جب 1792ء میں نیویارک اسٹاک ایکس چینج کی بنیاد ایک درخت کے نیچے رکھی گئی تو اس وقت امریکا میں خواتین کو ووٹ ڈالنے، وصیت لکھنے اورجائیداد اپنے نام رکھنے تک کی اجازت نہیں تھی۔ اب نیویارک اسٹاک ایکس چینج کی 226سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون اس ادارے کی سربراہ بننے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔
43سالہ ’اسٹیسی کوننگھم‘ نیویارک اسٹاک ایکس چینج کی اولین خاتون صدر بننے سے پہلے، اسی ادارے کی چیف آپریٹنگ آفیسر(COO) تھیں۔ انٹرکانٹی نینٹل ایکس چینج، جسے دنیا نیویارک اسٹاک ایکس چینج کے طور پر جانتی ہے، نے اپنے اعلامیے میں کہا، ’بہ طور چیف آپریٹنگ آفیسر، اسٹیسی کوننگھم ایک ایسی لیڈر کے طور پر پہچانی جاتی ہیں، جن کی توجہ ہر وقت اپنے صارف پر مرکوز رہتی ہے۔ آج سے نصف صدی قبل ایک خاتون موریئل سیبرٹ(Moriel Siebert)پہلی بار نیویارک اسٹاک ایکس چینج کی رُکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں اور آج اسٹیسی کوننگھم نیویارک اسٹاک ایکس چینج گروپ کی سربراہ کے طور پر نئی نسل کی نمائندگی کررہی ہیں‘۔
اسٹیسی کی ترقی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب صرف دو ماہ قبل ہی، وال اسٹریٹ کی پہچان ’سانڈ‘(Charging Bull)کے سامنے نصب کیے گئے ایک لڑکی کی شبیہہ والےمجمسے کو وہاں سے ہٹا کر نیویارک اسٹاک ایکس چینج کے عین سامنے لگایا گیا تھا۔4فٹ2انچ طویل کانسی کے اس مجسمے کو Fearless Girl(نڈر لڑکی) کے نام سے پُکارا جاتاہے۔ اس کا نام ’نڈر لڑکی‘اس لیے پڑگیا کیوں کہ یہ اپنے دونوں ہاتھ کمر پر رکھےبے باک انداز میں سربلند کیے ہر وقت وال اسٹریٹ کے مست سانڈ کو تکتی رہتی ہے۔ نیویارک اسٹاک ایکس چینج کا کہنا تھا کہ ’نڈرلڑکی‘ کو ایکس چینج کے قریب لانے کےمقصدکو وہاں درج کمپنیوں میں خواتین کی نمائندگی کو بہتر بنانےکی علامت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
ہرچند کہ 29فی صد کے ساتھ، دیگر کسی بھی صنعت کے مقابلے میں مالیاتی صنعت میں سینئرلیڈرشپ سطح پر خواتین کی نمائندگی کا تناسب بہتر ہے، تاہم یہ تناسب اداروں کی سربراہی تک منتقل نہیں ہوپاتا، کیوں کہ صرف 5فی صد مالیاتی اداروں کی سی ای اوز خواتین ہیں۔ 43سالہ اسٹیسی کوننگھم نے تقریباً اپنا سارا کیریئر ہی نیویارک اسٹاک ایکس چینج میں گزارا ہے۔اسٹیسی جب لیہائی یونیورسٹی میں انڈسٹریل انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کررہی تھیں، انھوں نے اسی اسٹاک ایکس چینج کی ایک بروکریج فرم میں انٹرن شپ کی تھی۔ اسٹیسی کے والد نیویارک اسٹاک ایکس چینج کی بروکریج فرم میں نوکری کرتے تھے، اور انھوں نے اسٹیسی کو انٹرن شپ دلوانے میں اپنا اثرورسوخ استعمال کیا تھا۔
دو سال بعد ، اسٹیسی نیویارک اسٹاک ایکس چینج میں اپنی پہلی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور وہ ’فلور کلرک‘ بن گئیں۔ اس وقت نیویارک اسٹاک ایکس چینج میں کام کرنے والے تقریباً 13سو افراد میں خواتین کی تعداد تقریباً تین درجن تھی، جن میں اسٹیسی بھی شامل تھیں۔’وال اسٹریٹ جرنل‘ میں اس وقت شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق، مردوں اور خواتین میں فرق صرف متناسب نمائندگی کا نہیں تھا۔ ایکس چینج کے ساتویں فلور پر واقع خواتین کا ’ریسٹ روم‘ کسی ’پُرانے فون بوتھ‘ کے اندر بنا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اس کے برعکس، مردوں کا ’ریسٹ روم‘ شاندار بنا ہوا تھا، جہاں صوفے بھی رکھے ہوتے تھے اور ہر وقت ایک ’اٹینڈنٹ‘ بھی چوکنا رہتا تھا۔
تین سال پہلے اسٹیسی کوننگھم کو نیویارک اسٹاک ایکس چینج کا چیف آپریٹرنگ آفیسر بنایا گیا اور تین سال بعد اسی ایکس چینج کے بورڈ نے انھیں 67واں صدر منتخب کیا ہے۔اسٹیسی کوننگھم ایک ایسے وقت میں نیویارک اسٹاک ایکس چینج کی صدر منتخب ہوئی ہیں، جب اسٹاک ایکس چینج عمومی طور پر اپنی کشش کھوتا جارہا ہے۔ ایک وقت تھا، جب اپنی کمپنی کو اسٹاک ایکس چینج پر درج کروانا، ہر انٹرپرنیوئر کا خواب ہوتا تھا۔ آج دنیا کی بلین ڈالر یا اس سے زائد سرمایہ رکھنے والی نجی کمپنیاں، ’پرائیویٹ‘ رہنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا میں آئی پی او لانے کی ریگولیٹری اور مالیاتی لاگت بہت زیادہ ہے، جب کہ ’پبلک شیئرہولڈر‘ کمپنی بننا ایک اضافی دباؤ سمجھا جاتا ہے۔
ماضی میں، حصص کی لین دین کے کاروبار میں، نیویارک اسٹاک ایکس چینج اور نیسڈیک کا غلبہ ہوتا تھا، تاہم بدلتے قوانین اور الیکٹرانک کاروبار نے ان کے غلبے کو توڑ دیا ہے۔ ایک دہائی قبل وال اسٹریٹ کے مجموعی کاروباری حجم میں نیویارک اسٹاک ایکس چینج کا حصہ 40فی صد ہوتا تھا، جو اب کم ہوکر 22فی صد رہ گیا ہے۔