مشل لووان روبنسن اوباما 17 جنوری 1964 ء کو پیداہوئیں۔ پیشہ کےلحاظ سے قانون دان اور مصنفہ ہیں، انہوںنے امریکہ کی خاتونِ اوّل کی حیثیت سے وائٹ ہائوس میں 2009ءسے 2017 ء تک قابل ِ ذکروقت گزارا ۔ مشل کی پرورش شکاگو ، الونائے کے شمالی علاقے میں ہوئی ۔ انہوں نے پریسٹن یونیورسٹی اور ہارورڈ لاء اسکول سے گریجویشن کی اور اپنے کیریئر کے ابتدائی سال سڈلے ایسٹن لاء فرم میں گزارے جہاں ان کی ملاقات بارک اوباما سے ہوئی۔ ساتھ ہی وہ یونیورسٹی آف شکاگومیں اسٹوڈنٹ سروسز کی ایسوسی ایٹ ڈین کے طور پر بھی کام کرتی رہیں اور یونیورسٹی آف شکاگو میڈیکل سینٹر کی ’کمیونٹی اینڈ ایکسٹرنل افیئرز‘ کے لیے نائب صدر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتی رہیں۔ مشل اور اوباما کی شادی 1992ء میں ہوئی اور ان کی دو صاحبزادیاں ہیں۔
مشل نے اپنے شوہر کیلئے 2007ء اور 2008ء میںبھرپور انتخابی مہم چلائی اور ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن میں ایک اہم خطاب بھی کیا۔ مشل نے 2012ء میں دوبارہ خطاب کیا اور 2016ء میں ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہیری کلنٹن کیلئے بھی اپنے خطاب میں عمدہ دلائل دیے۔ بحیثیت خاتونِ اوّل مشل اوباما عورتوں کےلیے رول ماڈل ، غربت کی آگاہی کی آواز ، مستحق افراد کی تعلیم، غذائی ضروریا ت کی سرگرمیوں کی نمائندہ اور فیشن آئیکون کے طور پر سامنے آئیں۔
مشل اوباما بحیثیت ایک ماں
دو پیاری بیٹیوں ساشا ؔ اور مالیہؔ کی ماں مسز اوباما کی محبت ان کے خاندان کی قوتِ ارادی ہے اور وہ سبھی کام کررہی ہیں جو عورتوں اور ان کی بیٹیوں کیلئے مثال بن رہا ہے۔ مشل کا ماننا ہے کہ اپنی اولاد کی دیکھ بھال، پرورش اور مامتا نچھاور کرنے کیلئے انہیں پہلے روز ہی سے ہر ممکن طریقے سے تیار رہنا ہے۔ مشل نے بیٹیوں کی پرورش کیلئے اپنی ماں میریان شیلڈ روبنسن کو اپنا رول ماڈل بنایا ہے جنہوں نے مشل اوباما کی پرورش کی اور آج کی مشل بننے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔
خاتونِ اوّل ہونے کی بے بہا ذمہ داریوں کے باوجود مشل نے اپنی بیٹیوں کی تربیت کے حوالے سے کبھی کوتاہی نہیں برتی اور ہمیشہ انہیں ترجیحات میں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ساشاؔ اور مالیہؔدوسرے امریکی بچوں (40 فیصد زائد وزن اور 17 فیصد موٹاپے میں مبتلا) کی طرح بسیار خوری یا موٹاپے کا شکا ر نہیں ہوئیں ۔مشل کو صرف اپنی بیٹیوں کا ہی نہیں بلکہ امریکی بچوں کا بھی خیال تھا ۔ اسی لیے انہوں نے ’’ چائلڈ ہُڈ اوبیسیٹی کے خلاف ’ Lets Move‘ نامی مہم چلائی۔
سابقہ خاتونِ اوّ ل اپنی بیٹیوں پر نظر رکھتی تھیں ، ساشاؔ اور مالیہؔ کو پورے ہفتے میں ٹی وی دیکھنے یا کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی جب تک کہ انہیں اپنے ہوم ورک کے سلسلے میں اس کی ضرورت نہ پڑتی ۔دونوں کا ٹی وی دیکھنا محدود تھا۔ مشل کا کہنا تھا کہ انہوںنے اپنی بچیوں کی پروش بیٹیوں کی طرح کرنا چاہا نہ کہ شہزادیوں کی طرح۔انہیں باور کرادیا گیا تھا کہ انہیں اپنا بستر خود ٹھیک کرنا، اپنی پلیٹیںاوراپنا کمرہ خود صاف کرنا ہے جبکہ دوسروں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنا چاہیے۔ اوباما کی صدارت کے دوران دختران اوّل ہونے کے باوجودہر ایک کو ایک ڈالر فی ہفتہ ملتا تھاکیونکہ مشل چاہتی تھیں کہ ان کی بیٹیاں ہر ایک ڈالر کی قدر کرنا جانیں۔ مشل اوباما اپنی بیٹیوںکو 8 بجے سونے بھیج دیتی تھیں تاکہ وہ صبح تازہ دم اٹھیں۔ بچیوں کی پرورش کے حوالے سے انہیں ’ موم ۔ ان ۔ چیف‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
بارک اوبا ما کا الوداعی خطاب
شکاگو میں امریکی صدر بارک اوباما جب وائٹ ہاؤس سے رخصت ہورہے تھےتو اپنے الوداعی خطاب میں وہ اپنی اہلیہ مشل اوباما اور بیٹیوں کو بہترین خراج تحسین پیش کرنا نہ بھولے۔انہوں نے خاتون اول مشل اوباما کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں قوم کے نوجوانوں کے لیے بہترین مثال قرار دیا۔خطاب کے دوران جیسے ہی انہوں نے اپنی اہلیہ کا نام لیا، ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اس دوران صدر اوباما آبدیدہ ہوگئے اور انہیں اپنے جذبات پر قابو پانے میں کافی وقت لگ گیا۔
مشل گزشتہ 25 سالوں سے نہ صرف بارک اوباما کی اہلیہ اور بچوں کی ماں بلکہ ان کی بہترین دوست ثابت ہوئیںکیونکہ مشل نے خود سے وہ ذمہ داری اٹھائی جو کسی نے ان پر عائد نہیں کی تھی۔انہوں نے خود اس کردار کا تعین کیا اور باوقار طریقے سے اسے نبھایا۔اوباما نے کہا، ’مجھے تم پر فخر ہے۔ پورے امریکا کو تم پر فخر ہے‘۔
مشل اوباما کی خدمات
اپنے شوہر کے 8 سال دور صدارت میں مشل اوباما اپنے سادہ مگر باوقار انداز کی وجہ سے امریکیوں کی پسندیدہ ترین شخصیت بن چکی تھیں اور ہر محاذ پر خود بھی خاصی سرگرم رہیں۔امریکی خاتون اول نے ترقی پذیر ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خاص طور پر کام کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نےلیٹ گرلز لرن (Let Girls Learn) نامی منصوبے کا آغاز کیا۔اس منصوبے کے تحت پاکستان، افغانستان، اردن اور کئی افریقی ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکولوں کی تعمیر اور دیگر تعلیمی منصوبوں کا آغاز کیا گیا۔ ان منصوبوں کے لیے امریکی بجٹ کی ایک خطیر رقم مختص کی گئی۔مشل اوباما نے ہالی ووڈ اداکارہ میرل اسٹریپ اور بالی ووڈ اداکارہ فریدہ پنٹو کے ہمراہ لائبیریا اور مراکش میں بھی تعلیمی منصوبوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے شعور و آگاہی کی مہم چلائی۔
مشل اوباما کی سربراہی میں چلنے والا ایک اور منصوبہ مائی برادرز کیپر (My Brother's Keeper)ہے۔ اس کے تحت امریکا میں آباد سیاہ فام نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی استعداد میں اضافہ کے لیے کام کیا گیا تاکہ وہ اپنی کمیونٹی اور امریکی معاشرے کی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔مشل اوباما اپنی ہر تقریر میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے، محنت کرنے، آگے بڑھنے اور وقت ضائع کرنے والے فیشن ٹرینڈز کے پیچھے نہ بھاگنے کی تلقین کرتی رہیں۔ایک بار ایک تقریب میں وہ امریکی لڑکیوں کو لڑکوں سے دور رہنے اور اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز رکھنے کی ہدایت بھی کر چکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا، ’اس عمر میں کوئی لڑکا اس قابل نہیں جو آپ کو آپ کی تعلیم سے بھٹکا دے۔ اگر آپ کی عمر میں، میں اس بارے میں سوچتی تو میری شادی امریکی صدر سے نہ ہوئی ہوتی‘۔
مشل اوباما نے اینا کوسٹیا بولنگ بیس کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے بچوں کے لئے کھلونے جمع کرنے کی مہم میں حصہ لیا۔ اپنے دورے میں وہ امریکی فوجی اہلکاروں کے بچوں سے بھی ملیں۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جن بچوں کا بچپن غربت کی لکیر کے نیچے کہیں کھو جاتا ہے، ان بچوں کے لئے تحائف اور کھلونے جمع کرنے سے انہیں بہت خوشی حاصل ہورہی ہے۔یاد رہے کہ ننھے بچوں کے لئے کھلونے نامی یہ مہم1947 ءسے مسلسل ہرسال امریکا میں منائی جاتی ہے۔
صدارتی انتخاب سے انکار
مشل اوباما کا کہنا ہے کہ وہ نوجوانوں کےلیے کام کر رہی ہیںاور نوجوانوں کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ انتخابات میں حصہ لے کر امریکی صدر بننے کی کوئی خواہش نہیں رکھتیں۔ مشل اوباماکی اوباما فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے سماجی خدمت اور عوامی رابطوں کی مصروفیات جاری رکھنے کی خواہش ہےاور عوامی رابطوں سے انھیں یہ یقین حاصل ہوا ہے کہ امریکا کا سیاسی مستقبل بہت بہتر ہے، ان کا کہنا تھا کہ امریکی سماج میں میری جیسی ہزاروں لاکھوں مشل پروان چڑھ رہی ہیں۔