پاکستان میں دیگر شعبوں کی طرح، بینکاری شعبے میں بھی مردوں کا غلبہ رہا ہے، تاہم سیما کامل، اپنی لگن اور بلند نظری سے پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے بینک (اثاثوں کے اعتبار سے) کی سربراہ بن کر روایت شکن ثابت ہوئی ہیں۔
سیما کامل کو گزشتہ سال یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ(UBL) کا چیف ایگزیکٹو آفیسر منتخب کیا گیا تھا اور اس طرح وہ پاکستان کے کسی بھی بڑے اور مرکزی دھارے میں شامل کمرشل بینک کی سربراہ بننے والی اولین خاتون کا اعزاز بھی اپنے نام کرگئیں۔ ہرچند کہ، یہ اعزاز حاصل کرنا، سیما کامل اور دیگر پاکستانی خواتین کے لیے ’لمحہ فخریہ‘ سے کم نہ تھا، تاہم سیما کامل بذات خود صرف اسی بات پر اکتفاء کرنے سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ اسے ایک بڑی ذمہ داری سے تشبیہہ دیتی ہیں۔
پاکستان کے بینکاری شعبے میں سیما کامل کا اُبھر کر آنا ’غیرمعمولی‘ حادثے سے کم نہیں۔ ہر چند کہ، پاکستان وہ مسلم ریاست ہے، جہاں سب سے پہلے ایک خاتون کو ملک کا چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم منتخب کیا گیا تھا، تاہم اس کے باوجود، اس ملک میں پروفیشنل خواتین کا اپنے متعلقہ شعبوں میں چوٹی پر پہنچنا اب بھی ’غیرمعمولی‘ اور’معجزانہ‘ تصور کیاجاتا ہے۔
1947میں آزادی سے پہلے،کراچی کسی سوئے ہوئے بندرگاہ والے شہر کی طرح تھا، جہاں سیما کامل کے والد پلے بڑھے۔ برِصغیر کی تقسیم کے دوران سیما کامل کے ننھیال کو شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔
انھوں نے مشرقی پنجاب سے بذریعہ ریل گاڑی لاہور کا سفر باندھا۔ ہجرت کا سفر کاٹنے کے بعد، سیما کامل کے ننھیال نے اپنے بچوں کی تعلیم پر بھرپور توجہ دی۔سیماکامل کی والدہ لاہور کے ایک کالج میں فلاسفی پڑھ رہی تھیں اور یہی وہ وقت تھا، جب ایک دن لاہور شہر میں مشاعرے کے دوران وہ اپنے مستقبل میں ہونے والے شوہر سے ملیں۔ سیما کامل مانتی ہیں کہ ان کی والدہ ہی ان کےلیے ’ڈرائیونگ فورس‘ تھیں۔ وہ ہر وقت، سیما اور اپنے بیٹے(سیما کے بھائی) کی بہترین تعلیم کے لیے کوشاں رہتی تھیں۔ ان کی والدہ کی ان ہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ سیما کامل کو کراچی گرامر اسکول میں داخلہ مل گیا، جس کا شمار صرف کراچی ہی نہیں، بلکہ پاکستان کے بہترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔
’مارگریٹ اَیٹ ووڈ‘ اور ’گراہم گرین‘ ان کے پسندیدہ مصنف ہیں اور ان کے کام کی بڑی مداح ہیں۔ انھیں پڑھتے پڑھتے وہ ادب اور تاریخ کی طالبہ بن گئیں۔ ’اگر مجھ سے میری خواہش سے متعلق پوچھا جاتا تو یہی کہتی کہ میں انھیں پڑھنا چاہتی اور اب بھی ان ہی کو پڑھتی ہوں۔ میں معاشیات کے موضوع پر کتابیں نہیں پڑھتی‘، وہ کہتی ہیں۔ سیما کامل نے کسی امیر خاندان میں آنکھ نہیں کھولی تھی جو انھیں’ آرٹ‘ یا ’ہیومینٹیز‘ پڑھنے کے لیے کالج بھیجتے۔یہی وجہ ہے کہ وہ لندن کی سٹی یونیورسٹی سے ’ایم بی اے‘ کرنے کے لیے برطانیہ چلی گئیں۔ حالانکہ، ایم بی اے مکمل کرنے کے بعد وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ’ڈیویلپ منٹ اکنامکس‘ پڑھنے کے لیے بھی منتخب کی گئی تھیں، تاہم ان کی فیملی اس کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔ اس کے بجائے، وہ پاکستان واپس آئیں اور کراچی میں امریکن ایکسپریس میں کام شروع کردیا۔
تین سال بعد سیما کامل نے ’اے این زی گِرنڈ لیز بینک‘ میں نوکری حاصل کرلی۔ اس بینک کے لیے پہلے انھوں نے کراچی میں کام کیا اور بعد میں لاہور چلی گئیں۔ تاہم لاہور جانے کے فیصلے سے ان کے والدین خوش نہیں تھے، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کا اکیلے رہنا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ ’اے این زی‘ میں سیما کامل اپنی محنت اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر ترقی کی منازل طے کرتی چلی گئیں۔ 1990کے عشرے کے وسط میں بینک کی جانب سے انھیں میلبرن بھیج دیا گیا۔ واپس پاکستان آنے پر، انھوں نے پہلے بینک کے کریڈٹ ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ اور پھر کارپوریٹ ریجنل ایگزیکٹو کے عہدے پر ترقی پائی۔ تاہم سن 2000میں اے این زی کو اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک نے خرید لیا۔
2001ء میں سیما کامل، حبیب بینک میں کام کرنے کا موقع حاصل کرنے میں کامیاب رہیں، جہاں رفیع الدین ذاکر محمود کی صورت میں انھیں گُرو (Mentor)میسر آیا۔ ذاکر محمود نے پہلے انھیں ریجنل کارپوریٹ بینکنگ یونٹ میں کام کرنے کا موقع دیا، جس کے بعد 2004ء میں انھیں اسی کا سربراہ بنا دیا۔ 2011ء میں انھیں ایک اور ترقی دے کر ’لینڈرز برانچ نیٹ ورک‘ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس کردار میں وہ، پاکستان کی بینکاری صنعت میں ایک سال کے دوران بینک کے رواں کھاتوں (کرنٹ اکائونٹ) میں اوسطً سب سے زیادہ اضافہ کرنے میں کامیاب رہیں۔ گزشتہ سال انھیں یوبی ایل کی جانب سے چیف ایگزیکٹو آفیسر بننے کی پیشکش کی گئی، جسے وہ انکار نہ کرسکیں، کیونکہ ایک نہ ایک دن بینک میں ’ٹاپ جاب‘ حاصل کرنا ان کا ہدف تھا۔