• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے والد، چوہدری برکت علی نے گورنمنٹ کالج، لاہور سے بی اے کا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کیا۔ مقابلے کے امتحان کی تیاری مکمل تھی، لیکن بانیٔ پاکستان، قائدِ اعظم محّمد علی جناح کے حکم پر تحریکِ پاکستان کے حصول کی جنگ میں شریک ہوگئے اور اس امتحان کی قربانی دے دی، جس میں اُن کی کام یابی یقینی تھی۔ اُنہوں نے سرکاری ملازمت کرنے کی بجائے تجارت کو ترجیح دی اور اس میں بھی اشاعتی شعبے کو منتخب کیا۔ والد صاحب نے 1929ء میں’’ پنجاب بُک ڈپو‘‘ اور 1935ء میں ماہنامہ’’ ادبِ لطیف‘‘ جاری کرنے کے ساتھ’’ مکتبۂ اُردو‘‘ قائم کیا۔ وہ 8اگست 1952ء کو محض پچاس سال کی عُمر میں اس جہانِ فانی کو خیر باد کہہ گئے، مگر مُلک و قوم کے لیے اُن کی خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔

وہ ایک ادب دوست انسان تھے اور ادیبوں کی بڑی قدر کرتے تھے۔ ہمیشہ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے کوشاں رہے، اس مقصد کے لیے اُنہوں نے اسکولز بنوائے اور اسکولز کی تعمیر کے لیے دوسروں کو بھی دِل کھول کر چندہ دیا۔ غریب مسلمان طلبہ کو باقاعدگی سے مفت کتابیں اور کپڑے دیا کرتے تھے، جب کہ ضرورت مند ادیبوں کی بھی ہر طرح سے مدد کرتے۔ مَیں اسکول سے چُھٹی کے بعد پنجاب بُک ڈپو آجاتا، جو اُن دنوں ادیبوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ معروف افسانہ نگار، سعادت حسن منٹو سے میری پہلی ملاقات وہیں ہوئی۔ وہ دُکان پر آئے، تو والد صاحب بڑی گرم جوشی سے ملے اور مجھ سے کہا’’ بیٹا خالد! یہ منٹو صاحب ہیں، بہت بڑے افسانہ نگار۔‘‘ منٹو صاحب نے آگے بڑھ کر مجھے پیار کیا۔ اسی طرح ایک مرتبہ ہم دُکان پر کھانا کھا رہے تھے کہ ممتاز مفتی تشریف لے آئے۔ والد صاحب اُنھیں دیکھتے ہی کھڑے ہوگئے اور اُن سے بغل گیر ہوئے۔ پھر بڑی محبت سے ان کو بھی اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرلیا۔ غرض مَیں جب بھی دُکان پر جاتا، تو نام وَر ادیبوں سے ملاقات ہو جاتی۔ اُن میں مرزا ادیب، عارف عبدالمتین، احمد ندیم قاسمی، ابنِ انشا، اختر شیرانی، عبدالحمید عدم، فیض احمد فیض، عصمت چغتائی، قتیل شفائی، زبیدہ سلطانہ، شیریں گل، ڈاکٹر انور سدید، بانو قدسیہ، اشفاق احمد جیسے اہلِ علم شامل ہیں۔

میری عُمر کوئی 15 سال رہی ہوگی کہ والد صاحب کا اچانک انتقال ہوگیا، ہمارے لیے وہ وقت کسی امتحان سے کم نہ تھا، مگر ابا جی کے دوستوں نے اُن کی کمی محسوس نہ ہونے دی اور اُن جیسا ہی پیار دیا۔ جب بھی والد صاحب اور اُن کے نام وَر ادیب دوستوں کا خیال آتا ہے، تو دُعا کے لیے بے اختیار ہاتھ اٹھ جاتے ہیں۔

( محمّد خالد چوہدری، اُردو بازار، لاہور)

تازہ ترین
تازہ ترین