راولپنڈی؍لاہور (نمائندہ جنگ؍ مانیٹرنگ سیل) الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پروفیسرحسن عسکری کو نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب اور نواب علاؤالدین مری کو نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان مقرر کردیا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن کا احتجاج مسترد کرتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا اور آج دونوں وزرائے اعلی حلف اٹھائینگے۔ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کی تقرری کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں اہم اجلاس ہوا، اجلاس کی صدارت کمشنر الیکشن کمیشن سردار رضا نے کی جبکہ چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے ارکان بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ اجلاس کے بعد ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کا فیصلہ متفقہ طور پر ہوا، الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 224 اے کے تحت ان کی تقرری کی اور فیصلہ میرٹ قانونی تقاضوں کے مطابق کیا ہے۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن بلوچستان نے نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان کیلئے نواب علاؤالدین کو نامزد کردیا ہے، ان کا نام حکمران جماعت کی جانب سے پیش کیا گیا تھا، اس کے ساتھ ہی چاروں صوبوں میں نگراں وزرائے اعلیٰ کا تقرر مکمل ہوگیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے حسن عسکری کی تقرری کو مسترد کردیا، احسن اقبال، سعد رفیق اور خرم دستگیر کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کی تقرری کا معاملہ پورے الیکشن عمل کو مشکوک بنادےگا، ہمارے نامزد کردہ افراد اچھی شہرت کے حامل تھے ان کی غیر جانبداری پر کوئی شک نہیں تھا لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ الیکشن کمیشن نے حسن عسکری کا نام فائنل کیا۔ انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ، اس کی قیادت اور جمہوریت کے بارے میں حسن عسکری کے خیالات سے لوگ خود واقف ہيں، ان کے ٹوئٹ اور آرٹیکل (ن) لیگ کے خلاف موجود ہیں جو ہماری پارٹی سے تعصب کا اظہار کرتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھاکہ حسن عسکری غیر جانبدار آدمی نہیں ہیں، ضروری ہے کہ سیٹ اپ نیوٹرل ہو اور عوام کو نیوٹرل ہوتا نظر بھی آئے لیکن پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کی تقرری نے پورا معاملہ مشکوک بنادیا، نظر آرہا ہے یہ الیکشن شفاف اور آزادانہ نہیں ہوں گے۔ سابق وزیراعظم نے مطالبہ کیا کہ حسن عسکری سے متعلق الیکشن کمیشن اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور پنجاب میں مکمل طور پر غیرجانبدار نگران سیٹ اپ لائے۔ دریں اثناء ن لیگ کی طرف سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو مسترد کرنے پر ترجمان الیکشن کمیشن الطاف احمد خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے آئینی تقاضا مکمل کیا، الیکشن کمیشن کسی دبائو میں فیصلہ نہیں کرتی،الیکشن کمیشن کو حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی طرف سے نگراں وزیراعلیٰ کیلئے دو دو نام موصول ہوئے، چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں کمیشن کے چار ارکان نے ان ناموں پر غوروخوض اور مشاورت کے بعد متفقہ طور پر ایک نام منتخب کیا یہ الیکشن کمیشن کی آئینی صوابدید ہے یہی طریق کار خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے نگراں وزرائے اعلیٰ کے تقرر کیلئے اپنایا گیا تھا،ترجمان نےکہامسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف نے مشاورت کے بعد ہی دو دو نام الیکشن کمیشن کو بھجوائے تھے اس میں سے ایک نام الیکشن کمیشن نے سیلیکٹ کرناہوتا ہے، الیکشن کمیشن نےآئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق اپنا کام کیا اب مسلم لیگ(ن) مطالبہ کررہی ہے کہ الیکشن کمیشن نظرثانی کرے، الیکشن کمیشن آئین کی پیروی کریگا، علاوہ ازیں آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن کمیشن کو نگراں وزیراعظم، وزیراعلیٰ کی تقرری کیلئے ایک بار فیصلہ کرنا ہوتاہے، سپیکر نے نام بھجوائے تھے، الیکشن کمیشن کافیصلہ حتمی ہوتا ہے ،اس پر نظرثانی کی گنجائش ہے اور نہ ہی فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے کیونکہ آئین اور قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کے فیصلے پر عدالت میں اپیل دائر نہیں ہوسکتی۔