آج کے دور میں لوگوں کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ قصے کہانیاں سنیں یا سنائیں ،وہ دور الگ تھا جب لوگ شہر کے کسی کھلے میدان یا گاؤں کے کسی بڑے گھر میں جمع ہوکر باری باری حاضرین کے سامنے اپنی کہانیاں پیش کرتے، جس سے لوگ لطف اندوز ہوتے تھے۔’’ناول نگاری ،، ادب کی انتہائی اہم صنف ہے،جس میں افسانوں ،داستانوں اور کہانیوںکے برعکس انسانی زندگی کا قصہ پیش کیاجاتا ہے۔
پاکستانی خواتین نےمردوں کے بہت بعد ناول نگاری کے میدان میں قدم رکھاتاہم یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ ان ناول نگار خواتین نے اپنے ناولوں کے ذریعے عورتوں کے بنیادی مسائل مثلاً تعلیم و تربیت، سماجی و اخلاقی اور معاشرتی خامیوں کو دور کرنے کی بھی سعی کی ہےگوکہ پاکستانی خواتین مصنفین نے فن اور موضوع دونوں اعتبار سے ناول نگاری کو وسعت بخشی ہے۔ ان ہی میںسے کچھ مشہور اردو اور انگریزی ناول نگار خواتین کا ذکر ہم آپ سے کرنے جارہے ہیں جن کی تحریروں نے عورت کے کم ہوتے وقار کو بلند کیا۔
انگریزی ناول
کاملہ سمشی(Broken Verses)
کاملہ شمسی کو بین الاقوامی سطح پر ایک اہم ناول نگار کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ انھیں کئی ادبی اعزازات سے بھی نوزا گیا،وہ اگرچہ لندن میں مقیم ہیں لیکن اُن کے تقریباً سب ناولوں کا پس منظر پاکستان اور خاص طور پر کراچی ہے۔کاملہ شمسی کی
کہانیوں کامرکز بیرونِ ملک پڑھائی یا ملازمت کے لیے جانے والوں کے گرد گھومتا ہے،جن کا اصل ٹھکانہ کراچی ہے۔کاملہ شمسی کے بہترین
ناولوں میں سے ایک’’ بروکن ورسز،،یعنی شکستہ شاعری ہے۔کہانی کا مرکزی کردار آسمانی لڑکی ہے جس کی والدہ ،آمریت کے خلاف آواز اٹھانے والی سماجی اور سیاسی حقوق کی ایک سرگرم کارکن جبکہ باپ انقلابی شاعر تھے۔لڑکپن میں باپ کا قتل اور ماں کی موت کا دکھ آسمانی کو ان تمام سرگرمیوں سے کوسوں دور لے جاتا ہے جنھیں اس کے والدین اپنا فرض سمجھتے تھے۔بروکن ورسز کی کہانی بھی ایک عام پاکستانی شہری کی طرف اشارہ کرتی ہے جوسیاست اور سماجی انصاف کے مسائل میںصرف اس لیے دلچسپی نہیں لیتے کہ صرف دکھ اور تشدد ہی ملے گا چنانچہ خودغرضی کی راہ اپنالیتے ہیں ۔کاملہ شمسی اب تک سات ناول لکھ چکی ہیں اور بروکن ورسز ان کا چوتھا ناول ہے۔رواں برس ان کے ناول ’’’ہوم فائر،، کو2018ءکا ویمن پرائز فار فکشن (سال کا سب سے بہترین انگلش ناول ) کے طور پر منتخب کیا گیا ۔
فاطمہ بھٹو(Songs of Blood and Sword )
پاکستانی مصنفہ اور سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی، فاطمہ بھٹوکا شمار انگریزی ناول نگاروں میں ہوتا ہے،فاطمہ بھٹو نے لندن یونیورسٹی اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز سے تعلیم حاصل کی ۔ان کا مشہور ناول’’ سونگز آف بلڈ اینڈ سورڈ ،،ہے جس میں فاطمہ بھٹو نے اپنے والدکی سوانح عمری لکھنے کی کوشش کی ہے۔ فاطمہ بھٹو کو 19ویں اورنج پرائز کے لیے نامزد کیا گیاجبکہ2013ء میں بُکر پرائزجیتنے کا سہرا بھی فاطمہ بھٹو کے سر ہے ۔
مونی محسن
اگر پاکستان کے ادبی مستقبل کی بات کریں تو اس کی باگ ڈور دوسرے مشہور ناول نگاروں کی طرح مونی محسن جیسے ادیبوں کے ہاتھ میں بھی ہے۔اگر بات کی جائے مونی محسن کی ادبی تخلیقات کی تو ان کے ناول جو ان کے مشہور کالم 'Diary of A Social Butterfly' پر مبنی ہیں، لاہوری سوسائٹی کی احمقانہ باتوں پر نہ ختم ہونے والے مزاح اور آسٹن کی طرح لوگوں کی خوشدلی پر تبصرے سے بھرپور ہیں۔
اردو ناول
اردو خواتین ناول نگار وںکی بات جائے تو اردو کے بہترین ناولوں کی ایک لمبی فہرست ہمارے سامنے موجود ہے جن میں مشہور اور بہترین کا انتخاب قدرے مشکل ہے، ذیل میں کچھ مشہو رناولوںکا ذکر ہے۔
قرۃ العین حیدر (آگ کا دریا)
معروف ناول نگار قرۃالعین حیدر سے کون واقف نہیں، ان کے مشہور ناول ’آگ کا دریا‘ کو اردو کاعظیم ناول قرار دیا جاتا ہے۔ قرۃ العین حیدر نے اس ناول میں ہندوستان کی 2500سالہ تاریخ کو بیان کیا ہے۔
آگ کا دریا تین تہذیبی ادوار میں تقسیم ہے جو ویدک دور سے شروع ہوکر موریہ خاندان کے دور حکومت ،مغلوں کے عہد، سامراجی دور اور آخر میں ملک کی تقسیم کے واقعات کے تاریخی پس منظر کو پیش کرتا ہے۔ اگر آپ تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہوئے اسے گرفت میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو گویا تاریخ بھی آپ کو گرفت میں لے لیتی ہے۔
بانو قدسیہ(راجہ گدھ)
بانو قدسیہ کے مشہور ناول راجہ گدھ کو اردو کے بہترین ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے، یہ ایک ایسا فلسفیانہ ناول ہے جو تخلیقی طور پر بہت طاقتور لیکن نظریاتی طور پر بہت کمزور ہے۔ یہ انسانوں کے نفسیاتی اور سماجی مسائل کا روحانی حل پیش کرتا ہے۔یہ لاہور کے ایک تعلیمی ادارے میں پڑھنے والے دوستوں کی کہانی ہے، جن کی عملی زندگیاں کئی پہلوؤں سے آشکار ہوتی ہیں۔