلسٹ کے مرکزی جنرل سیکرٹری ’’پیدرو سانچز‘‘ کی آنکھوں میں فتح کی چمک صاف دکھائی دیتی ہے ۔یہ وہی پیدرو سانچز ہیں جنہوں نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ سنایا جاتا ہے، 350ممبران کے ایوان میں سے 169نے عدم اعتماد کے خلاف رائے کا اظہار کیا تو ہال میں لگے بلب سرخ ہو گئے جبکہ 180نے حق میں ووٹ دیا تو بلب سبز ہو گئے، ایک ممبر اپنی رائے کا اظہار نہیں کرتا تو سامنے لگا بلب سفید ہی رہتا ہے۔ سبز بلبوں کی تعداد زیادہ ہونے سے عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے، اشاروں اور دھیمے لہجے میں مبارک بادوں کی آوازیں اُبھرتی ہیں ۔ چند گھنٹوں میں ماریانو راخوئی وزیراعظم نہیں رہتے اُن کی جگہ نئے وزیراعظم پیدرو سانچز کو منتخب کر لیا جاتا ہے۔ سابق وزیراعظم ایوان میں اپنی شکست کے بعد چند لمحوں کی تقریر کرتے ہوئے کہتے کہ میں پیدرو سانچز کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، مجھے فخر ہے کہ میں اسپین کا وزیراعظم رہا، جس حالت میں ہمیں اسپین ملا تھا ہم نے اس سے بہتر حالت میں چھوڑا ہے، پارلیمنٹ کے اندر یا باہر میری بات سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔ سابق وزیراعظم یہ کہہ کر پارلیمنٹ سے نکل جاتے ہیں اور سیدھے اپنے سرکاری محل میں جا کر سب کے ساتھ چائے پی کروہ محل بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ نئے منتخب وزیراعظم سے موجودہ ہسپانوی بادشاہ ’’فلپ اے ششم‘‘ حلف لیتے ہیں اور ملک بھر میں پیدرو سانچز کے وزیراعظم بننے کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ اس اعلان کے بعد نہ تو کوئی سڑکوں پر نکلتا ہے، نہ پاپولر پارٹی کے خیرخواہ شور کرتے ہیں، احتجاج کا دور دور تک کوئی اندیشہ نہیں، سابق وزیراعظم کہیں پر بھی یہ کہتے دکھائی نہیں دیتے کہ مجھے کیوں نکالا؟ ووٹ کو عزت دو، عوام میرے ساتھ ہیں، عوام خود ہی احتساب کریں گے وغیرہ وغیرہ، شاید اِسے ہی ایک خوبصورت جمہوریت کہتے ہیں۔ سابق وزیراعظم اور اُن کی پارٹی پر یہ الزام تھا کہ وہ مخصوص صنعت کاروں، تاجروں اور خاص کر شعبہ تعمیرات کے ٹینڈرز من مرضی کے افراد کو دیتے ہیں اور اُن سے عطیات کی مد میں 3فیصد رقم لی جاتی ہے جو پاپولر پارٹی اپنی انتخابی تشہیری مہم پر لگاتی ہے۔ چار سال سے چلنے والے اس کیس میں پاپولر پارٹی کے فنانس سیکرٹری ’’بارسینا‘‘ عدالت میں پیش ہوئے تو انہوں نے کہا تھا کہ ان معاملات کا وزیراعظم ماریانو راخوئی کو علم ہے، ماریانو راخوئی عدالت میں پیش ہوئے تو انہوں نے اس الزام سے انکار کر دیا، عدالت نے سابق وزیراعظم کو سزا تو نہ دی لیکن یہ لکھا کہ بادی النظر میں پارٹی کو اسی طریقے سے مالی معاونت ملتی تھی۔ اس کیس میں پاپولر پارٹی کے کئی سابق وزراء اعلیٰ اور پارٹی عہدیداران جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ سوشلسٹ پارٹی کے پیدرو سانچز نے اسی الزام کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ’’اسمارٹ موومنٹ‘‘ چلائی جس میں سیاسی پارٹی سیوتادانا کے علاوہ اکثریتی پارٹیوں نے اُن کا ساتھ دیا، ساتھ دینے والی پارٹیوں کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ملک میں کرپشن کسی طور برداشت نہیں کر سکتے، حیران کن بات یہ ہے کہ عدم اعتماد تحریک کا ساتھ دینے والی پارٹیوں نے نئی حکومت میں کسی قسم کی وزارت اور عہدہ لینے کی شرط بھی نہیں رکھی۔ نئے منتخب ہونے والے وزیراعظم اور اُن کی سوشلسٹ پارٹی تارکین وطن شہریوں کو مقامی کمیونٹی کے برابر تصور کرتی ہے۔ لہٰذا پاکستانیوں سمیت دوسرے تمام غیر ملکیوں کی زیادہ تعداد نے سوشلسٹ پارٹی کی حکومت کو بھرپور طریقے سے خوش آمدید کہا ہے۔ اسپین پر سوشلسٹ پارٹی 1982سے 1995تک حکومت کرتی رہی ہے تب وزیراعظم ’’فلپ اے گھونسلے‘‘ نے تارکین وطن کو قانونی اسٹیٹس دینے کے لئے 1986اور 1991میں امیگریشن کھولی تھی۔ سوشلسٹ پارٹی کے دور حکومت میں غیر ملکیوں کو طبی اور تعلیمی سہولتوں کے ساتھ ساتھ سماجی تحفظ بھی دیا گیا۔ پھر اسی جماعت نے 2004سے 2012تک اقتدار سنبھالے رکھا تب وزیراعظم ’’خوسے لوئیس سپاتیرو‘‘ تھے انہوں نے 2005میں امیگریشن کھول کر ہزاروں غیر قانونی رہائشی تارکین وطن کو قانونی اجازت نامہ دیا کہ وہ اسپین میں رہیں اور کام کر سکیں ’’سپاتیرو‘‘ کے دور حکومت میں ہی لمبی لائنوں کو ختم کیا گیا اور تارکین وطن کی سہولت کے لئے نئے دفاتر قائم ہوئے ۔سوشلسٹ پارٹی کی حکومت آنے سے تارکین وطن یہ سمجھتے ہیں کہ اب ان کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا اوراُنہیں مقامی کمیونٹی کے برابر حقوق ملیں گے ۔پاکستان اورا سپین کے مابین ثقافتی اور اقتصادی تعلقات مزید مضبوط ہوں گے دونوں ممالک کے وفود حکومتی سطح پر وزٹ کریں گے۔ یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ اسپین میں مقیم پاکستانیوں کی زیادہ تعداد سوشلسٹ پارٹی کی حامی ہے، اُس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سوشلسٹ پارٹی نے اسپین میں پاکستانی کمیونٹی کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے دو پاکستانیوں کو بالترتیب ایم این اے اور ایم پی اے کا امیدوار بنایا تھا ۔نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے پر میں لکھنا چاہتا ہوں کہ سفارت خانہ پاکستان میڈرڈ میں تعینات سفیر خیام اکبر، کمرشل قونصلرز اوربارسلونا میں تعینات قونصل جنرل عمران علی سوشلسٹ پارٹی کے اعلیٰ عہدے داروں کے قریب پہنچنے والے پاکستانیوں کے ذریعے پاکستانی کمیونٹی کو درپیش مسائل جن میں دونوں ممالک کے درمیان دوہری شہریت کا معاہدہ، دس سال کی بجائے پانچ سال بعد ہسپانوی شہریت کا حصول، ڈرائیونگ لائسنس کے حصول میں آسانی، شہریت کے لئے دیئے جانے والے تحریری امتحان کی چھوٹ، ان پڑھ پاکستانیوں کے لئے خصوصی سہولتیں اور ایسے بہت سے کام جو ہسپانوی حکومت نے کرنے ہیں وہ آسانی سے کرائے جا سکتےہیں۔ پاکستان اور اسپین کے درمیان درآمدات اور برآمدات کی شرح سالانہ پانچ سو ملین یورو تھی لیکن آخری تین سالوں میں یہ حجم بڑھ کر ایک بلین یورو سالانہ سے زیادہ ہوچکا ہے جو انتہائی خوش آئند ہے۔ اسپین کے بڑے ادارے زارا، مینگو، لیفتیس، ماکسیمو ڈوٹی اور دوسرے پاکستان میں اپنے اسٹورز بنا چکے ہیں ساتھ ساتھ ہسپانوی تاجر پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، اب دونوں ممالک کے درمیان ان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لئے ہمارے سرکاری اداروں کو موجودہ حکومتی نمائندوں کے ساتھ میٹنگز اور تبادلہ خیال کے ادوار ترتیب دینے ہوں گے اور اُس کے لئے سوشلسٹ پارٹی کے پاکستانی عہدیداروں محمد اقبال چوہدری، حافظ عبدالرزاق صادق، مہر جمشید احمد اور دیگر ممبران کو ساتھ لے کر دونوں ممالک کا ثقافتی اور اقتصادی سفر طے کرنا ہوگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین