• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں اسٹیٹ بینک کی طرف سے کسب بینک کو ایک ہزارروپے میں فروخت کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے معاملے پر چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا ہے۔ اب پارلیمنٹ توختم ہوگئی ہے مگر کمیٹی نے جاتے جاتے نہایت اہم مسئلے اور فراڈ کی نشاندہی کی ہے۔ اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک کی رپورٹ پر مزید کارروائی کی جاسکتی ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کئی اہم معاملات اور مسائل پر ازخود نوٹس لئے ہوئے ہیں اور عوام کی طرف سے اس حوالے سے بڑی پذیرائی مل رہی ہے ایک اچھے خاصے چلتے ہوئے بنک کو سابق وزیر خزانہ اور ان کے چند ساتھیوں کی ملی بھگت سے صرف ایک ہزار روپے میں فروخت کردیا۔ یہ بڑا اہم معاملہ ہے اور ملکی تاریخ کا بڑا عجیب و غریب فراڈ ہے۔
ہمارے خیال میں چیف جسٹس کو اس بارے میں ازخود نوٹس لے کر اصل حقائق اور واقعات کی تہہ تک پہنچنا چاہئے اور اس فراڈ کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے۔
پچھلے ہفتے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے روزے کی حالت میں صبح دس بجے سے رات دس بجے تک لوگوں کے مسائل اور مفاد عامہ کے کیسز سن کر پاکستان کی عدلیہ کی نئی تاریخ رقم کردی ہے آج تک کسی چیف جسٹس نے مفاد عامہ کے مسائل کے حوالے سے اتنے طویل وقت کے لئے عدالت نہیں لگائی۔
پانچ ہزار سے زائد سائلین کی کم از کم دو کلومیٹر لمبی قطار تھی اور چیف جسٹس نے موقع پر کئی احکامات جاری کئے اور انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے کہا کہ وہ آئی جی پنجاب کو کہہ دیں کہ جو احکامات سپریم کورٹ دے ان پر فوری عمل درآمد کردیا جائے۔ نظر انداز کرنے پر نتائج بھگتنا ہوں گے۔ سائلین ڈی جی خان، راجن پورہ، کراچی اور نوشہرہ سمیت کئی دوسرے شہروں سے آئے تھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پولیس اور دیگر محکمے لوگوں کے مسائل پر بھرپور توجہ دیں تو لوگوں کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ چیف جسٹس کے پاس شکایات لے کر آئیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں جس کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا اس کو کوئی پوچھتا نہیں۔ آپ سیکرٹریٹ چلے جائیں، کسی سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری اور ڈپٹی سیکرٹری سے ملنا ایک جان جوکھوں کا کام ہے۔ ہم پچھلے دنوں گھومتے گھومتے دفتر لارڈ صاحب (لاہور سیکرٹریٹ) چلے گئے۔ ہر بیورو کریٹ کے دفتر کے باہر برآمدوں میں بنچوں پر بے حال لوگ روزے کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اندر صاحب بہادر اے سی میں بیٹھے تھے۔ پھر بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر افسر کے دفتر کا دروازہ بند ہوتا ہے۔ آپ کو اس کے کمرے میں جانے کیلئے پہلے پی اے کے کمرے میں جانا ہوتا ہے اب پی اے کی مرضی کہ آپ کو جانے دے یا پھر بٹھائے رکھے۔ قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ ’’بیوروکریٹس پبلک سرونٹ ہیں‘‘۔ یہاں الٹا حساب ہے پبلک ان افسروں کے آگے نوکر بنی ہوئی ہے، آپ کسی دفتر میں چلے جائیں آپ کو ریکارڈ نہیں ملتا۔ لوگ خوار ہوتے رہتے ہیں۔ اب ان حالات میں لوگوں کی امید کی کرن صرف چیف جسٹس آف پاکستان ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ اس دفتر لارڈ صاحب میں پنجاب کے کئی وزراء اعلیٰ بیٹھتے تھے۔ لوگوں کے مسائل سنتے تھے اور ان پر عمل درآمد کراتے تھے۔ ان میںحنیف رامے، غلام حیدر وائیں، نواب صادق حسین قریشی، مصطفیٰ کھر اور کئی دیگر نام ہیں۔ ہم نے خود اپنے زمانہ طالب علمی میں سابق وزیراعلیٰ حنیف رامے کو سیکرٹریٹ میں بیٹھے کئی مرتبہ دیکھا تھا اور لوگ درخواستیں لے کر ملنے کے لئے آئے تھے۔ پاکستان کے نگران وزیراعلیٰ پروفیسر حسن عسکری رضوی جو کہ پنجاب یونیورسٹی میں استاد رہے ہیں۔ امید ہے کہ وہ روایتی وزیراعلیٰ نہیں بنیں گے اور سیکرٹریٹ میں بیٹھا کریں گے اور لوگوں کے مسائل پر بھی توجہ دیں گے۔ پاکستان کو بنے ہوئے ستر برس ہوگئے مگر غریب کا مسئلہ آج بھی حل نہ ہوا۔ شہباز شریف نے کئی اچھے کام کئے۔ کاش وہ سیکرٹریٹ میںخود بیٹھتے اور لوگوں سے ملتے اور ان کے مسائل حل کرتے۔ کھلی کچہری لگاتے تو ان کو اندازہ ہوتا کہ لوگ پولیس، محکمہ تعلیم، صحت ، محکمہ مال اور محکمہ ایکسائز سے کس قدر تنگ اور پریشان ہیں۔ شہباز شریف صاحب آپ اگر ان دس برسوں میں صرف دس روز بھی سیکرٹریٹ میں آکر بیٹھتے تو یقین کریں بیوروکریسی کا رویہ تبدیل ہوجاتا، مگر آپ نے اپنے دوسرے دور میں سب سے زیادہ زور میٹنگوں پر رکھا اور میٹنگیں بھی آپ سیکرٹریٹ سے کبھی دور اور کبھی نزدیک کرتے رہے۔ لیکن سیکرٹریٹ کے اندر آپ نہ آئے۔
چیف جسٹس نے 56کمپنیوں میں بھاری تنخواہیں اور پرکشش مراعات لینے والے افسروں کے حوالے سے شہباز شریف کی وضاحت کو مسترد کردیا اور کہا کہ وہ شہباز شریف کے بیان سے قطعی طور پر مطمئن نہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب پنجاب میں ہر طرح کے محکمے موجود ہیں تو کمپنیاں بنانے اور لوگوں کو نوازنے کا مطلب کیا؟ اگر کوئی یہ کہے کہ ماضی میں بھی کمپنیاں بنائی گئیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے خیال میں ماضی میں شاید ہی کوئی کمپنی بنائی گئی ہو۔
دوسرے ماضی میں جو بھی کمپنی بنائی گئی۔ آج وہ کمپنی کہاں ہے؟ اگر ماضی میں کوئی غلطی کی گئی ہے تو اس کو کیوں دہرایا جارہا ہے؟ ماضی میں وزراء اعلیٰ سیکرٹریٹ میں جاتے تھے۔ یہ اچھی روایت کیوں نہیں اپنائی گئی؟ اور یہ کہنا ہے کہ پی آئی اے کے چیئرمین تیس لاکھ اورنیشنل بنک کے صدر 75لاکھ روپے تنخواہ لیتے ہیں تو یہ مثال بھی مناسب نہیں۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے کیا افسروں کو اتنی بھاری تنخواہیں دینا جائز ہے؟ پھر آپ نے کمپنیوں میں جو لوگ بھرتی کئے ان کو بھی لمبی چوڑی تنخواہیں دے دیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کمپنیوں میں وہ افسر آگئے جو پہلے انہی شعبہ جات کے محکموں میں افسر تھے۔ وہاں سے طویل رخصت ہو کر کمپنیوں میں آگئے۔ کتنے مزے ہیں۔ سرکاری نوکری بھی برقرار اور کمپنی میں بھی عیاشی کی جارہی ہے اور دو چار سال بعد دوبارہ سرکاری ملازمت میں جا کر وہاں کے تمام بینیفٹس لے کر ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ کمپنیاں بنانے کا فیصلہ قطعاً درست نہیں تھا اور اگر ان افسروں کی تنخواہوں کا فیصلہ فنانشل رولز کے تحت بورڈ کرتا ہے تو بورڈ کو چیک کون کرتا ہے؟ اور کون ان کے رولز بناتا ہے یعنی جو رولز پسند آئے وہ بنا لئے۔
قلت آب پر از خود نوٹس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب ہماری ترجیحات میں پانی سب سے اہم ہے۔ بھارت نے کشن گنگا ڈیم بنا کر دریائے نیلم کا پانی روک دیا۔ اگر ہم نے اپنے بچوں کو پانی نہیں دیا تو کچھ بھی نہیں دیا‘‘
اس وقت پورے ملک میں پینے کے لئے صاف پانی کی شدید قلت ہے ابھی چند روز قبل کورنگی کراچی کے مکینوں نے مظاہرے کے دوران بوتلوں میں جو پانی میڈیا کو دکھایا۔ اس سے اگر سفید کپڑے دھوئے جائیں تو وہ بھی میلے ہوجائیں گے اور یہ گندا پانی لوگ پینے پر مجبور ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2025ء میں پاکستان میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی مگر کسی حکومت نے اس مسئلے پر توجہ نہیں دی ۔پانی کی قلت کا شکار ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ 70فیصد زرعی پانی دوران ترسیل ضائع ہو جاتا ہے۔ آج تک کسی نے اس حوالے سے کام نہیں کیا۔ بھارت نے پاکستان کو بنجر کرنے کا پورا پورا انتظام کر لیا ہے اور اس نے ان 70برسوں میں 200سے زائد چھوٹے بڑے ڈیم بنا لئے جبکہ پاکستان کے پاس جو ڈیمز ہیں آپ ان کو انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے اگر پاکستان ڈیمز بنا لے تو 50لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوسکتی ہے۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ پاکستان میں ہزار فٹ کھدائی کے بعد پانی کی شکل نظر آتی ہے۔پینے کے لئے صاف پانی کہیں پندرہ سو فٹ پر جا کر ملتا ہے۔چیف جسٹس نے ایک میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو نکالا اور اسی سابق وائس چانسلر کو سلیکشن کمیٹی نےKEMUکا وی سی منتخب کرلیا۔ اس سے بڑامذاق اور کیا ہوگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین