اسلام آباد (فاروق اقدس) سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی صدارت سے استعفیٰ کسی حکمت عملی کے تحت دیا ہے یا پھر عوامی سطح پر مسلسل غیر مقبولیت اور سیاسی حلقوں کی جانب سے اُن سے قطعاً لاتعلقی نے اُنہیں اب واقعی مایوسی کردیا ہے کیونکہ ملک بھر میں اُن کی جماعت میں کوئی سنجیدہ آواز نہیں جو کسی بھی حوالے سے اُن کے کسی بھی اقدام کا دفاع کرسکے یا انتخابات میں حصہ لینے پر اُنہیں عوامی سطح پر کوئی حمایت حاصل ہو۔اب ایک ایسے مرحلے پر جب ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں محض ایک ماہ رہ گیا ہے۔ سابق صدر کی جانب سے اپنی جماعت کی سربراہی کو خدا حافظ کہہ دینا یہ وسوسے پیدا کرسکتا ہے کہ پاکستان واپس آکر ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے پر ضد کی حد تک خواہش کرنے والے سابق فوجی حکمران کو ملک میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے اپنی خواہش پر مبنی کوئی اور منظر نظر آرہا ہے یا وہ پاکستان میں اپنی سیاسی حمایت سے مکمل طور پر دل برداشتہ ہوچکے ہیں یا پھر اُنہیں اس بات کا بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ ماضی کے برعکس اب جس شخصیت پر بھی الزامات ہیں وہ اپنے سابقہ منصب کی اہمیت کے باوجود بھی راہ فرار اختیار نہیں کرسکتااور اسے بہرحال عدا لتو ں کے سامنے جواب دہ ہونا ہوگا۔ اس لیے انہوں نے زمینی حقائق کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا ہے۔ پرویز مشرف تقریباً چار سال کی خودساختہ جلاوطنی کے بعدمارچ 2013 کو ملک میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کراچی پہنچے۔اُن کی آمد سے قبل وسیع پیمانے پر اُن کے پرجوش استقبال اور لاکھوں افراد کے ائیرپورٹ پر جمع ہونے کی خبریں کئی دنوں سے سامنے آرہی تھیں لیکن اُس روز ائیرپورٹ پر ایک انتہائی افسوسناک منظر تھاجہاں چند سو افراد کے علاوہ اُن کے استقبال کیلئے کوئی قابلِ ذکر شخصیت بھی موجود نہیں تھی۔ پروگرام کے مطابق پرویز مشرف نے ائیرپورٹ سے آمد کےبعدمزارقائداعظم پر ایک جلسے سے بھی خطاب کرنا تھا لیکن شرکاء کی عدم دستیابی کے باعث یہ جلسہ منسوخ کرنا پڑااور یہ جواز اختیار کیا گیا کہ انتظامیہ نے جلسے کی اجازت نہیں دی۔پاکستان میں کم وبیش تین سال قیام کے بعد پرویز مشرف دوبارہ دبئی روانہ ہوگئے تھے اور انہوں نےر وانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا ’’میں ایک کمانڈو ہوں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں، چند ہفتوں یا ماہ میں پاکستان واپس آجاؤں گا‘‘ اب ایک بار پھر 2018 کے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے انہوں نے واپس آنے کا اعلان کیا تھا جس کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے انہیں گرفتار نہ کئے جانے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی اور انہیں پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بھی فراہم کردیا گیا تھا تاکہ وہ باآسانی اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراسکیں۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے عین موقع پر وطن واپس آنے کا فیصلہ تبدیل کرلیا اور اپنی جماعت کی سربراہی سے بھی مستعفی ہوگئے ۔