• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ممکن ہے دوسرے ممالک میں بھی یہی کچھ یا اس سے کچھ ملتا جلتا ہو رہا ہو۔ لیکن ہمارے ہاں جو نقشہ بن گیا ہے اسے زیادہ دل خوش کن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ میری مراد سیاستدانوں کے بارے میں روا رکھے گئے طرزعمل سے ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان میں صرف ایک طبقہ ( یا مخلوق ) تمام گناہوں ، بد عنوانیوں ، غلط کاریوں اور بد کرداریوں کا مجموعہ ہے۔ جسے سیاستدانوں کا طبقہ کہا جاتا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سیاستدان مستقبل کے حکمران ہوتے ہیں۔ وہ قا نون سازی کرتے اور پالیسیاں بناتے ہیں ۔قوم کے کردار و عمل کی تشکیل اورملک کو صحیح راستوں پر چلانے کی بھاری ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔ اس لئے بجا طور پر انہیں ایک نمونے کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ انہیں با کردار بھی ہونا چاہیے اور بے داغ بھی۔ انکے طرز عمل میں ایسی کوئی خرابی نہیں ہونی چاہئے جو انہیں قیادت کے منصب کیلئے نااہل بنا دے۔
یہ سب کچھ بجا لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے دوسرے تمام طبقات کو ہر طرح کے احتساب اور جوابدہی سے استثنیٰ حاصل ہونا چاہیے؟ آج کل اخبارات اور ٹی وی چینلز پر ان سیاسی شخصیات کی ذاتی زندگیوں کے حوالے سے تمام تر تفصیلات لطف لے لے کر بیان کی جا رہی ہیں ،جو انتخابی میدان میں اترے ہیں۔ اسی طرح کچھ ایسی شخصیات کے اثاثوں کی تفصیلات بھی نمایاں سرخیوں کا حصہ بنی ہیں جو نگران حکومتوں میں شامل ہیں۔ قوم کو بتایا جا رہا ہے کہ کس کے پاس کتنی زرعی زمین، کتنے گھر اور کوٹھیاں، کتنی گاڑیاں ، کتنے بینک اکائونٹس اور بینک بیلنس، ہیں۔ ا نہوں نے کتنے غیر ملکی دورے کیے، کتنا ٹیکس ادا کیا۔ کتنے قرضے لئے ، کتنی ادائیگیاں کی ہیں۔ کتنی فیکٹریوں کے مالک ہیں۔ یہاں تک کہ انکی کتنی بیگمات ہیں اور ان بیگمات کے اثاثے کیا ہیں۔ کتنے بچے ہیں اور ان بچوں کے نام پر کیا کیا ہے۔ یوں کہیے کہ جس شخص نے بھی میدان سیاست کا رخ کیا اسے اپنی ایک ایک سانس اور زندگی کے تمام شب و روز کا حساب دینا پڑ گیا۔ انہی دنوں نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک اور انکی اہلیہ کے اثاثوں کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ بہت سے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوا کہ یہ تمام اثاثے یکم جون سے پہلے بھی انکی ملکیت تھے۔ مگر کسی کے علم میں نہیں تھے۔ نہ ہی خلق خدا کی زبان کا موضوع بنے۔ جیسے ہی نگران وزیر اعظم کے طور پر وہ میدان سیاست میں اترے انکا پورا "نامہ اعمال"' اخبارات اور چینلز کی زینت بن گیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ دو ماہ کیلئے سیاست کی طرف نہ آتے تو ہم میں سے کسی کو انکے یا انکی اہلیہ کے اثاثوں کے حوالے سے کوئی خبر نہ ہوتی۔ تو کیا یہ سوال صرف سیاستدانوں سے ہی پوچھا جانا چاہیے کہ انکے اثاثے اور ذرائع آمدن کیا ہیں؟ اور وہ ٹیکس کتنا دیتے ہیں؟ یا یہ سوال قوم کے دوسرے طبقات سے وابستہ تمام اہم شخصیات سے بھی پوچھا جانا چاہئے؟
کہا جاتا ہے کہ بیوروکریسی ہمارے ہاں سب سے موثر اورطاقتور طبقہ ہے، جسکے اقتدار کو کبھی زوال نہیں آتا۔ آخر ایک سینئر بیوروکریٹ سے کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ اسکے اثاثے کیا ہیں۔ اور اگر پوچھا جاتا ہے تو اسکی تشہیر کیوں نہیں کی جاتی؟۔ یہ سوال بڑے بڑے غیر سیاسی جاگیر داروں، وڈیروں ، زمینداروں اور گدی نشینوں سے کیوں نہیں کیا جاتا؟۔ یہ تفصیلات اربوں کھربوں کمانے والے تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں سے کیوں نہیں طلب کی جاتیں؟۔ حتی کہ یہ سوال حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلوں اور جج صاحبان سے کیوں نہیں پو چھا جاتا؟ یہی سوال نامور صحافیوں اور ٹی وی اینکروں سے کیوں نہیں پوچھا جاتا؟ کیا ان سب کیلئے انصاف اور احتساب کے پیمانے الگ الگ ہیں؟ مقصد یہ ہر گز نہیں کہ کسی کی تضحیک کی جائے۔ مقصد یہ ہے کہ صرف اہل سیاست کو نشانہ بنانے سے محض ایک طبقہ نشانہ نہیں بنتا ، جمہوری عمل نشانہ بنتا ہے۔ جمہوریت نشانہ بنتی ہے۔ اور بالواسطہ سیاست دانوں کی بے توقیری کر کے پورے سیاسی عمل کو بے توقیر کیا جاتا ہے۔
معاملہ صرف اثاثوں کی تفصیلات اور انکی تشہیر تک محدود نہیں۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے نظام احتساب کا سب سے پسندیدہ نشانہ بھی سیاستدان ہی ہیں۔ کرپشن کے(جھوٹے یا سچے) الزامات میں سب سے لمبی قید آصف علی زرداری نے کاٹی جو ایک سیاستدان تھے۔غالبا اس طویل ترین قید کے باوجود عملی طور پر کرپشن کا کوئی الزام بھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا۔ آج کے مقبول ترین سیاست دان نواز شریف بھی پا کستان کے ہی نہیں دنیا کے واحد سیاستدان ہیں جو کرپشن کے الزام میں ایک سو کے لگ بھگ پیشیاں بھگت چکے ہیں۔ کرپشن کا کوئی الزام تو ابھی تک ثابت نہیں ہوا مگر پیشیوں کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
نیب جب چاہے کسی بھی سیاستدان کے حوالے سے کوئی بھی الزام اچھا ل دیتا ہے۔ اسکے بعد میڈیا اس پر جھپٹ پڑتا ہے۔ اور سیاستدانوں کو بے گناہ ہوتے ہوئے بھی کئی کئی ماہ صفائیاں دینے میں گزر جاتے ہیں۔ اسکی حالیہ مثال نیب کی طرف سے جاری ایک پریس ریلیز ہے جس میں کہا گیا کہ نواز شریف نے 4.9 ارب ڈالر ز کی منی لانڈرنگ کی ہے۔ یہ رقم بھارت کو بھجوائی گئی۔ اسکے لئے ورلڈ بینک کی کسی نام نہاد رپورٹ کا سہارا لیا گیا ۔ 24 گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ ورلڈ بنک نے وضاحت پیش کر دی ۔ یہ تفصیل بھی سامنے آگئی کہ نیب نے انتہائی جلد بازی اور اناڑی پن کا مظاہرہ کیا ہے۔ گھنٹوں نہیں کئی ہفتوں تک مخالف میڈیا نے نواز شریف کو کٹہرے میں کھڑے رکھا۔ میاں صاحب نے چیئرمین نیب کو معافی کے مطالبے کیساتھ ساتھ ایک قانونی نوٹس بھی بھجوا رکھا ہے۔ مگر اسکا ذکر سننے میں نہیں آتا۔ نیب جنرل (ر) پرویز مشرف کی تخلیق ہے۔ ہر پاکستانی کو معلوم ہے کہ کس طرح نیب کے ذریعے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر سرکاری سرپرستی میں ایک سیاسی ٹولہ جمع کیا گیا ۔ مشرف توہمارے ملک کا اور آئین کا حلیہ بگاڑ کر چلتے بنے۔بعد میں انکی 17 ویں آئینی ترمیم اڑا دی گئی، لیکن نہ سب سے لمبی قید کاٹنے والے آصف زرداری کو یاد آیا اور نہ سب سے زیادہ پیشیاں بھگتنے والے نواز شریف نے ضروری سمجھا کہ اس کالے قانون کو(جس کا مقصد احتساب نہیں ، صرف سیاستدانوں کے چہروں پر کالک تھوپنا ہے)کو اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے۔ یہی حال آرٹیکل 62/63 ہے ۔ جسکا اطلاق ہمارے قانون کے مطابق صرف سیاستدانوں پر ہوتا ہے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ اسلا می جمہوریہ پاکستان میں کسی بھی طبقے کیلئے ، خواہ وہ کتنا ہی طاقتور اور اہم کیوں نہ ہو، صادق اور امین ہونا ضروری نہیں۔ یہ صداقت اور امانت صرف سیاستدانوں کا لازمی وصف قرار دی گئی ہے۔ ایک سیاست دان اپنی غیر وصول شدہ تنخواہ ظاہر نہ کرنے کے جرم میں کڑی سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ لیکن باقی تمام معاشرتی طبقات اور ان سے وابستہ شخصیات کے حوالے سے نہ تو کوئی ایسا کڑا پیمانہ مقرر کیا گیا ہے نہ انکے لئے صادق اور امین ہو نا ضروری ہے۔ نہ انکے لئے کوئی سزا تجویز کی گئی ہے۔ سیاستدانوں کیساتھ روا رکھے گئے اس رویے کا پس منظر ایک تو یہی ہے کہ سیاستدانوں کو بے وقار اور بے توقیر رکھا جائے۔ تاہم اسکی بھاری ذمہ داری بھی خود سیاستدانوں ہی پر عائد ہوتی ہے۔ جو قومی تاریخ کے تلخ تجربات سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں ۔ وہ دوسروں کیلئے گڑھے کھودتے اور خود ان میں گرتے رہتے ہیں اور اصلاح احوال کیلئے متحد نہیں ہوتے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین