ڈاکٹر گلزار اختر
زمین کی تزئین(لینڈ سکیپنگ)، زمین کے ایک مخصوص حصے کی ڈریسنگ ہے جو اس کی خوبصورتی اور ماحول کی تازگی کو بڑھانے کیلئے مختلف اقسام کے پودوں سے کی جاتی ہے ۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ کھلی جگہیں ہوتی ہیں جو زمین کی تزئین (لینڈ سکیپنگ)کیلئے استعمال کی جاتی ہے لیکن شہروں میں مختلف قسم کے لان ، نہروں کے کنارے ، سڑکوں کے کنارے ،پارکوں ، کھیلوں کے میدان ، عمارتوں اور گھروں کے ارد گرد جگہ وغیرہ کو لینڈ سکیپ ڈویلپر موثر طریقے سے استعما ل کر سکتے ہیں۔ ایسی جگہوں کی پودو ں سے خوبصورتی کیلئے تازہ پانی کی فوراً اور مسلسل فراہمی ہونی چاہیے لیکن بد قسمتی سے گزرتے وقت کے ساتھ پانی کی فراہمی میں کمی اور آلودگی بڑھتی جا رہی ہے ۔ دوسری طرف انسان اور پودوں کی آبادی زمین کے ایک فیصد پانی پر انحصار کر رہی ہے ۔ ایک بلین مختلف ممالک کی آبادی پانی کی قلت کا شکار ہیں ۔ خشک سالی (بارشوں کی مہینوں یاسالوں سے قلت کا دور) ایک بے جان کشیدگی (Abiotic Stress)ہے جو پودوں کی بڑھوتری ، بحا لی اور خوبصورتی کو نقصان پہنچاتی ہے ۔ پانی کی قلت ایک سنجیدہ اور عام کشیدگی ہے جو زمین کی تزئین کیلئے پودوں کی خوبصورتی کو نقصان پہنچاتی ہے جو عام طور پر سائز ، تعداد ، رنگ، آلوک (Luster) اور پتوں کی شکل ، پھول اور پھل کو دیکھتے ہوئے معلوم کی جاتی ہے۔ گلو بل وارمنگ کی وجہ سے مختلف ممالک جس میں پاکستان بھی شامل ہے میں ماحول کی تبدیلیا ں اور پانی کی قلت واقع ہو رہی ہے جس میں بنجر اور نان بنجر دونوں علاقے شامل ہیں جہاں فصلوں کی ضرور ت کے مطابق انتہائی کم بارشیں اور سیرابی علاقوں میں پورا سال مسلسل پانی کی فراہمی نہیں ہوتی ۔ لوگ پانی کی فراہمی کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ٹیوب ویل بھی استعما ل کرتے ہیںجو
’’پاکستان کے خشک سالی والے علاقوں کو مناسب اور ممکن نقطہ نظر سے جیسا کہ مناسب زمین کی تزئین کو مناسب پودوں کی اقسام کے ساتھ مؤثر آبپاشی نظام اور انتظامی مینجمنٹ کا خیال کرتے ہوئے برقرار کیا جا سکتا ہے ۔ پاکستان میں زمین کی تزئین کیلئے ہم ان پودوں پر توجہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو کم پانی ، زیادہ نمکیات اور زیادہ درجہ حرارت کو برداشت کر سکیں۔‘‘
ہماری زمینوں میں نمکیات کے اضافے او ر زیر زمین پانی کی سطح میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ ان سب قدرتی آفات اور توڑ پھوڑ کرنے والی طاقتوں کے باوجود پاکستان میں بہت سی اقسام کی مٹی ، پودے ، آب و ہوا اور زمین کا اتار چڑھائو (Topography) موجود ہے جو ان سب چیلنجز کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے خشک سالی والے علاقوں کو مناسب اور ممکن نقطہ نظر سے جیسا کہ مناسب زمین کی تزئین کو مناسب پودوں کی اقسام کے ساتھ مؤثر آبپاشی نظام اور انتظامی مینجمنٹ کا خیال کرتے ہوئے برقرار کیا جا سکتا ہے ۔ پاکستان میں زمین کی تزئین کیلئے ہم ان پودوں پر توجہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو کم پانی ، زیادہ نمکیات اور زیادہ درجہ حرارت کو برداشت کر سکیں۔ ان کم پانی والے علاقوں میں تجویز کردہ پودوں کو پانی ، کانٹ چھانٹ ، سپرے اورکھاد کی کم
ضرورت ہونی چاہیے اور ان میں بیماریوں اور دشمن کیٹروں کے خلاف مزاحمت ہونی چاہیے ۔ ارجن (ٹرمینلیا ارجونا)، سالٹ سیڈر (ٹمارکس اے فائلا)، بیر (زیزفس ججوبا)، نیم (میلیا ازدھا چاٹا)، بکائن (میلیاازدھارچ) ، سکھ چین (بونگیمیا گلیبرا)، پاپولر (پاپولس نگرا)، گل نشتر(ایر یٹر ینا سبروسا)، پیپل (فائکس ریلجی اوسا)، بل کھن(فائکس انفیکٹوریا)، کچنار (بہونیا البا)، املتاس (اکیشیا فیسٹولا)، کیکر (ایشیاسپی)، سری (ایلبیزیا لبیک)مشہور درخت ہیں جن کو ایسے علاقوں جہاں پانی کی قلت ہو وہاں اگانے کیلئے تجویز دی جاتی ہے ۔ مختلف جھاڑی نما پودے ان علاقوں میں اگائے جا رہے ہیں۔ ہینا (لا نسنیا انیسس )، صحرائی گلاب (اڈنیمیم موزیم )، جیٹ رونا (جیٹ روفاکارکس)، لانٹانا (لانٹا نا کیمرا)، اولی ایبنڈر (نیریم اولی اینڈر)، پیلو اولی اینڈر(تھو پیٹیا نیپری فولیا)، رات کی رانی (سسیٹرم نوکٹورنم)، زینیا (زینیا ایلیگیشن)، ببلیو ٹر میپٹپس (نیکو ماپٹیکس نز)شامل ہیں جبکہ دوسری طرف مختلف موسمی پودے سہلو سیاہ کو سموس (کوسموس بائی پنٹییس)، گزانیا (گزانیا میری نما)، ہائی ہک (ایلتھسیا روزیہ)، ایمار نیتھ (گومفرینہ گلوبوسا)، وربینہ(وربینہ ہائبر یڈا)، سٹینگ (سسٹیک لیمو نیم)، گرائونڈ کورز میں آلٹر ننیتھرا (آلٹر ننیتھرارہویا)، کوارگندل (ایلو ویرا )، ایسپراگس (ایسپراگس فال کیٹس)، کرائون آف تھارنس (یوفوربیا ملی)، امبریلا پلانٹ (سپرس آلٹری فولس)اور سپائڈر پلانٹ (کلو رو فا ئٹم کو م اوسم) شامل ہیں ۔بیلوں میں بوگن ویلیا (بوگن ویلیا سبی)، کربینیک انجیر (فائکس پو میلا)، بتی سکل (یونسیرا سیمپرو پرس)، آلمینڈا(آلمینڈ کیھتارٹی کا)، اپنی مون کلمیٹس (کلمیٹس مونٹانا)۔ گھاس میں بابیا گراس ، برموار گراس زیو سیگرسیپس گراس اور سینٹی پیڈ گراس زیادہ تجویز کردہ گھاس ہیں ۔ اوپر بیان کئے گئے تمام درختوں جھاڑیوں ، گھاس اور مختلف اقسام کے کیکٹس کو مد نظر رکھتے ہوئے زمین کی تزئین کیلئے ایک اچھا منصوبہ بنا سکتے ہیں جو پاکستان میں پانی کی قلت کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں ۔ محمد نواز شریف زرعی یونیورسٹی ملتان نے ہزاروں کی تعداد میں جامعہ کے مین کیمپس ملتان اور تجرباتی فارم جلالپور پیر والا میںپودے لگائے ہیں اس کے ساتھ جامعہ نے ملتان کے مختلف علاقوں ، سکولوں ، کالجوں میں بھی پودے لگائے اس کے علاوہ جامعہ نے ضلعی انتظامیہ ملتان کی جانب سے شروع کی گئی مہم ایک بچہ ایک پودا میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے تاکہ لوگوں کو پودوں کی موجودگی کی اہمیت کے بارے میں شعو ر اجاگر کیا جائے جس سے شہر کے ماحول کی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔