• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عید مشن

محمد حسان شاہ

’’دادا جان! اس عید پر میں آپ سے دو سو روپے عیدی لوں گا‘‘، عثمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’میں بھی دو سو ہی لوں گا‘‘، عادل نے جلدی سے کہا۔

’’اگر یہ بات ہے تو میں بھی اتنی ہی عیدی لوں گی‘‘، ثناء بولی۔

دادا جان نے ایک نظر بچوں پر ڈالی، عینک اتار کر میز پر رکھی اور آہستہ سے کہنے لگے کہ، ’’خیر تو ہے اس عید پر کیا پروگرام بنائے بیٹھے ہو؟‘‘

’’پروگرام تو کوئی خاص نہیں!‘‘ ،عثمان نے کہا۔

’’تو پھر اس بار عیدی میں اتنا اضافہ کس لئے؟‘‘ انہوں نے آنکھیں نکالیں۔

’’بس!، ایسے ہی‘‘، عادل مسکرایا۔

’’کیا مطلب…؟‘‘

’’مطلب یہ ہے دادا جان! ہم اس دفعہ سب سے دگنی عیدی وصول کریں گے‘‘۔ ثناء نے کہا۔

’’وہی تو پوچھ رہا ہوں آخر کیوں…؟ دیکھو بھئی جب تک تم یہ نہیں بتائو گے کہ تم ان پیسوں کا کیا کرو گے، اس وقت تک ہم دینے کا وعدہ ہرگز نہیں کرتے‘‘۔

تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے ہوئے۔ پھر عثمان کہنے لگا، ’’ہم معافی چاہتے ہیں دادا جان!، وقت سے پہلے کچھ نہیں بتا سکتے‘‘۔

اس دوران ابا جان، کمرے میں داخل ہوئے، انہیں جب بات معلوم ہوئی تو کہنے لگے، ’’ایسی بات ہے تو پھر ہم بھی دگنی عیدی دینے کا وعدہ نہیں کرتے‘‘۔

’’ایسے تو نہ کہو عبدالرحمان!‘‘ دادا جان نے بیٹے کو ٹوکا۔

’’گویا آپ انہیں دگنی عیدی دیں گے؟‘‘ ابا جان سراپا حیرت تھے۔

’’دیکھو یہ بچے نہیں ہیں، ہائی اسکول کے طالب علم ہیں، مدرسے بھی پڑھنے جاتے ہیں، دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں۔ یہ بہت سمجھدار بچے ہیں اور ہمیں اپنے بچوں پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ مجھے یقین ہے یہ کبھی کوئی غلط کام نہیں کرسکتے‘‘۔

’’لیکن ابا جان…!‘‘

’’پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، عیدی ملنے کے بعد یہ یقیناً ہمیں بتائیں گے‘‘۔

’’بالکل دادا جان، ہم آپ لوگوں کو ضرور بتائیں گے‘‘۔ عادل نے جلدی سے کہا۔

’’دادا جان! ایک بات اور ہے‘‘، عثمان نے کہا۔

’’وہ کیا…؟‘‘

’’وہ یہ کہ ہمیں عیدی، عید کی نماز کے فوراً بعد ملنی چاہئے‘‘۔

’’منظور ہے، ایسا ہی ہوگا، میں سب سے کہہ دوں گا‘‘۔

’’ایک بات اور بھی ہے۔ عیدی لے کر میں اور عادل گھر سے چلے جائیں گے، مم… میرا مطلب ہے کہ آپ لوگوں سے عید مل کر پھر ظہر کی نماز کے بعد لوٹیں گے‘‘۔

اس کی بات سن کر دادا جان اور ابا جان نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر ابا جان نے کہا، ’’تم یہ وقت کہاں گزارو گے؟‘‘

’’یہ بھی نہیں بتا سکتے اور ثنا! تم بھی نہیں بتائو گی‘‘،عادل نے کہا، ’’ ’’ایسا ہی ہوگا، تم فکر نہ کرو‘‘، ثنا نے جواب دیا۔

’’گویا ثنا کو معلوم ہے کہ تم یہ وقت کہاں گزارو گے؟‘‘ ،ابا جان نے کہا۔

’’جی ہاں، اسے معلوم ہے، چونکہ یہ بڑی ہے اس لئے ہمارے ساتھ نہیں جائے گی، گھر پر ہی رہے گی‘‘۔ عادل کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔

’’لگتا ہے کوئی چکر چلا رہے ہو‘‘، ابا جان نے کہا۔

’’یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ہم کیا کرنے والے ہیں‘‘۔

’’عید کے دن بارہ بجے کا وقت تھا۔ گھر کے سارے لوگ بڑے کمرے میں موجود تھے۔ ایک طرف دادا جان بیٹھے ہوئے تھے، ان کے دائیں طرف ابا جان اور بائیں جانب بھائی جان موجود تھے۔ ثنا اپنی امی اور دو بڑی بہنوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔

’’ثنا بیٹی، تمہارے بھائی آخر کہاں گئے ہیں؟‘‘

’’امی جان، وہ مشن پر گئے ہیں‘‘۔

’’مشن پر…!! کیا کہہ رہی ہو۔ کون سے مشن پر گئے ہیں‘‘، مشن کا لفظ سن کر وہ پریشان ہوگئیں۔

’’گھبرایئے نہیں، وہ جلدی لوٹ آئیں گے‘‘۔ ثنا مسکرائی۔ ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو انہوں نے نماز ادا کی۔ نماز پڑھ کر فارغ ہوئے ہی تھے کہ عثمان اور عادل آگئے۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹ تھی، ایک سکون سا تھا جیسے وہ کوئی بہت بڑی کامیابی حاصل کرکے آئے ہوں۔ سب نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔

’’آج تم نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ انتظار کی سولی پر لٹکائے رکھا سارا دن‘‘، ابا جان کے لہجے میں شکایت تھی۔ ثنا ان کے قریب جاکر بولی۔ ’’بھائی، کیا مشن کامیاب رہا؟‘‘

وہ مسکرائے، ’’ہاں الحمدللہ…!‘‘

’’آپس میں ہی باتیں کرتے رہو گے یا ہمیں بھی کچھ بتائو گے؟‘‘ دادا جان نے کہا۔

’’بتاتا ہوں بس ابھی بتاتا ہوں‘‘، عثمان نے کہا اور پھر اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ چند لمحے خاموشی سے گزر گئے پھر اس نے آنکھیں کھولیں اور کہنے لگا، ’’دادا جان! عید خوشی کا موقع ہے۔ ہم ہر سال اس دن کو شاندار طریقے سے مناتے ہیں، دعوتیں اڑائی جاتی ہیں، طرح طرح کے کھانے پکائے جاتے ہیں اور پھر عزیز و اقارب کے ساتھ مل کر کھانے کھائے جاتے ہیں۔ ہر چہرہ خوشی سے چمک رہا ہوتا ہے۔ ہم اس موقع پر یا اس جیسے دوسرے موقعوں پر غریبوں کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ مساکین اور غریب لوگ ہماری توجہ کے مستحق ہیں، ہمیں ان کا خیال رکھنا چاہئے۔ عید کے موقع پر اگر تھوڑی سی ہمت کی جائے تو ہم بہت سے مرجھائے چہروں پر خوشی لا سکتے ہیں۔ اس دفعہ ہم تینوں نے اپنی عیدی ایسے ہی لوگوں میں بانٹنے میں خرچ کی ہے۔ ہم نے محلے میں گلیوں میں آس پاس کی بستیوں میں ایسے مستحق لوگوں کو تلاش کیا اور ان کی مدد کی۔ دعا کیجئے اللہ تعالیٰ ہمیں آئندہ بھی ایسے کاموں کی توفیق عطا فرمائے۔ عثمان خاموش ہوگیا۔

اس کی باتوں نے سب پر جیسے جادو سا کردیا۔ سب انہیں حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ثنا اور عادل خاموش تھے۔ ابا جان، دادا جان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دادا جان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ان کے پوتوں اور پوتی نے ان کا سر فخر سے بلند کردیا تھا۔

تازہ ترین
تازہ ترین