تحریر:مولی کینیری
اب تک کی واضح ترین نشانی یہ ہے کہ ہم پوسٹ واراکنامک آرڈرکی معمول کی بندھنوں سے نکل آئے ہیں،حتیٰ کہ اسٹیل یونینز بھی ڈونلڈٹرمپ کی جانب سے یورپ، میکسیکو اور کینیڈاسے اسٹیل اورایلومینیئم کی درآمدات پر نئے محصولات لاگو کرنے کے خلاف کھل کر سامنے آگئی ہیں۔
امریکا میں ایساخاص بڑاسیاسی حلقہ دکھائی نہیں دیتا جوبذات خود پروٹیکشن ازم(ملکی مصنوعات کے تحفظ کا معاشی نظام یا تحفظ تجارت)کی اس نئی لہر کو بڑھانے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہو،لہذاکوئی شخص صرف یہ فرض کرسکتا ہے کہ امریکی صدر کی اس سادھے اورتباہ کن غلط جمع وتفریق کے حسابی عمل’’زیادہ سے زیادہ محصولات مفید ،اورکم سے کم ترنقصاندہ ہوتے ہیں۔‘‘ اور اس سنسنی خیرڈرامے میں ان کے ذاتی نفرت یا اشتعال انگیزجذبات کے تحت رہنمائی کی جارہی ہے۔
جہاں تک اس سلسلے میں میکسیکو اورکینیڈا کاتعلق ہے ،تو اس معاملے میں ’’سبب جنگ‘‘واضح ہے:شمالی امریکی کی آزادتجارت معاہدے پرازسرنو مذاکرات تعطل کا شکارہوچکے ہیں، اورامریکی صدرشاید یہ امرمبنی احتیاط محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنے مذاکراتی شراکت داروں کو یہ یاددہانی کرائیں کہ امریکا کے لئے قابل قبول اندازمیں ان مذاکرات کو منطقی انجام تک نہ پہنچانے کی سنگین قیمت اداکرنا پڑے گی۔
’’امریکی ٹیکس دہندگان کے مالی امداد سے قائم یہ مشترکہ دفاعی نظام امریکی باشندوں کے لئے دستیاب آرام دہ زندگی کے مقابلے میں نصف ارب(پچاس کروڑ)یورپی باشندوں کے لئے زیادہ اچھی زندگی کوقابل عمل بناتا ہے۔ یہ عدم مساوات،لہذاٹرمپ کہیں گے،کہ اس حوالے سے لازمی طورپر اصلاح کی جانی چاہئے۔‘‘
لیکن یورپی یونین کا معاملہ کیا ہے؟غیر فعال مذاکرات کے بغیر،یقینی طورپرامریکا کے قریب ترین 28اتحادیوں کو مشتعل کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی ہے۔
جبکہ وہ(امریکی صدر) اس بات پر مبینہ طورپر غضبناک ہوجاتے ہیں کہ ففتھ ایونیومیں قطاراندرقطارکھڑی تمام گاڑیاں جرمن ساختہ ہیں،میں یہ سمجھتا ہوں کہ یورپ کے ساتھ ٹرمپ کا مسئلہ تجارت کی بنیاد پر نہیں ہے،لیکن یہ تجارتی اقدامات ان کے اختیارمیں سب سے موثرآلہ کارہیں جس سے وہ ایسے یورپی رہنماؤں کی توجہ حاصل کرسکتے ہیں جو ان سے ناراض ہیں۔موجودہ امریکی صدران محصولات کو ایک قانونی ہتھیارتصورکرتے ہیں جو ان ممالک کے خلاف استعمال کیے جانے ہیں جو انہیں(ٹرمپ) کو ناراض کرنے والا رویہ رکھتے ہوں جبکہ وہ اسے کسی معاشی انتقام یعنی ’ ادلے کے بدلے‘ کی مناسبت سے نہیں دیکھتے۔
ٹرمپ سمجھتے ہیں ،شاید آئزن آورسے لے کراب تک کے کسی بھی دوسرے امریکی صدر سے بہتر طورپر، کہ وہ کھربوں(ڈالرز) جو ہم دنیا کی ایک عظیم ترین لڑاکا فورس منظم رکھنے پر خرچ کرتے ہیں،وہ سادہ لفظوں میں کسی طورپر امریکیوں کے اپنے مفاد میں نہیں ہیں۔
وہ(صدرٹرمپ) اوران کا سیاسی حلقہ یورپی اقوام(ان میں سے سربراہ جرمنی) کی ’’منافقت‘‘پرانتہائی ناراضی کا اظہار کرتے ہیں،جوامریکی خارجہ پالیسی کو ’’بربریت‘‘کے مترادف قراردیتے ہیں،لیکن نیٹومعاہدے پر بڑی بے تابی سے دستخط کرنے والے یہ ممالک نیٹوکے واجب الادارقم کی بادل نخواستہ ادائیگی برداشت نہیں ہوسکتی۔
مفادات اور کسی حکومت کو ناخوشگوارفیصلوں کے انتخاب سے تحفظ فراہم کرنے کیلئے دل کھول کرخرچ کرنا بہت آسان ہے ایسے وقت جب سلامتی کے لئے کیے گئے اقدامات کے اخراجات کوئی اوراداکررہا ہو۔
امریکی ٹیکس دہندگان کے مالی امداد سے قائم یہ مشترکہ دفاعی نظام امریکی باشندوں کے لئے دستیاب آرام دہ زندگی کے مقابلے میں نصف ارب(پچاس کروڑ)یورپی باشندوں کے لئے زیادہ اچھی زندگی کوقابل عمل بناتا ہے۔ یہ عدم مساوات،لہذاٹرمپ کہیں گے،کہ اس حوالے سے لازمی طورپر اصلاح کی جانی چاہئے۔
مجھے شبہ ہے کہ یہ وسیع ترجغرافیائی و سیاسی ناہمواری یعنی غیر منصفانہ طرزعمل ہی کا احساس ہے جو محصولات کے اس حالیہ لہر کی بنیادہے۔ ٹرمپ جرمنی کو اپنے بجٹ کی ترجیحات کو ترتیب دینے کے حوالے سے مجبورنہیں کرسکتے،لیکن وہ اس کی مصنوعات تیارکرنے والی بنیاد(صنعتوں)،جو جرمنی کی خوشحالی کا منبع ہے، کے خلاف تنقیدی مہم شروع کرسکتے ہیں۔
اس جذباتی ہیجان اورانتہائی حساسیت والے ماحول کے دوران،امریکی صدر’’منصفانہ تجارت‘‘کے لئے دھواں دھار تقاریر میں اپنے پسندیدہ ہدف :چین کے بارے میں خاموش ہوگئے ہیں،دوماہ قبل کے معاملات کو دیکھتے ہوئے ،جب اس دوران محصولات میں ہرروز اضافہ ہوتا رہا،یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسا ہونا کسی کرشمے سے کم نہیں۔یہ تیزرفتارمثبت تبدیلی یورپی یونین کی سفارتی ناکامیوں کے لئے بھی ایک واضح متبادل صورتحال کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔
چین کی موجودہ حکومت کی انٹیلکچول پراپرٹی (حقوق دانش)سے متعلق زیادہ تر انتہائی ناپسندیدہ پالیسیوں کے لئے سنگین انتقامی اقدامات سے بچانے میں یہ کامیابی غالباً چین کے صدرشی جن پنگ کے مرہون منت ہوسکتی ہے۔کئی یورپی رہنماؤں کے برعکس،چین کے موجودہ صدر نے ٹرمپ(امریکی صدر)سے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ وہ جو کچھ ہیں اس کے سواکچھ اوربن جائیں۔وہ امریکی صدر کے ساتھ ملاقات کے لئے مارآلاگو(فلوریڈاکے پام بیچ پر واقع معروف تفریحی مقام )،کا دورہ کرتے ہیں ،ٹرمپ جسے وائٹ ہاؤس (امریکی ایوان صدر)پرترجیح دیتے ہیں اورٹرمپ کے ساتھ ان کی پسندیدہ سرگرمی ،گالف کے ایک راؤنڈ،میں مشغول ہوتے ہیں ۔یہ شخصی گرمجوشی جو ان چھوٹے ،سادہ اقدامات کے باعث پیداہوتی ہے ،ظاہرکرتی ہے کہ یہ امریکا کی چین کیساتھ تجارتی پالیسی میں کئی بڑی تبدیلیوں کا باعث بن چکی ہے۔ٹرمپ کی جانب سے چین کے خلاف کھربوں ڈالرزمالیت کے محصولات عائد کیے کے بعددوماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ امریکی صدر نے تجویز دی(جس پر امریکی کانگریس میں نیشنل سیکورٹی مائنڈڈریپبلکنز میں سے زیادہ ترنے جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا)کہ سان ڈیاگو میں قائم کوالکوم(امریکی ٹیکنالوجی کمپنی) کو انہیں دوبارہ چپس فروخت کرنے کی اجازت دیتے ہوئے امریکا کو موبائل فون تیارکرنے والی(چینی کمپنی)زیڈٹی ای کو بچانا چا
اس معاملے میں ان کا موقف مختلف ہے،لیکن چینی صدرشی جن پنگ کی ذاتی مداخلت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بارے میں تبدیلی آچکی ہے،اوریہ واضح ہے کہ یہ طرزعمل صدرموصوف کی شائستگی اوردیانتداری کو مفید بناتی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ وہ ’’یورپی اقدار‘‘کے بارے میں کسی بڑے چبوترے سے جائزہ لینے کو ترجیح دیں لیکن یہ بات یورپی رہنماؤں کے لئے دانشمندانہ ہوگی کہ وہ اسی طرزعمل کی جانب ان کی توجہ دلائیں ،اورٹرانس اٹلانٹک تعلقات پر منڈلاتے ہوئے عمومی مسائل کو حل کریں، اگراس شخصیت کے لئے ذاتی چاہت نہ ہو،تو پھر اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ ان کا دفتر امریکی تجارتی پالیسی پرتقریباًیک طرفہ طورپر کنٹرول رکھتا ہے۔یہ طرزعمل جیو پولیٹکس تک رسائی کاجذباتی طریقہ کار نہیں ہے،لیکن ہم کسی جذباتی دورمیں نہیں رہتے ہیں۔
مولی کینیری لیگاتم انسٹی ٹیوٹ میں ایک محقق ہیں۔