حسنین حیدر
حضرت محل کا نام ہندوستان کی جنگ آزادی میں پہلی سرگرم خاتون کے نام سے مشہور ہے ۔ 1857-1858 کی جنگ آزادی میں صوبہ اودھ سے حضرت محل کی نا قابل فراموش جدو جہد تاریخ کے صفحات میں سنہرے الفاظ میں درج ہیں۔ ذیل میں ان کے بارے میں مختصراََ نذرِ قارئین ہے۔
برطانوی حکومت کی” تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کر کے تحریک جنگ آزادی ہند 1857ء کو ایک نیا ر خ دیا ۔ بیگم حضرت محل ایسی پہلی قائد تھیں، جنہوں نے برطانوی حکومت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے اور 20 برس جلا وطنی اور اپنی موت تک لگاتار برطانوی حکومت کی مخالفت کی۔انگریزی مصنفین کے مطابق ان کا نام افتخار النساء تھا ۔ نام سے لگتا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد ایران سے آ کر اودھ میں بس گئے تھے ۔ ان کی تعلیم ایک رقاصہ کے طور پر ہوئی جس کا مقصد واجد علی شاہ کو متاثر کرنا تھا ۔ نواب صاحب نے ان کو اپنے حرم میں جگہ دی۔
پی-جے-او-ٹیلر کے مطابق جب افتخار النساء بیٹے کی ماں بنیں تو ان کا رتبہ بڑھ گیااور نواب صاحب نے انہیں اپنی ازواج میں شامل کرکے حضرت محل کا لقب دیا اور انہیں شاہی خاندان میں ملکہ کا درجہ دیا ۔ اپنے بیٹے برجیس قدر کی پیدائش کے بعد حضرت محل کی شخصیت میں بہت بدلاؤ آیا ۔ ان کی تنظیمی صلاحیتوں کو جلا ملی ۔ 1856 میں برطانوی حکومت نے نواب واجد علی شاہ کو جلا وطن کر کے کلکتہ بھیج دیا تو حضرت محل نے اودھ کی باگ ڈور سنبھال لی اور بیگم حضرت محل ایک نئے انداز میں سب کے سامنے آئیں۔ ان کا یہ رخ اپنے وطن کے لئے تھا ، جس کا مقصد تھا اپنے ملک سے انگریزوں کو باہرنکالنا۔ اگرچہ یہآگ سب ہی کے دل میں جل رہی تھی کہ کسی طرح انگریزوں کو اپنے ملک سے نکالیں ۔ لیکن اسے بھڑکانے اور جنون میں بدلنے میں بیگم حضرت محل نے ایک خاص کردار ادا کیا۔ انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ عورت صرف گھر کی چہار دیواری کا نظام ہی بہ خوبی سے نہیں سنبھالتی بلکہ وقت پڑنے پر وہ اپنے جوہر دکھا کر دشمنوںکے دانت کھٹے کرنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے ۔ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے دوران انہوں نے اپنے حامیوں ،جن کے دلوں میں اپنے ملک سے انگریزوں کےنکالنے کا جذبہ تھا ۔ انگریزی حکومت کے خلاف منظم کیا اور جب ان سے اودھ کا نظام چھین لیا گیا تو انہوں نے اپنے بیٹے برجیس قدر کو ولی عہد بنا دیا ۔ جنگ آزادی میں وہ دوسرے مجاہدین آزادی کے ساتھ مل کرکام کرنے کی حامی تھیں ،جس میں نانا صاحب بھی شامل تھے۔ جب برطانوی فوج نے لکھنو پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور ان کے سارے حقوق چھین لئے تو انہوں نے برٹش حکومت کی طرف سے دی گئی کسی بھی طرح کی عنایت کو ٹھکرادیا ۔ اس سے بیگم حضرت محل کی خود داری کا پتہ چلتا ہے۔ وہ صرف ایک بہترین پالیسی ساز ہی نہیں بلکہ میدان جنگ میں بھی انہوں نے جوہر دکھائے۔ جب ان کی فوج ہار گئی تو انہوں نے دوسرے مقامات پر فوج کو منظم کیا۔ بیگم حضرت محل کا اپنے ملک کے لئے خدمت کرنا بے شک کوئی نیا کارنامہ نہیں تھا ۔ لیکن ایک عورت ہو کر انہوں نے جس خوبی سے انگریزوں سے ٹکر لی وہ معنی رکھتا ہے ۔ 1857 کی بغاوت کی چنگاریاں تو ملک کے کونے کونے میں پھوٹ رہی تھیںاوراس کی تپش محسوس کی جارہی تھی لیکن اس چنگاری کو آگ میں تبدیل کرنے کا سہرا بیگم حضرت محل کے سر جاتا ہے ۔ اترپردیش کے اودھ علاقہ میں بھی آزادی کا جوش پایا جاتا تھا ۔ جگہ جگہ بغاوتیں شروع ہو گئی تھیں۔ بیگم حضرت محل نے لکھنو کے مختلف علاقوں میںپھر کر انقلابیوں اور اپنی فوج کی حوصلہ افزائی کرنے میں دن رات ایک کر دیا تھا۔ ایک عورت کا حوصلہ اور ہمت دیکھ کر فوج اور باغیوں کا حوصلہ جوش سے دوگنا ہوگیا ۔ انہوں نے آس پاس کے جاگیر داروں کو بھی ساتھ ملا کر انگریزوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔
انگریزوں کی مکاری اور چالاکی کو حضرت محل بہت اچھی طرح سمجھ چکی تھیں۔ وہ ایک دور اندیش خاتون تھیں ۔ انتظامی حکومتی فیصلوں میں اُن کی صلاحیت خوب کام آئی۔ ان کے فیصلوں کو قبول کیا گیا ۔ بڑے بڑے عہدوں پر قابل عہد یدار مقرر کئے گئے ۔ محدود وسائل اور مشکل حالات کے باوجود وہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں۔ بیگم حضرت محل نے خواتین کی ایک فوج تیار کی اور کچھ ماہر خواتین کو جاسوسی کے کام پر بھی لگایا ۔ فوجی خواتین نے محل کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی ۔
انگریزی فوج لگاتار ریزی ڈینسی سے اپنے ساتھیوں کو آزاد کرانے کےلئے کوشش کرر ہی تھی لیکن بھاری مخالفت کی وجہ سے انگریزوں کو لکھنو فوج بھیجنا مشکل ہو گیا تھا ۔ ادھر ریزی ڈینسی پر لگاتار حملے کیے جارہے تھے ۔ بیگم حضرت محل لکھنو کے مختلف علاقوں میں تنہا فوجیوں کا حوصلہ بڑھا رہی تھیں۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا تھا ۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو چکا تھا ۔ بہادر شاہ ظفرکے نظر بند ہوتے ہی انقلابیوں کے حوصلے کمزور پڑنے لگے ۔ لکھنو بھی دھیرے دھیرے انگریزوں کے قبضہ میں آنے لگا تھا ۔ ہینری ہیولاک اور جیمز آوٹ رام کی فوجیں لکھنو پہنچ گئیں۔ بیگم حضرت محل نے قیصر باغ کے دروازے پر تالےلگوا دیئے ۔ انگریزی فوج بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی ۔
بیگم نے اپنے فوجیوں میں جوش وولولہ پیدا کرتے ہوئے کہا،” اب سب کچھ قربان کرنے کا وقت آگیا ہے“-انگریزی فوج کا افسر ہینری ہیولاک عالم باغ تک پہنچ چکا تھا ۔ کیمپ ویل بھی کچھ اور فوج لے کر اس کے ساتھ جا ملا۔ عالم باغ میں بہت ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا ۔ عوام کے ساتھ محل کے سپاہی شہر کی حفاظت کے لیےآگئے ۔ موسلا دھار بارش ہو رہی تھی ۔ دونوں طرف تیروں کی بوچھار ہو رہی تھیں۔ بیگم حضرت محل کو قرار نہیں تھا ۔ وہ چاروں طرف گھوم گھوم کر سرداروں میں جوش پیدا کررہی تھیں۔ ان کی حوصلہ افزائی سے انقلابیوں کا جوش بڑھتا جارہاتھا ۔ وہ بھوکے پیاسے سب کچھ بھول کر اپنے وطن کی ایک ایک انچ زمین کےلئے مرمٹنے کو تیار تھے لیکن پھرر وہ لمحہ آگیا جب انگریزیوں نے اپنے ساتھیوں کو ریزیڈنسی سے آزاد کرا ہی لیا ۔ اور لکھنو پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا ۔
بیگم حضرت محل کی شخصیت ہندوستانی نسوانی سماج کی پیروی کرتی ہے۔ وہ بے حد خوبصورت رحم دل اور نڈر خاتون تھیں۔ اودھ کی پوری قوم ، عوام عہدیدار ، فوج ان کی عزت کرتی تھی۔ یہاں تک کہ ان کے ایک اشارے پر اپنی جان تک قربان کرنے کا جذبہ ان میں تھا ۔ انہیں کبھی اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ وہ عورت کی سر براہی میں کام کررہے ہیں، انہیں اپنی لیڈر پر اپنے سے زیادہ بھروسہ تھا ۔ اور یہ بھروسہ بیگم حضرت محل نے ٹوٹنے نہیں دیا ۔
جب باغیوں کے سردار دلپت سنگھ محل میں پہنچے اور بیگم حضرت محل سے کہا،بیگم حضور آپ سے ایک التجا کرنے آیا ہوں۔ بیگم نے پوچھا وہ کیا ؟ اس نے کہا ۔ آپ اپنے فرنگی قیدیوں کو مجھے سونپ دیجئے ۔ میں اس میں سے ایک ایک کا ہاتھ پیر کاٹ کر انگریزوں کی چھاؤنی میں بھیجوں گا ‘‘۔’’ نہیں ہرگز نہیں ۔ بیگم کے لہجہ میں سختی آگئی ۔ ہم قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ تو خود کر سکتے ہیں اور نہ کسی کو اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔ قیدیوں پر ظلم کرنے کی روایت ہم میں نہیں ہے ۔
اس سےاندازہ ہوتا ہے بیگم حضرت محل انصاف پسند اور حسن سلوک کی مالک تھیں ۔ بیگم نے جن حالات اور مشکل وقت میں ہمت و حوصلے کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیئے وہ تاریخ میں مثال ہیں۔ ان کا کہناتھا۔ ’’یہ ہند کی پاک و صاف سر زمین ہے ، یہاں جب بھی کوئی جنگ بھڑکی ہے ہمیشہ ظلم کرنے والوں کو شکست ہوئی ہے،۔ یہ میرا پختہ یقین ہے ۔ بے کسوں ، مظلوموں کا خون بہانے والا یہاں کبھی اپنے گندے خوابوں کے محل نہیں کھڑا کر سکے گا ، آنے والا وقت میرے اس یقین کی تائید کرے گا ۔‘‘
جنگ کے بعد آخر کار بیگم حضرت محل نے نیپال میں پناہ لی ۔ ابتدا میں نیپال کے راجاجنگ بہادر نےپناہ دینے سے انکار کر دیا ۔ لیکن بعد میں اجازت دے دی ۔ وہیں پر 1879 میں ان کی وفات ہوئی۔ کھٹمنڈو کی جامع مسجد کے قبرستان میں ان کو دفنا دیا گیا۔ 15 اگست، 1962 میں ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے صوبائی حکومت نے وکٹوریہ پارک میں ان کی یاد میں سنگ مرمر کا مقبرہ تعمیر کرا کر اسے بیگم حضرت محل پارک نام دیا ۔باوجود اس کے کہ بیگم حضرت محل بہت طاقتور تھیں اور انہوں نے اپنے دور میں کار ہاے نمایاں انجام دیے لیکن انہیں تاریخ کا ایک گمنام کردار بنادیا گیا۔ آج لوگوں کی اکثریت جھانسی کی رانی اور رضیہ سلطانہ کے بارے میں جانتی ہے لیکن بیگم حضرت محل کے بارے میں شاذو نادر ہی کوئی جانتا ہے۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ بیگم کو دیگر حکمرانوں کی باقاعدہ مدد حاصل ہوجاتی یا انہیں کچھ لوگوں کی طرف سے دھوکہ نہیں دیا جاتا تو وہ انگریزوں کو نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوجاتیں۔
اودھ پر جب انگریزوں کا قبضہ ہو گیا تو انہوں نے اسے بڑی حد تک تباہ و برباد کر ڈالا تھا۔ اُس وقت وہاں ایسا کوئی بھی نہیں تھا جو بیگم حضرت محل کی کہانی کو بیان کرتا۔ انگریز ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ ایک ایسی عورت کو یاد کیا جائے، جس نے دو سال تک انہیں روکے رکھا۔