• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہے تو دریائے سندھ لیکن....

کنول خان

دُنیا کے طویل ترین دریاؤں میں شمار ہونے والا دریائے سندھ، ایک زمانے میں طویل رقبے کو سیراب کرتا تھا۔ آج کا دریائے سندھ اپنے اصل حجم کا دس فی صد بھی نہیں رہا ۔دریا میں پانی کم ہوجانے کی بے شمار وجوہات میں سے ، ایک اس پر بننے والے ڈیم اور زراعت کے لیےپانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال بھی ہے۔ جنگلات کی تیز رفتار کٹائی، صنعتی آلودگی اور زمینی درجہء حرارت میں اضافہ انڈس ڈیلٹا کے علاقے میں نباتات اور حیوانات کے ساتھ ساتھ وہاں بسنے والے انسانوں کی زندگیوں پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کر رہا ہے۔تبت کے پہاڑوں میں سے نکلنے والا یہ دریا لداخ سے ہوتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے ، پشاور اور راولپنڈی کے درمیان سے ہو کر گزرتا ہوا صوبۂ سندھ میں بحیرہ ٔ عرب میں جا کر گرتا ہے، لیکن اب اس دریا کے آخری حصے میں پانی کی مقدار اتنی کم ہو چکی ہے کہ سمندر کا پانی اس میں آنا شروع ہو گیا ہے۔دریا میں پانی کم ہونے سے زیر زمین پانی کی سطح بھی بہت نیچے چلی گئی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ گہرے کنویں کھودنا پڑ رہے ہیں۔زمین میں نمک کی زیادتی کی وجہ سے پانی پینے کے اور زمین کاشت کے قابل نہیں رہی۔ زمینی پانی کی سطح بھی کہیں نیچے جا چکی ہے اور پینے کے صاف پانی کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ اس صورت حال کے باعث گزشتہ دو برسوں کے دوران انڈس ڈیلٹا کے تین دیہات کے تقریباً تین ہزار افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔مشکل حالات سے دوچار دیہات کی ایک مثال ’’جاٹ محمد‘‘ گاؤں ہے، جہاں کے باسی پینے کے صاف اور میٹھے پانی کو ترس رہے ہیں۔ یہ لوگ مل جُل کر کشتیوں کے کرائے برداشت کرتے اور دور دراز علاقوں سے مہنگے داموں پانی لا کر استعمال کرتے ہیں۔ توانائی کے معدنی وسائل تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور توانائی کے متبادل ذرائع پر توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔یہاں کچھ نجی تنظیموں کی جانب سے پلانٹ تو لگائے گئے ہیں، جن کے ذریعے نمکین پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کیاجاتا ہے،مگر یہ پانی گاؤں والوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

تازہ ترین