• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا انتخابی نتائج تسلیم کئے جائیں گے؟مجھ سے یہ سوال میرے ایک دوست نے پوچھا جو سابق اعلیٰ فوجی افسر اور گہری سوچ کے مالک ہیں۔ میں نے بے ساختہ جواب دیا کہ اگر انتخابات منصفانہ، دیانت دارانہ اور آزادانہ ہوئے، تو قوم اُن کے نتائج ضرور تسلیم کرے گی اور جمہوری استحکام کا ایک نیا دور طلوع ہو گا۔ وہ میرے جواب پر چند لمحے خاموش رہے اور اسی دوران مجھے احساس ہوا کہ انہوں نے مجھ سے یہ سوال کیوں پوچھا ہے۔ وہ باتیں کم کرتے اور سنتے زیادہ ہیں اور جب اپنی رائے دیتے ہیں تو وہ جچی تلی ہوتی ہے۔ میں تنہائی میں بیٹھ کر اُن کے سوال پر غور کرتا رہا۔ میں نے سوچا ابھی تو انتخابی عمل کا آغاز ہی ہوا ہے، کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے جا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں کڑی آزمائشوں سے گزر رہی ہیں۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین کو سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا ہے کہ وہ گزشتہ دو عشروں سے اپنی قوم سے یہ وعدہ کرتے آئے تھے کہ وہ نظریاتی کارکنوں کی ایک فورس تیار کر رہے ہیں جو فرسودہ سیاسی اور اقتصادی نظام کی جگہ ایک منصفانہ نظام قائم کرنے کی صلاحیت سے مالامال ہو گی۔ اب عمران خاں صاحب نے جن 173اُمیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے ہیں، اُن میں سے فقط 25؍افراد کا تعلق تحریکِ انصاف سے ہے اور باقی 99فیصد وہ پرانے چہرے ہیں جو کرگسوں میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔
ناگاہ مجھے مولانا فضل الرحمٰن کا یہ ڈھلا ڈھلایا جملہ یاد آیا کہ ہمارے ادارے آئین پر کام نہیں کر رہے اور پسِ پردہ قوتیں ملک چلا رہی ہیں۔ کیا وہ یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ نگراں حکومتوں کی نگرانی کرنے والے ہی انتخابی نتائج ترتیب دیں گے اور آخر میں وہی کچھ سامنے آئے گا جو سینیٹ کے انتخابات میں پس پردہ طے پایا تھا۔ ان دنوں ٹی وی اور اخبارات میں وہ سرگرمیاں بہت نمایاں ہیں جو انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن اور نگراں حکومتیں سرانجام دے رہی ہیں۔ نگراں وزیراعظم فاضل ریٹائرڈ چیف جسٹس ناصر الملک اس اعتبار سے بڑے خوش نصیب انسان ہیں کہ ان پر قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف کے مابین اتفاق ہو گیا اور سبھی سیاسی جماعتوں نے اُن کے تقرر کا خیرمقدم کیا۔ اُن کی شہرت یہ ہے کہ وہ اپنے پاؤں پسارنا پسند نہیں کرتے۔ ان کی دوسری خصوصیت یہ رہی کہ وہ اعلیٰ عدالتوں کے دائرۂ کار میں توسیع کے حق میں نہیں تھے۔ اب انہوں نے ایک مختصر کابینہ تشکیل دی ہے اور وہ شب و روز منصفانہ انتخابات کے قابلِ اعتماد انتظامات کو آخری شکل دینے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔
اب ایک طرف عالمی سطح پر ناقابلِ تصور تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔12جون کو امریکی صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے لیڈر کِم سنگاپور کے ایک جزیرے پر اپنا خوفناک ماضی ایک طرف رکھتے ہوئے مسکراہٹوں کے ساتھ آپس میں مل بیٹھے اور دونوں نے جزیرہ کوریا کو ایٹم سے پاک کرنے اور عالمی امن کی خاطر ایک دوسرے سے تعاون کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ انہی دنوں چین کے ایک شہر میں شنگھائی تعاون تنظیم کا نہایت اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں عالمی تجارت کے فروغ کے منصوبے منظور ہوئے اور پاکستان کے عالمی کردار میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کو بھی احساس ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان سے معمول کے تعلقات اور اس کا تعاون پورے خطے کے مفاد میں ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ افغانستان کی دعوت پر کابل گئے ہیں اور مفاہمت کی فضا پیدا ہو رہی ہے۔ ان زبردست عالمی تبدیلیوں کے برعکس پاکستان کی داخلی فضا میں بڑے بڑے ہیجان برپا ہیں جو انتخابات کے نتائج کو ایک ایسی شکل دے سکتے ہیں جو قوم کے بڑے حصے کے لئے شاید قابلِ قبول نہ ہوں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پانامہ مقدمے میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی فاضل بینچ نے جو فیصلہ دیا، اس نے قومی نفسیات کو بڑی شدت سے متاثر کیا ہے۔ کبھی کبھی یہ گمان گزرتا ہے کہ شاید پارلیمان اور حکومت کے لیے آئینی تقاضوں کے مطابق اپنے فرائض کی بجاآوری محال ہو جائے۔ اس پیچیدہ صورتِ حال کا قوم کے رہنماؤں کو بڑی سنجیدگی سے جائزہ لینا اور اصلاحی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔ سپریم کورٹ کی زیرِ ہدایت نوازشریف، اُن کی بیٹی مریم نواز اور اُن کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف نیب کی احتساب عدالت میں گزشتہ چھ ماہ سے مقدمات چل رہے ہیں جن میں وہ مجموعی طور پر سو سے زائد پیشیاں بھگت چکے ہیں۔ جناب نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث بڑی محنت سے مقدمے کی پیروی کرتے ہوئے جرح کی ایک اچھی مثال قائم کر رہے تھے۔ احتساب عدالت کو سپریم کورٹ نے جو مہلت دی تھی، اس کے خاتمے پر خواجہ حارث نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ انہیں چھ ہفتے کی مہلت دی جائے۔ فاضل عدالت نے ان کی استدعا مسترد کرتے ہوئے صرف چار ہفتوں کی توسیع کی۔ اس پر انہوں نے احتساب عدالت سے یہ کہہ کر اپنا وکالت نامہ واپس لینے کی درخواست کی کہ وہ شدید دباؤ میں اپنے مؤکل سے انصاف نہیں کر سکیں گے۔ اس پر احتساب عدالت نے جناب نوازشریف کو 19جون تک نیا وکیل کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ جناب نوازشریف نے اس فیصلے پر شدید ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے پھانسی دے دو یا جیل میں ڈال دو، لیکن مجھے سنے جانے کا حق بھی تو دو‘‘۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف، جس نے آئین توڑا، اس کے لیے قانون میں نرمی پیدا کر دی گئی ہے، مگر اس شخص کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے خط و کتابت ہو رہی ہے جس نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا، لوڈشیڈنگ کے اندھیرے دور کیے اور قوم کو سی پیک کا تحفہ دیا۔ وہ اخبار نویسوں سے پوچھ رہے تھے کیا یہ پری پول رگنگ نہیں؟
اب جناب عمران خاں کا اپنے وعدوں سے یوٹرن کارکنوں کے اندر شدید اضطراب کو جنم دے رہا ہے اور ان کی یہ منطق زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے کہ انتخابات وہی لوگ جیت سکتے ہیں جن کے پاس دولت، افرادی قوت اور وہ مہارت ہو جس سے ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں۔ اپنے کارکنوں کو بری طرح مایوس کرنے کے علاوہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے ایک ایسے شخص کو عمرے پر اپنے نجی طیارے میں لے گئے جس کا نام ای سی ایل میں تھا۔ اس واقعے نے نگراں وزیراعظم کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔
دوسری طرف صورتِ حال یہ ہے کہ جناب نوازشریف تنگ آمد بجنگ آمد پر اُتر آئے ہیں۔وہ عوام کو یہ تاثر دینے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا اور ان سے دفاع کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ یہ حالات آگے چل کر بہت دھماکہ خیز ثابت ہو سکتے ہیں۔ معلوم نہیں ایسے میں پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی جو ایک علمی، خوش طبع اور وسیع الظرف شخصیت کے مالک ہیں، وہ کس طرح توازن قائم رکھ سکیں گے۔ انہوں نے اپنے قریبی رشتے دار کو اپنی کابینہ میں شامل کر کے اپنے آپ کو بڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تمام نگراں حکومتوں اور قومی اداروں کو اس امر کی پوری پوری کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی غیر معمولی واقعہ رونما نہ ہونے پائے اور کوئی ایسا ایشو پیدا نہ ہو جو عوامی تحریک میں ڈھل جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین