• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اس ملک میں صدراور وزیراعظم تو لاتعداد آئے مگر ایک بھی حقیقی لیڈر پیدا نہ ہوسکا اُسکی کیاوجہ ہے ؟ وجہ یہ ہے کہ پاکستان میںآج بھی لیڈر شپ کا مطلب عہدہ ہے، پاکستان میں آج بھی لیڈر شپ کا مطلب اختیارات ہیں ،پاکستان میں آج بھی لیڈر شپ کا مطلب ایک مخصوص کرسی ہے اورپاکستان میں لیڈرشپ آج بھی وراثتی اقتدار کا نام ہے۔ مگر کسی مخصوص عہدہ یا اختیارات سے جڑنا ازخود آپ کی لیڈر شپ کی صلاحیتوں کی نفی کرتا ہے اور یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ آپ کسی عہدہ یا اختیارات کے بغیر لیڈر شپ کے قابل نہیں ہیں ۔لیڈر شپ کی یہ تعریف اس قدر بے جان ہے کہ آپ اپنی شخصیت قابلیت یا کردار سے کسی کوبھی انفرادی یا قومی سطح پربھی رہنمائی فراہم نہیں کر سکتے۔
پاکستان اور پوری دنیا میں سیاست کا مقصد صرف اور صرف عہدہ اور مخصوص اختیارات کا حصول ہو کے رہ گیا ہے ۔اگر آپ کو عہدہ اور بغیر عہدہ کے کسی شخص کی اہمیت کا اندازہ لگانا ہو تو جنرل پرویز مشرف کی مثال دیکھ لیں ان کی تمام تر شان و شوکت رعب و دبدبہ اقتدار کے رخصت ہوتے ہی غائب ہو گیا ہے۔ اسی طرح نواز شریف یا شاہد خاقان عباسی کی تصاویر نکال کے دیکھیں۔ اقتدارسے پہلے اور بعد میں ان کی باڈی لینگوئج اور چال ڈھال کا مشاہدہ کریںاور پھر اس بات پر غور کریں کہ کیسے عہدہ انسان کی شخصیت کی پہچان ہی بدل دیتا ہے ۔
ہمارے وطن عزیز میں جتنا بڑا نام اور عہدہ ہوگا ،جتنی زیادہ اکٹراور تکبر ہوگا ،آپ اُتنے ہی بڑے لیڈر مانے جائیں گے۔یہاں لیڈر شپ کا ایک ہی مطلب ہے وہ ہے پروٹوکول اور دکھاوا۔ احساس کمتری کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ان لوگوں نے گاڑیوں کی نمبر پلیٹوںپر بھی MNA, MPAلکھوایا ہوا ہے ۔
پاکستان میں اب کالے شیشوں والی بڑی گاڑی جسے پروٹوکول کی کئی دوسری گاڑیوں نے گھیرا ہو، اور وہ اشارے توڑتی ہوئی باقی ٹریفک کو روک کر سڑکوں سے نہ گزرے، تو یہ مخصوص لوگوں اور ان کے عہدوں کی نشان دہی نہیں کرتی ۔اور اس سب پر یہ لوگ بجائے شرمندہ ہونے کہ فخر محسوس کرتے ہیں۔دوسری طرف لوگوں سے گھلنے ملنے اورعاجزی و انکساری سے پیش آنے والے شخص کو کم ترخیال کیا جاتا ہے ۔یہ اوصاف اس قدر نایاب ہیں کہ اگر کوئی سیاسی رہنما کبھی کبھار ایسی حرکت کر بھی بیٹھے تو یہ ایک بریکنگ نیوز بن جاتی ہے جس کی تازہ مثال وزیر اعلیٰ بلوچستان کا وزیر اعلیٰ ہائوس سے جاتے ہوئے اپنے ملازمین کی طرف ہاتھ ہلانا ہے ۔یہ اتنی بڑی خبر بنی کہ ٹی وی چینلز نے باقاعدہ اپنی نشریات روک کر اُس فوٹیج کو ٹی وی پربار بار چلایا ۔ہمارے سیاسی کلچر میں ،کارکن ،جن کی وجہ سے یہ لوگ لیڈربنتے ہیں ان میں اور حکمرانوں میں کتنا فرق ہے اس کا عملی مظاہرہ گزشتہ دنوں اس وقت دیکھنے کو ملا جب ایک تقریب کے دوران ایک سیاسی کارکن نے اپنے قائد نواز شریف سے ہاتھ ملانے کی غرض سے اسٹیج پر جانے کی کوشش کی تو نواز شریف کے اسٹاف نے اسے دھکا دے کر نا صرف اسٹیج سے نیچے گرادیا بلکہ مارتے ہوئے دور لے گئے ۔سیکورٹی رسک چاہے جتنا مرضی بڑا ہو لیکن یہ ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ایک کارکن کو محض ہاتھ ملانے کے جرم میں بُری طرح زدوکوب کیا جائے۔
پاکستان میں لفظ لیڈر شپ کی عملی تشریح وہ ظالم وڈیرہ یا جاگیردار ہے جس کے سامنےلوگ صرف اسی وجہ سے جھکتے ہیں کہ وہ صاحب سے کوئی چھوٹا موٹا کام لے سکیں یہی وہ رویہ ہے جسے ہمارے معاشرے میں ’’بڑے ایسے ہی ہوتے ہیں‘‘کہ طور پر قبول کر لیا گیا ہے اور اسی وجہ سے سیاستدانوں کا تشخص تباہ کر دیاگیا ہے ۔لیکن ’’بڑے ‘‘ایسے نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ ایک جمہوری رویہ ہے ہمیں عوام کو شعور دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ حکمرانوں سے جواب دہی کا حق مانگ سکیں۔
حقیقی جمہوریت کا مطلب ہے ’’لوگوں میں سے۔ لوگوں کیلئے ‘‘۔ حقیقی جمہوری لیڈر شپ بھی عوام سے ہی ہوتی ہے ان کے کردار اورا عمال انہیں عوامی نمائندہ ثابت کرتے ہیں۔اسکی تازہ مثال ہالینڈ کے وزیر اعظم مارک روٹ نے اس وقت قائم کی جب پارلیمنٹ میں ان کے ہاتھ سے کافی کا کپ گر گیا تو وہ خود فرش کو صاف کرنے لگے جبکہ پارلیمنٹ کے خاکرو ب پرجوش انداز میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے نہ صرف یہ کہ انہوں نے صفائی کی، بلکہ عملے سے وائپر کواپنے قد کے مطابق ایڈجسٹ کرنا بھی سیکھا تاکہ اگلی دفعہ کافی گرنے کی صورت میں انہیں صفائی میں مشکل پیش نہ آئے ۔ہالینڈ کے وزیر اعظم کی اس عاجزی نے لوگوں کے دلوں کو جیت لیا اور ہر طرف ان کے اس فعل کی تعریفیں ہونے لگیں ۔ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ وزیراعظم روٹ نے کچھ مختلف یا عوامی کیا ہو بلکہ اس سے پہلے 2017ء میں بھی جب وہ ہالینڈ کے بادشاہ سے ملنے گئے تو پروٹوکول کی گاڑیوں کی بجائے انہوں نے اپنی ذاتی سائیکل کو ترجیح دی ،اور اسی پر محل پہنچ گئے ۔یہ سب کچھ پاکستان میں تقریباً ناقابلِ تصور ہے۔
المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ عہدہ پر بیٹھے شخص تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ روایت اس کے خاندان اور یار دوستوں سب تک پھیلی ہوتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ رشتہ دار ہونے کے ناطے اس سب ٹھاٹھ بھاٹھ پر ان کا بھی حق ہے اسکی مثال گزشتہ دنوںاُس وقت دیکھنے کو ملی جب عدالت میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کیلئے آنے والے بہت سے اُمیدواروں کو صرف اس وجہ سے سائیڈ پر کر دیا گیا کیونکہ وہاں سابق وزیر اعظم کی بیٹی کو بھی اپنے کاغذات جمع کروانے آنا تھا۔ سراغ رساں کتے، سخت ترین سیکورٹی چیک اور گاڑی پر پھولوں کی پتیوں کی بارش اس بات کی عکاس تھی کہ ہماری لیڈرشپ کی سمجھ ،تعریف اور برتائوکس قدر غلط اصولوں پر مبنی ہیں۔ دوسری طرف جب اوباما اقتدار میں تھے تو ان کی بیٹی ایک مقامی ریسٹورنٹ میں کیش کائونٹر پر کام کرتی تھی۔اگر آپ پاکستانی اشرافیہ کے بچوں کو ایسی عادات سکھانے کی کوشش کریں تو یہ ایک طرح سے ان کی سیاسی توہین ہو گی۔کسی بھی عہدہ پر انحصارکرنے والی لیڈر شپ کبھی دیر پا نہیں ہوتی اصل لیڈر شپ کبھی کسی عہدے یا اختیارات کی محتاج نہیں ہوتی ایسے تمام لیڈران جنہیں انکے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد اور اس دنیا سے جانے کے بعد بھی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ اخلاقیات کو اختیارات پر ترجیح دی ،جو یہ بات سیکھ گئے ہیں کہ دراصل عاجزی ہی میں عظمت ہے ،جیسے پھل دار درخت جھک جایا کرتے ہیں ۔
(صاحبِ تحریر کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین