• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شروع سے کالا باغ ڈیم بنانے کی حمایت میں پنجاب کے آبی ماہرین جو اکثر واپڈا کے ریٹائرڈ افسران ہوتے ہیں اور سیاسی رہنما بیان دیتے رہے ہیں، ان کی یہ دلیل ہوتی ہے کہ کالا باغ ڈیم نہ بنانے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر دریا کا پانی سمندر میں جانے کی وجہ سے ضائع ہوجاتا ہے، ہونا تو یہ چاہئے کہ ایک کانفرنس پنجاب اور سندھ کے آبی ماہرین کی منعقد کی جائے جس میں دونوں اپنے اپنے موقف کے حق میں دلائل دیں، اس کانفرنس کی کارروائی لائیو ٹی وی پر دکھائی جائے تاکہ عوام یہ بحث سن کر کسی ایک نتیجے پر پہنچ سکیں، یہ اس وجہ سے ضروری ہے کیونکہ پنجاب سے کالا باغ ڈیم کے حق میں جوآواز اٹھتی ہے اس کی میڈیا پر بڑی تشریح ہوتی ہے جبکہ سندھ سے آنے والی آواز کو نہ میڈیا میں مناسب جگہ دی جاتی ہے اور نہ کوئی سنتا ہے، اسی طرح میرے خیال میں ایک ایسی کانفرنس اس ایشو پر کی جائے کہ سمندر میں دریا کے پانی کا جانا ضیاع ہے۔ اس سلسلے میں اپنے خیالات پیش کرنے سے پہلے میں چاہوں گا کہ ملک کے عوام کی توجہ اس بات پر مبذول کرائوں کہ کالا باغ ڈیم اور دیگر ملحقہ ایشوز پر جنرل پرویز مشرف نے ایک کمیشن قائم کیا تھا جس کے سربراہ سندھ کے ممتاز آبی ماہر اے جی این عباسی تھے۔ اس کمیشن کے دیگر ممبران کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹس کے بعد عباسی صاحب نے بشمول کالا باغ ڈیم، سارے منسلک ایشوز پر ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی جس میں ان ایشوز پر بشمول ماضی کی صورتحال اعداد و شمار کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا۔ جنرل پرویز مشرف کالاباغ ڈیم تعمیر کرنا چاہتے تھے مگر اے جی این عباسی کی اس رپورٹ کے بعد اس سلسلے میں اپنا فیصلہ ترک کردیا اور پھر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی بات نہیں کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اے جی این عباسی رپورٹ کے بعد پنجاب کے سارے آبی ماہرین کچھ وقت کے لئے کیوں خاموش ہوگئے؟ اب میں اصل ایشو کی طرف آتا ہوں، اس ایشو کے ایک پہلو کے بارے میں اپنے گزشتہ کالم میں سندھ کا موقف پیش کرچکا ہوں۔ اس سلسلے میں سندھ کا موقف یہ ہے کہ جب ہندوستان اور پاکستان کے دریائوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ہندوستان یہ سیلابی پانی حتیٰ المقدور پاکستان بھیج دیتا ہے جبکہ یہاں بالائی علاقے اپنے دریا میں آنے والا سیلابی پانی اور ہندوستان کی طرف سے بھیجا جانے والا پانی زیریں علاقوں (سندھ) کو بھیج دیتے ہیں اس کے نتیجے میں سندھ میں تباہی آجاتی ہے اور جب پاکستان کے دریائوں میںپانی کی شدید قلت پیدا ہوجاتی ہے تو بالائی علاقوں کے ’’مہربان‘‘ یہ قلت سندھ منتقل کردیتے ہیں اور اس وقت جو بھی پانی دستیاب ہوتا ہے وہ ترجیحی طور پر وہاں استعمال کیا جاتا ہے اور سندھ کے کینالز میں پانی کی شدید قلت ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں فصلوں کی اگائی بھی کم ہوتی ہے۔ اس مرحلے پر میں یہ تجویز دوں گا کہ حکومت پاکستان پہلی فرصت میں بالائی علاقوں اور زیریں علاقوں کی ایک اور کانفرنس منعقد کرےجس میں یہ طے کیا جائے کہ دریائی پانی میں زیریں علاقوں کا کتنا حصہ ہونا چاہئے اور بالائی علاقوں کے لئے پانی کا کتنا فیصد پانی مختص ہونا چاہئے۔ گزشتہ ایک دو سالوں کے دوران کالا باغ ڈیم ایشو پر پاکستان کے مختلف شہروں میں کانفرنسیں منعقد کی گئیں، میں نے ان میں سے ہر کانفرنس میں یہ تجویز دی مگر اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی بھی دریا پر پہلا حق زیریں علاقوں کا ہوتا ہے، اب میں اس بات پر آتا ہوں کہ 91 ء کے پانی کے معاہدے کے تحت کتنا پانی کوٹری بیراج کے نیچے چھوڑنا ہے، کتنا چھوڑا جاتا ہے اور کوٹری کے نیچے کتنا پانی سمندر کی طرف جانا چاہئے، اس سلسلے میں 91ء کے پانی کے معاہدے کی شق4 میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ میں یہاں من و عن پیش کررہا ہوں جو اس طرح ہے۔ ’’زمین پر سمندر کی زبردستی چڑھائی((sea intrusion کو روکنے کے لئے کوٹری کے نیچے کم سے کم پانی سمندر کی طرف چھوڑنے کو تسلیم کیا گیا، سندھ کی رائے تھی کہ سمندر کی طرف جانے والے پانی کی کم سے کم سطح 10 ایم اے ایف ہونی چاہئے، اس رائے پر تفصیل سے بحث کی گئی جبکہ دیگر اسٹڈیز میں اس سطح سے کم کی بھی نشاندہی کی گئی تو اس سے زیادہ کی بھی بات کی گئی۔ بہرحال یہ طے کیا گیا کہ کوٹری سے نیچے کتنا کم سے کم پانی جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں مزید اسٹڈیز کی جائیں گی۔‘‘ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب بالائی علاقوں کے مہربانوں کے مطابق اگر کوٹری سے نیچے سمندر کی طرف جانے والا پانی ضائع ہوتا ہے تو کیا جن لوگوں نے اس شق کو اس معاہدے میں شامل کیا وہ ان کی فاش غلطی تھی؟ واضح رہے کہ اس معاہدے پراس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے مذاکرات میں حصہ لیا اور بعد میں اس کی منظوری دی، اب ہم سارا سال کوٹری سے نیچے چھوڑے جانے والے پانی کی مقدار کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر لاتا چلوں کہ بعد میں کی گئی اسٹڈیز کے نتیجے میں پانی کی یہ مقدار کم کرکے غالباً 7 ایم اے ایف مقرر کی گئی مگر کیا اس پر بھی عمل کیا گیا حالانکہ جن اسٹڈیز کے نتیجے میں یہ مقدار طے کی گئی تھی اس پر سندھ کو شدید اعتراضات تھے۔ اس سلسلے میں ایک بار اسلام آباد میں بجلی اور پانی کے اس وقت کے وفاقی سیکرٹری کی صدارت میں اجلاس ہوا کہ کس ادارے سے مزید اسٹڈی کرائی جائے اس اجلاس میں چاروں صوبوں کے سیکرٹریز آبپاشی نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں سندھ کے سیکرٹری آبپاشی نے جب اس اسٹڈی کے ٹرمز آف ریفرنس پر اعتراض کیا اور کہا کہ ان ٹرمز آف ریفرنس میں کچھ مزید ٹرمز شامل کی جائیں۔
اتنے عرصے تک کوٹری کے نیچے مطلوبہ مقدار میں پانی سمندر میں نہ جانے کی وجہ سے جس اندیشے کا اظہار پانی کے معاہدے کی شق 4 میں کیا گیا ہے، بڑے پیمانے پر سمندر کا پانی زمین پر چڑھ آتا ہے، اب تک اس وجہ سے بدین اور ٹھٹھہ اضلاع کی لاکھوں ایکڑ زمین سمندر برد ہوچکی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت سندھ اس سلسلے میں نئے سرے سے سروے کرکے تازہ اعداد و شمار ظاہر کرے، لاکھوں ایکڑ زمین سمندر برد ہونے کے نتیجے میں اس علاقے کے کئی سو گائوں بھی سمندر برد ہوجاتے ہیں، اس کے نتیجے میں ہر بار ہزاروں لوگ وہاں سے منتقل ہوکر کہیں اور مقام پر جاکر آباد ہوتے ہیں جبکہ سمندر کے پیٹ میں جانے والی ہزاروں ایکڑ زمین بھی سمندر میں غرق ہوجاتی ہے۔ (جاری ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین