مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کے کچھ مہینے بعد جب بعض وزیروں کو کرپٹ اورنااہل قراردے کرانہیں وزارتوں سے ہٹادیا گیا اوریہ کہا گیا کہ اب ہرتین مہینے بعد وزرا کی کارکردگی کا جائزہ لے کر"بے کار" لوگوں کو اسی طرح فارغ کیا جائے گا یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد کبھی یہ سہ ماہی جائزہ نہیں لیا گیا،ماضی میں یہ لکھ کرمیں گستاخی کا مرتکب ہوا تھا کہ جب سارے ایم پی ایز ہی ایک جیسے ہیں نہ وہ حکومت کا تجربہ رکھتے ہیں اورنہ ہی انہوں نے کبھی اتنے بڑے کاموں کا اختیار اورمالی بوجھ برداشت کیاہےتوکس کو کس سے بدلا جائے گا۔ میں نے اپنے کالم میں استورکی بلندوبالا پہاڑیوں پرایک کہانی لکھی تھی کہ ان پررمضان کچھ ایسی صورتحال میں آگیا تھا کہ اس کی طرف آنے والے تمام راستے برف سے ڈھک گئے تھےیہاںایک یونٹ پڑا تھا جس کے انچارج افسر نے رمضان المبارک کے تیس دنوں کے لئے مینو بنانا شروع کیا توانہیں بتایا گیا کہ اسٹورمیں صرف پیاز، بیسن اورآلو موجودہیں ۔ پہلی سحری کے لئے اس سامان سے سالن بنانے کا فیصلہ ہوا، پہلی افطاری کے لئے اس سے پکوڑے بنانے پراتفاق ہوا، پھر سحری اورپھر افطاری کا یہ سلسلہ چلتا رہا، تیسرے دن کا مینو بناتے ہوئے جب انچارج افسر کو بتایا گیا کہ آج پھر پکوڑے ہی بنیں گے توانہوں نے تائو کھاتے ہوئے کہا کہ پکوڑوں کے علاوہ بھی تو کچھ بنایا جائے کب تک پکوڑے کھائے جائیں گے تو میس انچارج نے افسر صاحب کوسیلوٹ مارتے ہوئے نہایت معصومیت سے کہا کہ سرجب آپ کے پاس صرف آلو، پیاز اوربیسن ہوگا تو اس سے صرف پکوڑے ہی بنیں گے۔ اب جبکہ عمران خان کی ٹیم پانچ سال تک حکومت کرنے کے بعد اپنے اپنے حلقوں میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پرووٹ مانگنے چلی گئی ہے توذرا ایک بارپھر جائزہ لینا مقصود ہے کہ اس حکومت کے جانے کے بعد صوبہ کس حال میں ہے، کس ممبر کو اس کی کس کارکردگی پر دوبارہ پارٹی ٹکٹ سے نواز کر لوگوںکے سامنے بھیجا جارہا ہے، صوبے کی مالی حالت تو جوبھی تھی ۔کیا صوبے پرحکومت کرنے والوں نے دانش کے میدان میں بھی آگے کا سفرکیا ہے یا وہ اپنی پرانی پوزیشن سے بھی پیچھے چلے گئے ہیں؟ پانچ سال بیت گئے ان پانچ سالوں میں میاں نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا۔وہ سب نے دیکھ لیا۔ پیپلزپارٹی بھی اپنی پرانی پوزیشن سے کہیں اورجاکرکھڑی ہوگئی۔ اس صورتحال میں اب تک سارا کا سارا فائدہ عمران خان کو جاتا نظرآرہا ہے ویسے بھی ہمیں ان کی نیت پرشک نہیں کیونکہ نیتوں کاحال صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، ان کی عوامی مقبولیت اورانہیں حاصل حمایت سے بھی انکار نہیں۔ وہ یقینا اس بات کے حقدارہیں کہ ملک کے وزیراعظم بنیں، ان کے جلسوں میں ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوںاورمرد وخواتین کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ انہیں وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں انہوں نے خیبرپختونخوا میں پانچ سال حکومت کرکے تجربہ بھی حاصل کرلیااوراب وہ اپنی ناتجربہ کاری اورکمزوریوں سے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔ جس طرح مختلف جماعتوں کے لوگوں نے ان کے ہاں پناہ لی ہے اوروہ الیکشن ان کے پلیٹ فارم سے لڑنا چاہتے ہیں اس سے تو یہ بات اوربھی واضح ہوگئی ہے کہ عمران خان نہ صرف تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے بلکہ وہ پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی الیکشن لڑیں گے، اے این پی کے بہت سے لوگ بھی ان کو پیارے ہوئے ہیں۔ جمعیت علما اسلام اورجماعت اسلامی کے کچھ لوگ بھی ان کے کیمپ کا حصہ بن چکے ہیں۔ وہ ہرلحاظ سے الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے حکومت بنانے کے حقدارہیں۔ وہ جب ملک بھر میں الیکشن جیتنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں تو گویا وہ پورے پاکستان کو خیبرپختونخوا میں اپنی پانچ سالہ کارکردگی کی بنیاد پرمطمئن کرنے جارہے ہیں ۔تو کیا وہ خیبرپختونخوا میں اپنی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کا بے لاگ اورایمانداری سے جائزہ لیں گے کہ ان کی وہ حکومتی ٹیم جس نے انہیں ان پانچ سالوں میں ہرا ہرا ہی دکھایاوہ دوبارہ انتخابات میں جاتے وقت پریشان کن حد تک گروپوں میں بٹ کربے نقاب کیوں ہوئی؟ کیوں پارٹی کے اہم وزرا پارٹی ٹکٹیں لینے کے معاملے پر دیگر جماعتوں سے زیادہ اخلاقی انحطاط کا شکار نظرآئے؟ پورے صوبے میں ایک ہی بڑے بس منصوبے بی آرٹی یعنی جنگلہ بس کی لاش بیچ چوراہے کیوں اس حال میں پڑی ہے کہ سترارب روپے بھی خرچ ہوگئے اورٹھکیدارابھی سے پیسے نہ ملنے کی دہائی بھی دے رہے ہیں؟سترارب روپے میںسے ساٹھ ارب پروجیکٹ کا اپنا خرچہ ہے جبکہ دس ارب کاوہ نقصان ہے جو اس بڑے شہر کو ناتجربہ کاری میں ادھیڑے جانے کی وجہ سے ہوا۔ کوئی پوچھ سکتا ہے کہ کیوں سرکاری افسروں کو اپنی مرضی کا کام نہ کرنے پرکس نے دیوارسے لگا دیا؟ اگرحکومت کامیاب تھی توجاتے جاتے وزیروں نے یا وزیراعلیٰ نے ایک پریس کانفرنس میں اپنی کارکردگی سے دنیا کو آگاہ کیوں نہیں کیا؟ سوات ایکسپریس وے کے ادھورے پروجیکٹ کا افتتاح کیوں کیا گیا؟ بہت سارے سوال ہیں ،مالی معاملات تو کوئی نہ کوئی ادارہ دیکھ ہی لے گا لیکن دانش اورسمجھ بوجھ کے میدان میں جوکمی تھی اس کا آڈٹ اوراحتساب کون کرے گا؟خیبرپختونخوا میں رہنے والے اب بھی تحریک انصاف کو ووٹ دینگے کیونکہ اس میں کمال پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ اس کی طاقت اس کے سیاسی دشمن کی کمزوری ہے۔تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے بعد اپنی اس ٹیم کے ساتھ اب پورا ملک چلانے جارہی ہے ہم یہ ہی مشورہ دیں گے کہ ذرا خیال رکھے اوردانشمندی کا مظاہرہ کرے۔