ہماری آبادی کی تقریباً 52 فیصدخواتین زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ ان میںایسی خواتین بھی ہیں جو اپنی ہنر مندی سے دوسروں کے گھروں کی خوب صورتی میں چار چاند لگاتی ہیں لیکن ان کی اپنی زندگی رنگین نہیں ہوتی، جس کی بنیادی وجہ ان کا غیر تعلیم یافتہ ہونا، غربت اور بے بسی ہے۔ ہم ان گھریلو ہنر مند خواتین پر ذرا برابر بھی توجہ نہیں دیتے، پاکستان میں ہی دیکھ لیں تو صوبہ سندھ کا شہر حیدر آباد چوڑی سازی کے حوالے سے بہت مشہور ہے۔ تقریبا 80 ہزار افراد اس روزگار سے وابستہ ہیں جن میں زیادہ تر تعداد خواتین کی ہے، جنہیں ساڑھے تین سو چوڑیوں کو جوڑ لگانے کی اجرت صرف تین روپے پچاس پیسے ملتی ہے۔ یہ کام بہت مشکل ہے، اس کے دھوئیں سے سانس کی بیماریاں بھی لاحق ہو جاتی ہیں لیکن ان خواتین کو بیماری میں کوئی میڈیکل الاوئنس نہیں ملتا اور چھٹی کرنے پر تنخواہ کی کٹوتی ہوتی ہے۔
اسی طرح سلائی کرنے والی خواتین جو کپڑوں پر لیس لگاتی ہیں وہ بھی صرف ماہانہ 1200 سے 1500 تک مزدوری حاصل کرپاتی ہیں۔ ان تمام خواتین پر پورے کنبے کی کفالت کا بوجھ ہوتا ہے اور یہ پیسے ان کے خاندان کے لئے ناکافی ہوتے ہیں۔ کئی خواتین میز پوش، کشن، مکرامے،
پراندے اوردستر خوان بھی بناتی ہیں جبکہ دوپٹوں پر گوٹے سے پھول اور ستارے ٹانکتی ہیں۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 47ملین افراد باروزگار ہیں جن میں خواتین کی تعداد صرف نو ملین ہے اور ان نو ملین میں سے بھی ستر فیصد خواتین زراعت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ خواتین کے لئے قرضے لینا مشکل ہے کیوں کہ بہت سی خواتین کے پاس ضمانت دینے والا کوئی نہیں ہوتا، کئی خواتین کی بینکوں اور متعلقہ اداروں تک رسائی نہیں ہے۔ بہت سی خواتین پڑھی لکھی نہیں ہیں جنھیں مالی معاملات کے معاملے میں آسانی سے بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ کئی رفاہی ادارے بہت کم اجرت پر خواتین سے کڑھائی سلائی کا کام کروا تے ہیں۔
دنیا بھر میں کوریا اور تائیوان ایسے ممالک ہیں جہاں خواتین کے بنائے گئے فن پاروں کو اہمیت دی جاتی ہے اور ان کی بہترین مارکیٹنگ کی جاتی ہے جس سے نہ صرف خواتین کو حوصلہ افزائی ملتی ہے بلکہ ان ممالک کو زرمبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ ایسی نمائشوں کو دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح بہت پسند کرتے ہیں، اور تو اور ان کاموں کو متعلقہ وزارتوں کی سرپرستی بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ اس وقت کئی این جی اوز گھریلوہنرمد خواتین کو معاشرے کا فعال رکن بنانے کے لیے کام کررہی ہیں۔ سندھ، پنجاب ،بلوچستان ،خیبر پختون خوا ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی گھریلو ہنر مند خواتین کی ہاتھ سے بنائی ہوئی اشیاءکی بڑے پیمانے پر مارکیٹنگ ہورہی ہے۔ساتھ ہی کئی باہمت خواتین سلائی کڑھائی کی تربیت بھی فراہم کر رہی ہیں۔
خواتین کے لیے ہنر کا ہتھیار
نجمہ رانی گزشتہ دس سال سے سوات بھر کی خواتین کو مفت دستکاری، سلائی اور کڑھائی کی تربیت دے رہی ہیں۔ ان کے بقول، جس طرح تعلیم کو زیور سمجھا جاتا ہے اسی طرح ہنربھی خواتین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ وہ خواتین کو درس دیتی ہیں کہ مشکل حالات میں کوئی بھی عورت پریشان ہونے اور رونے دھونے کے بجائے آگے بڑھ کر حالات کو سنبھالے۔
نجمہ رانی نے سال 2005 میں اپنے ساتھ پیش آنے والے ایک ناخوشگوار واقعے کے بعد خواتین کو ہنر سیکھنے کی ترغیب دینا شروع کی تاکہ وہ مشکل حالات میں اپنے خاندان کی کفیل بن سکیں اورکسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔
فنی تعلیم کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور دوسری خواتین کو کسی ناخوشگوار آفت سے بچانے کی غرض سے نجمہ نے گھر پر ہی محلے کی بچیوں اور خواتین کو دستکاری سکھانے کا فیصلہ کیا۔ ابتداء میں انہوں نے اپنے پاس جمع شدہ رقم سے 2006 ء میں چار سلائی مشین خریدیں، جس سے انہوں نے اسی سال اپنے علاقے کی پندرہ خواتین کو مفت ٹریننگ دی۔ وہ کہتی ہیں، ’’میری یہ کوشش ہے کہ جس مشکل سے میں گزری ہوں، کوئی بھی عورت اس اذیت سے نہ گزرے۔‘‘ان کے کام اور مشن کو دیکھتے ہوئے ایک فلاحی ادارے Helping Hands نے ان کو 2006ء ہی میں چھ سلائی مشینیں فراہم کیں جن کی بدولت اگلے تین ماہ میں انہوں نے تیس کے قریب بچیوں کو کپڑے سینے کے ہنر سے آراستہ کیا۔نجمہ اس دوران مختلف دستکاری اداروں کے تربیتی پروگراموں میں بھی حصہ لیتی رہیں اور وہاں سے حاصل کردہ
معلومات اور جدید ہنر اپنے شاگردوں میں مسلسل منتقل کرتی رہیں۔ نجمہ کے مطابق تاحال انہوں نے کم وبیش16 ہزار بچیوں اور خواتین کو عملی دستکاری کی تعلیم دی ہے۔ وہ اپنے دستکاری سینٹر میں کپڑوں کی سلائی کٹائی کے علاوہ، کڑھائی، اون کے سویٹر بنانا، سواتی چادر کی گلکاری اورکشیدہ کاری کے ہنر سکھاتی ہیں۔ نجمہ اپنے گھر پر خواتین کو تربیت دینے کے علاوہ چند دستکاری کے اداروں میں ماسٹر ٹرینر کی حیثیت سے کام بھی کرتی ہیں۔پاکستان کی ہنر مند خواتین کو حکومت کی جانب سے سپورٹ ہونی چاہئے جب تک ہم اپنی خواتین کوروزگار کے مواقع فراہم نہیں کریں گے تب تک معاشی طور پر خود کفیل نہیں ہو سکتے۔ دنیا کی با وقار اقوام خواتین کو عزت مند روزگار کی ضمانت کے ساتھ انہیںتمام وسائل بھی مہیا کرتی ہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ نیشنل ہینڈی کرافٹ آرگنائزیشن کا قیام عمل میں لا کر پاکستان کی گھریلو خواتین کے فن کو بین الاقوامی طور پر متعارف کرائے۔